زمین ایک سبز، نیلی اور سفید گیند جو اس خلا میں معلق بے خبر اپنے مدار میں چکر کاٹ رہی ہے۔ خلا میں وہ واحد معلوم جگہ جہاں زندگی موجود ہے اور اس کی سطح زندگی سے اٹی پڑی ہے۔ میں اور آپ، قسم قسم کے جانور، پودے، فنگس اور جراثیم۔ میدانوں میں، جنگلوں میں، صحراوٗں میں، پہاڑوں پر، دریاوٗں اور سمندروں کے اندر۔ لیکن اسی زمین پر ہمارے پیروں کے نیچے کچھ پنہاں ہے۔ ایک پوری الگ ہی دنیا۔ جس سے ہم آہستہ آہستہ پردے اٹھا رہے ہیں۔ یہ ڈیپ بائیوسفئیر ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے قدموں سے کہیں نیچے گہرائی میں ہے۔ اس کو تاریک بائیوسفئیر بھی کہا جاتا ہے (کیونکہ یہاں پر مکمل تاریکی ہے)۔
ڈیپ کاربن آبزرویٹری عالمی سائنسدانوں کی کمیونیٹی ہے جس میں باون ممالک سے ایک ہزار سائنسدان کام کر رہے ہیں جو پچھلے دس سال سے اس مخفی دنیا کی سٹڈی کر رہے ہیں کہ یہاں پر کیا رہتا ہے، کون رہتا ہے۔ دس سال کی تحقیق کے بعد پچھلے ماہ جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں پر رہنے والی زندگی میں کاربن کی مقدار پندرہ سے تیئس ارب ٹن ہے۔ دنیا کے تمام انسانوں کے وزن کو جمع کیا جائے تو اس سے سو گنا زیادہ۔ اس ٹیم نے گہری کانوں اور بورہولز کے ذریعے زمین کی سطح سے پانچ کلومیٹر نیچے اور سمندر سے اڑھائی کلومیٹر نیچے سے سینکڑوں سیمپل اکٹھے کئے جس کی مدد سے اس گہرے بائیوسفئیر کا سائز اور اس کی حالت معلوم کی گئی اور یہ پتا لگا کہ یہ بہت بڑا ہے۔ اس کا سائز دو ارب کیوبک کلومیٹر کے مائیکرو آرگنزم موجود ہیں۔ یہ دنیا بھر کے سمندروں کے والیوم سے دگنا ہے۔ یعنی دنیا بھر کے سمندروں کا پانی ایک کاسمک گلاس میں ڈالیں اور دوسری طرف ان تمام جانداروں کو ایک اور گلاس میں بھر دیں۔ ان جانداروں کو بھرنے کے لئے گلاس کا سائز دگنا چاہیے ہو گا۔
اس میں صرف اس کا سائز ہی متاثر کن نہیں۔ اس میں زندگی کی اقسام بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ سائنسدان اس کو گہرا گالاپاگوس کہتے ہیں یا زمین کے نیچے پایا جانے والا ایمیزون کا جنگل۔ یہاں پر یاد رہے کہ ہم دیومالائی کہانیوں کے بھوت پریت جیسی زندگی کی بات نہیں کر رہے۔ یہاں پر بیکٹیریا اور آرکیا موجود ہیں۔ بہت طرح کی اقسام کے۔ اور یہ اتنے زیادہ ہیں کہ اندازہ ہے کہ بیکٹیریا اور آرکیا کی کل اقسام میں سے دو تہائی اقسام یہیں پر ہیں۔ یاد رہے کہ 2016 میں لگائے جانے والے اندازے کے مطابق ان مائیکروبز کی دس کھرب اقسام سطح ہیں۔ (ہم ان میں سے بہت کم سے واقف ہیں)۔ اس سے دگنی اقسام زندگی کی وہ ہیں جو زمین کے نیچے موجود ہیں۔
اس تھقیق کا آغاز برطانوی سائنسدان جان پارکس کے اصرار پر ہوا۔ ان کا اندازہ تھا کہ سمندر کی تہہ کے کیچڑ میں بھی زندگی ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے 2002 میں پہلا بحری جہاز بھیجا گیا۔ جس نے سمندر کے نیچے سیمپل اکٹھے کئے۔ ان کو جب مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھا گیا تو اس میں نظر آنے والے جراثیم اس تحقیق کا آغاز تھا۔
ان کو ہم ان کے ڈی این اے کی مدد سے پہنچانتے ہیں۔ برگد کے درخت سے لے کر چھپکلی اور جراثیم تک۔ ڈی این اے کا ڈیزائن ایک ہی طرح کا ہے۔ حیران کن طور پر ان بالکل ہی مختلف مائیکروبز کا ڈئزائن بھی بالکل ویسے ہی تھا۔ لیفٹ ہینڈڈ امینو ایسڈ کی مدد سے بنا ویسا ہی ڈی این اے۔ اس زندگی کو جب ہم سطح پر پالنے اور بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ناکام ہو جاتے ہیں۔ پندرہ سال میں ایک تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا۔ اس کی وجہ توانائی ہے۔ ان میں قسم قسم کے مائیکروب ہیں اور جو مائیکروب زیادہ گہرائی میں رہتے ہیں، ان کی توانائی کی کھپت ایک زیپٹو واٹ ہے۔ یہ کس قدر کم ہے؟ انسان کی کھپت سو واٹ ہے۔ اگر ایک انناس لیا جائے اور اس کو دن میں نو لاکھ بار کمر کی اونچائی سے زمین پر گرا کر ایک ٹربائن چلائی جائے تو یہ انسان کی ایک روز کی توانائی کی ضرورت ہے۔ گہری جگہوں پر رہنے والے جراثیم کی ضرورت اتنی ہے کہ اگر ایک نمک کا دانہ لیا جائے۔ اس کے ایک ہزار ٹکڑے کئے جائیں اور اس کو ایک ملی میٹر کے ایک لاکھویں حصے تک دن میں ایک بار نیچے گرایا جائے تو ان کی توانائی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اس قدر کم توانائی کے ساتھ بھی زندگی چل سکتی ہے۔ یہ ایک نئی دریافت تھی۔
جس طرح ان کا تعلق توانائی کے ساتھ بڑا مختلف قسم کا ہے، ویسے ہی وقت کے ساتھ۔ اگر یہ ہمیں بیمار کرنا چاہیں تو دوسرے جراثیم ان کو فوری طور پر ہرا دیں گے۔ اس لئے یہ اس سست رفتار زمین کے نیچے ایس جگہوں پر ہی رہ سکتے ہیں جہاں پر ان کو کوئی تنگ نہیں کرتا۔
ہماری اپنی بائیولوجی کیوں اس قدر تیزرفتار ہے؟ ایک خلیہ ایک دن میں ہی کیوں مر جاتا ہے؟ ہمارے عمر سو برس کے قریب کیوں ہوتی ہے؟ اگر کائنات کی عمر کا سکیل دیکھا جائے تو یہ بہت ہی مختصر ہے لیکن یہ وقت بس ایسے ہی نہیں ہے۔ یہ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کا کمال ہے جو زندگی چلنے کا ایندھن مہیا کرتا ہے۔ زمین کی زندگی ایک سرکولیٹری سسٹم ہے جس میں سورج ایک دھڑکتا دل ہے۔
زمین کی گہرائیوں میں، سورج سے کٹ کر، یہ زندگی زمین کی جیولوجی کے ردھم پر چلتی ہے۔ جب تک توانائی کا معمولی سا گریڈینٹ بھی مل جائے، یہ اس میں سے اپنی زندہ رہنے کی توانائی ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ ایک خلئے کی زندگی ہزاروں یا لاکھوں برس بھی ہو سکتی ہے، اس سے پہلے کہ یہ دو میں تقسیم ہو۔ یہ رفتار سورج کی دھڑکن پر چلنے والی تیزرفتار زندگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سورج کی موجودگی سے بے خبر ان مائیکروبز کا ایک دن ہماری صدیوں اور زمانوں کے برابر ہے۔
ڈی این اے سیکوئنس کرنے کی بہتر تکنیک کے ساتھ ہم ان کو بہتر طریقے سے جان رہے ہیں۔ ان گہرے نامعلوم کو غور سے دیکھ کر ہم کچھ جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا زندگی سطح سے گہرائی میں گئی یا گہرائی سے سطح کی طرف آئی؟ لیکن اس تحقیق سے ایک چیز جو سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ زندگی کی یہ شاخ بھی الگ نہیں اور زندگی غالبا زمین پر صرف ایک ہی بار شروع ہوئی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ایک بار شروع ہو جائے تو زندگی قسم کے ماحول میں جگہ بنا لیتی ہے۔ جیوجیما باروسی ایک یک خلوی جاندار ہے جو سمندر کی آتش فشانی چٹانوں میں 121 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی زندہ ہے اور افزائشِ نسل کر رہا ہے۔ ابھی تک زمین پر ہم کوئی بھی ایسا ماحول نہیں ڈھونڈ پائے جو زندگی سے خالی ہو۔
خلا میں چکر کاٹتی یہ بے خبر سبز، نیلی اور سفید گیند سطح سے لے کر کئی کلومیٹر کی گہرائی تک ہر قسم کے حالات میں ہر طرح کی زندگی سے اٹی پڑی ہے۔ زندگی، چٹانوں، پانی، معدنیات، فضا کے آپس میں الجھے ہوئے چکر اس کو شکل دیتے ہیں۔
بی بی سی کی اس پر رپورٹ
https://www.bbc.com/…/sc…/the-scale-of-life-beneath-our-feet