تربیت:
جس خطے سے ہم تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کوئی عظیم زندہ تہذیب کا وارث نہیں۔ (موہنجو داڑو اورہڑپہ کی طرف نہ چلے جائے گا۔۔ جن کی معاشرتی اقداراورثقافت کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔)۔ ہم کئی سو سال غیر ہندی باہروالی قوموں کے غلام رہے ہیں۔ آتے جاتے لٹیروں کے۔ اس لئے ثقافتی اور اقدار کے لحاظ سے ہمارا کوئی قابل فخرورثہ ہے نہ کریکڑ، اخلاق، اصول پسندی، ورک ethics, صفہائی ستھرائی کی عادت، انسانی رویئے۔۔۔ سب میں اللہ ماشاللہ ہم انتہائی نچلے درجات کے حامل ہیں۔ ایک مہذب فرد بننے کے لئے تربیت بہت ضروری ہے۔ یہ نہ ہمارے اسکولوں میں موجود ہے، نہ گھروں میں، ہمیں بچپن میں بتایا جاتا ہے ، دوسروں کے ساتھ عملا اچھا رویہ، اچھا سلوک، برتاو، برداشت، صبر، احترام، احسان نہیں سکھایا جاتا ہے۔ غصے اورحسد پرکیسے کنٹرول کرنا ہے جو اخلاقیات کے نام پر کچھ نصاب میں ہے۔۔ تو وہ چونکہ عملا ماحول میں موجود ہی نہیں ہوتا۔۔چنانچہ وہ ایک وقتی رٹا رہ جاتا ہے۔ خود ٹیچر بدتہذیب ہونگے۔ ماں باپ اوردیگرگھرکے افراد بدتہذیبی کررہے ہونگے۔ جھوٹ بول رہے ہونگے۔ کسی اصول پرنہ چل رہے ہونگے۔ کہیں کوئی صفہائی اور ترتیب کا خیال نہ رکھ رہا ہوگا۔۔ بڑا چھوٹے سے کام کروا رہا ہوگا۔ میل فی میل میں امیتاز خود گھرمیں ہی ہوگا، ماں بیٹے کو بیٹی پرترجیح دے گی، وہ بیٹے کو نہیں بتائے گی، کہ ہرفرد کا احترام کرنا ہے۔ کسی کمزورکا فائدہ نہیں اٹھانا۔ کسی لڑکی کو نہیں چھیڑنا۔۔ تمھاری بہن نے بھی باہرجانا ہے۔ سارا زور عبادت، ثواب، گناہ والا مذہب ڈھونسنے پرزورہوتا ہے۔ نماز روزے ، تلاوت کرلیں گے، تو کریکڑخود بخود پیدا ہوجائے گا۔۔ جو الٹا ریاکاری پیدا کردیتا ہے۔ ریاست اور دیگرحکمران طبقات کو بھی اپنے وطن کے شہریوں کی تریبت کوئی ترجیح نہیں۔ لہذا ایک غنڈہ کلچر ہے نیچے گلی محلے سے لے کر، دفاتر، سیاست، ریاست تک۔۔ بہت اچھا چیف جسٹس یا کوئی اورطاقت کے عہدے والا آ جائے گا تو وہ غنڈوں کی طرح behave کررہا ہوگا۔۔ یہ ہمارے 'اچھے' ہونے کی علامت ہے۔ ہماری معاشرت، رویوں اورسائیکی سے مہذب ، سوک اقدارنام کی کوئی چیز نہیں۔ ہم سب لوگ نسل درنسل ایسے پالے جارہے ہیں، جیسے آوارہ کتے۔۔ چنانچہ ہمارے ہاں بڑے پڑھے لکھے، روشن خیال، ترقی پسند، لبرل، صاف سھترے ماحول میں رہنے والوں کو بھی ایک منٹ نہیں لگے گا کہ وہ بدتہذیبی ، بدزبانی، تہمت بازی میں اترآئے گا۔ کسی کی دم کو زرا چھو کردیکھو۔۔ وہ ایک منٹ میں باولا کتا بن جائے گا۔۔۔ آپ کی ماں بہن کرنے لگے گا۔۔ کسی کوشک کا فائدہ بھی نہیں دینا، فورا تہمت اورفتوی جاری کرنا ہے۔ چونکہ با کردار تصور یا مثال ہمارے ہاں ناپید ہے، ہم سب کردار سے عاری معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ چنانچہ اگرکوئی بدقسمتی سے ایسے کسی فطری شرافت سے باکردار ہوبھی جائے، تو اپنے زہنوں کی غلاظت فورا اس پرپھینک دیں گے۔۔ اور یوں 'بدلہ' لے کر پھراس پرفخر اورخوشی محسوس کریں گے۔ فتح کی تسکیں کا مزہ ہوگا۔ جب تک ہم دوسرے کی گردن نہ کاٹ دیں، ہم اپنا قد اونچا نہیں کرسکتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔