طربیہ اختتامیے
تحریر ؛ مارگریٹ ایٹووڈ ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
(کچھ مصنفہ کے بارے میں )
یورپی اقوام کی ، یورپ سے باہر ، استعماری کوششوں کی خونچکاں داستانیں ، وقت کے وسیع مدار پر کچھ زیادہ پرانی نہیں ہیں ۔ یہ کچھ پانچ صدیاں پہلے تک ہی جا پاتی ہیں ۔ ان میں امریکہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا وہ مثالیں ہیں جہاں جا کر بسے ’ گورے‘ ابھی تک اپنی ’ الگ ‘ شناخت بنانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ شمالی امریکہ میں تووہ کسی حد تک ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے ’ انگریزی ‘ زبان کو ’ امریکی انگریزی‘ اوراس میں لکھے ادب کو ’ امریکی ادب ‘ کہنا شروع کر دیا ہے لیکن کینیڈا اور آسٹریلیا میں ان کی تگ و دو تاحال جاری ہے ۔ لکھاری مارگریٹ ایٹووڈ (Margaret Eleanor Atwood) بھی انہی کینیڈین ادیبوں میں سے ایک ہے جو اسی کوشش میں 1960 کی دہائی سے سرگرداں ہے جب اس کی پہلی کتاب ( دی سرکل گیم ؛ شاعری، 1964 ء ) سامنے آئی تھی ۔
اوٹاوہ ، اونٹریو میں 18 نومبر 1939 ء کو پیدا ہوئی اس ادیبہ کی تاحال تیس سے زائد ناولوں ، شاعری ، کہانیوں کے مجموعوں ، بچوں کی کہانیوں اور مضامین کے مجموعوں کے علاوہ کئی تالیفی کتب سامنے آ چکی ہیں ۔ وہ ان کے علاوہ ٹی وی کے لئے سکرپٹ بھی لکھتی رہی ہے اور مصورہ کے طور پر بھی جانی جاتی ہے ۔
اس نے 1968ء میں جم پولک نامی بندے سے شادی کی جو 1973ء تک برقرار رہی پھر اس نے اپنے ہم عصر ناول نگار گریم گبسن سے تعلق جوڑا ۔ اس تعلق کے نتیجے میں اس نے ایک بیٹی ایلینورجیس ( Eleanor Jess ) کو 1976ء میں جنم دیا ۔ گریم گبسن اس وقت 82 سال کا ہے جبکہ وہ خود 77 برس کی ہے ، وہ دونوں ٹورنٹو ، کینیڈا میں آباد ہیں ۔
جب اس کا پہلا ناول ’ The Edible Woman ‘ سن 1969 ء میں شائع ہوا تو فیمینسٹ تحریک زوروں پر تھی لہذٰا اسے بھی فیمینزم سے جوڑا گیا اور ایٹووڈ کو فیمینسٹ قرار دیا جانے لگا ۔ وہ اس لیبل سے خود کو آزاد رکھنا چاہتی تھی اس لئے اس نے اس ناول کے اس ایڈیشن ، جو 1979 ء میں شائع ہوا ، کے لئے خصوصی طور پر پیش لفظ لکھا اور اسے ’ فیمینسٹ کام ‘ کی بجائے ’ پروٹو فیمینسٹ کام ‘ کا نام دیا ۔ وہ خود کو ’ انسانیت ‘ کا داعی گردانتی ہے اور جانوروں کے حقوق کی بھی علمبردار ہے ۔ یہ تھیم اس کے کئی ناولوں بشمعول ’ دی ایڈیبل وومن‘ ، ’ سرفیسنگ ‘ اور ’ کیٹس آئی‘ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اُس کے ’ قدرت پسند ‘ ہونے کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2013 ء میں جب یونیورسٹی آف ٹورنٹو نے وہاں کھیل کے میدنواں میں مصنوعی ’ ٹرف ‘ بچھانے کا اعلان کیا تو اس نے اس کی سخت مخالفت کی تھی ۔ وہ کینیڈین ’ شناخت ‘ کے قضیے میں اس حد تک گئی کہ امریکہ مخالف ہو گئی ۔ اس کا اظہار اس کے 1985ء میں شائع ہوئے ' ڈسٹوپین ' (Dystopian) ناول ’ The Handmaid's Tale ‘ میں واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو مستقبل کی ایک مملکت ’ Republic of Gilead ‘ (سابقہ امریکہ) ، جہاں ایک مذہبی جنونی فوجی آمریت کی حکومت ہے ، میں بُنا گیا ہے اور اس کے باسیوں کی واحد امید ’ کینیڈا ‘ ہے ۔ امریکہ کے 2016 ء میں ہوئے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے بعد سے ایٹووڈ کا خیا ل ہے کہ اس کا یہ ناول امریکہ میں ایک بار پھر سے بکنا شروع ہو جائے گا ۔
اس نے اوسلو ، ناروے کے پراجیکٹ ’ Framtidsbiblioteket ‘ ( مستقبل کی لائبریری ) جو 2014 ء میں قائم ہوا تھا ، کے لئے اپنا ناول’ Scribbler Moon ‘ سن 2015 ء میں مکمل کیا تھا جو سو سال بعد 2114 ء میں ہی سامنے آ پائے گا ۔ یہ اس پراجیکٹ کو موصول ہونے والا پہلا مسودہ تھا ، دوسرا مسودہ انگریز ادیب 48 سالہ ڈیوڈ میچل کا ہے جو اس نے 2016 ء میں دیا ، تیسرا آئس لینڈ کے54 سالہ سجون ( Sjón ) سے متوقع ہے ۔
مارگریٹ ایٹووڈ کی درج ذیل تحریر ؛ طربیہ اختتامیے ' Happy Endings ' جو پہلی بار 1983 ء میں اس کی کتاب ’ Murder in the Dark ‘ میں سامنے آئی تھی ، ایک تجرباتی کہانی ہے ۔ اُس کا اپنی اس تحریر پر کہنا ہے ؛
” مجھے معلوم نہیں کہ یہ کس قسم کی تخلیق ہے ؛ یہ نہ نظم ہے نہ نثری نظم اور نہ ہی افسانہ ۔ یہ خلاصہ ، تبصرہ یا سوال نامہ بھی نہیں ہے ، حکایت یا ضرب المثل یا پھر متناقضہ بھی نہیں ہے ۔ اسے آپ ’ میوٹیشن ‘ ( mutation ) کہہ سکتے ہیں ۔ اسے لکھتے ہوئے مجھے ایک خاص قسم کی عیارانہ خوشی محسوس ہوئی جیسے بندہ گمنامی میں رہتے ہوئے دیوار پر ، ایسے سمے میں جب اسے کوئی نہ دیکھ رہا ہو ، کچھ لکھ ڈالے ۔ ۔ ۔ میرے لئے یہ قدرے مایوسی کی بات ہے کہ لوگ پہلے سے ہی قانون و قاعدے بنا چکے ہیں اورمیری اس ذہنی اختراح کو ’ میٹا فکشن ‘ کہتے ہیں ۔ ''
طربیہ اختتامیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان اور میری ملتے ہیں ۔
آگے کیا ہوتا ہے ؟
اگر آپ خوشگوار اختتام چاہتے ہیں تو ’ اے ‘ کو پڑھیں ۔
۔ ۔ ۔ اے ۔ ۔ ۔
جان اور میری محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اور شادی کر لیتے ہیں ۔ دونوں کے پاس اچھی تنخواہوں والی نوکریاں ہیں جو ان میں تحریک پیدا کرنے کے علاوہ للکارتی بھی ہیں ۔ وہ ایک پیارا سا گھر خریدتے ہیں ۔ جائیداد کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں ۔ بالآخر جب وہ زندگی کی مناسب آسائشیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ دو بچے پیدا کرتے ہیں اور خود کو ان کے لئے مختص کر دیتے ہیں ۔ بچے بہتر طور پر پرورش پاتے ہیں ۔ جان اور میری کی ازدواجی زندگی بھی عمدہ گزرتی ہے اور انہیں دوست بھی اچھے ملتے ہیں ۔ وہ اکھٹے چھٹیاں مناتے جاتے ہیں اور خوب مزہ کر تے ہیں ۔ وہ ریٹائر ہوتے ہیں ۔ ان کے شوق بھی انہیں متحرک رکھتے ہیں اوران سے ان کا من بھی راضی رہتا ہے۔ بالآخر وہ مر جاتے ہیں ۔ کہانی کا بس یہی انجام ہے ۔
۔ ۔ ۔ ب ۔ ۔ ۔
میری کو جان سے محبت ہو جاتی ہے لیکن جان اس سے محبت نہیں کرتا ۔ وہ اپنے نفسانی حض اورخودغرض و لاپرواہ انا کی تسکین کے لئے اس کے جسم کا استعمال کرتا ہے ۔ وہ اس کے مسکن پر ہفتے میں دو بار آتا ہے اور وہ اس کے لئے کھانا بناتی ہے ۔ آپ اندازہ کریں کہ اس کے نزدیک میری کی قیمت ایک کھانے کے برابر بھی نہیں کہ وہ اسے اس کے لئے باہر لے کر جائے ۔ وہ کھانا کھاتا ہے ، اس کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے اور پھر سو جاتا ہے ، اس دوران میری جوٹھے برتن دھوتی ہے جو اس نے ہر طرف بکھیرے ہوتے ہیں تاکہ وہ اسے ایک گندی عورت نہ گردانے ، پھر وہ منہ دھو کر لپ اسٹک لگا تی ہے تاکہ جب وہ سو کر اٹھے تو اسے تازہ دم اور اچھی لگے ۔ لیکن جب وہ سو کر اٹھتا ہے تو وہ اس پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا اور اپنے زیر جامے ، جرابیں ، پتلون اور قمیض چڑھا کر ٹائی لگاتا ہے ، جوتے پہنتا ہے جیسا کے اس نے الٹی ترتیب میں یہ سب پہلے کیا ہوتا ہے ۔ وہ میری کے کپڑے بھی نہیں اتارتا ، اسے یہ کام بھی خود ہی کرنا پڑتا ہے جیسے وہ اس سے ہم بستری کرنے کے لئے مری جا رہی ہو ، حالانکہ ایسا نہیں کہ وہ ’ جنسی فعل‘ کو زیادہ پسند کرتی ہے ، وہ تو بس چاہتی ہے کہ جان کو ایسا ہی لگے ۔ اس کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ اختلاط جان کواس کا عادی بناتا جائے گا اوروہ اس پر انحصار کرنا شروع کر دے گا جس کے نتیجے میں ان کی شادی ہو جائے گی ۔ لیکن جان اسے بمشکل ہی شب بخیر کہتا اوردروازے سے نکل جاتا ۔ تین روز بعد وہ پھر شام چھ بجے آ دھمکتا اور وہی عمل پھر دہرایا جاتا ۔
میری اداس ہوتی جاتی ہے ۔ جس طرح آپ سب جانتے ہیں کہ رونا چہرے کے لئے اچھا نہیں ہوتا ، میری کو بھی پتہ ہے لیکن وہ خود کو روک نہیں پاتی ۔ ’کام‘ کی جگہ پر لوگ اس بات کو نوٹ کرتے ہیں ۔ اس کے دوست اسے بتاتے ہیں کہ جان ایک چوہا ہے ، سور ہے ، کتا ہے اور اس کے قابل نہیں ہے لیکن وہ ان کی باتوں پر یقین نہیں کرتی ۔ اس کا خیال ہے کہ جان کے اندر ایک اور جان ہے جو کہیں زیادہ شفیق ہے ۔ یہ دوسرا جان ایک روز، جب پہلا والا جان نچڑ جائے گا ، آلوچے کی گٹھلی کی طرح ، ڈبے سے غلام کی طرح اور ’ کوکون‘ میں سے تتلی کی طرح باہر نکلے گا ۔
ایک شام جان کو کھانا پسند نہیں آتا اور وہ میری سے اس بارے میں گلہ کرتا ہے ۔ اس نے پہلے کبھی ایسا نہ کیا تھا ۔ میری کو دکھ ہوتا ہے ۔
اس کی سہیلیاں اسے بتاتی ہیں کہ انہوں نے اسے ایک اور عورت ، جس کا نام میگی ہے ، کے ساتھ ریستوراں میں دیکھا ہے۔ یہ میگی نہیں ہوتی بلکہ ریستوراں ہوتا ہے جو میری کے دکھ میں اضافہ کرتا ہے ۔ جان میری کو کبھی ریستوراں لے کر نہیں گیا تھا ۔ وہ اپنی نیند اور اسپرین کی تمام گولیاں اکٹھی کرتی ہے ، انہیں ’ شیری‘ کی آدھی بوتل میں ڈالتی ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ یہ کس قسم کی عورت ہے جس کے پاس وہسکی تک نہیں ۔ وہ جان کے لئے ایک نوٹ چھوڑتی ہے ۔ اسے امید ہے کہ وہ پہنچ جائے گا اور بروقت اسے ہسپتال لے جائے گا ، پشیمان ہو گا اور پھر ان کی شادی ہو جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وہ مر جاتی ہے ۔
جان میگی سے شادی کر لیتا ہے اور پھر وہی سب کچھ ہوتا ہے جیسا ’ اے ‘ میں دکھایا گیا ہے ۔
۔ ۔ ۔ سی ۔ ۔ ۔
جان ، جو ایک ادھیڑ عمر آدمی ہے ، میری کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ میری صرف بائیس سال کی ہے ، وہ جان پر ترس کھاتی ہے جو اس فکر میں گھلے جا رہا ہے کہ اس کے بال گر رہے ہیں ۔ وہ اس کے ساتھ سوتی ہے گو وہ اس سے محبت نہیں کرتی ۔ وہ اسے اس جگہ ملی تھی جہاں وہ ’ کام ‘ کرتی تھی ۔ وہ کسی اور ، جس کا نام جیمز ہے اور وہ بھی بائیس سال کا ہے لیکن ابھی گھر بسانے کے لئے تیار نہیں ہے ، سے محبت کرتی ہے ۔
جان اس کے برعکس بہت پہلے سے کامیاب ہے اور یہی اسے پریشان کئے ہوئے ہے ۔ اس کے پاس ایک باعزت نوکری ہے اور وہ اپنے میدان میں آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے ۔ میری اس کی کامیابی سے ذرا بھی متاثر نہیں وہ جیمز سے متاثر ہے جس کے پاس فقط ایک موٹر سائیکل ہے البتہ وہ گراموفون ریکارڈوں کے ایک عمدہ اور ضغیم ذخیرے کا مالک ہے ۔ لیکن جیمز اکثر اپنی موٹر سائیکل پر آزادی سے ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے ۔ لڑکیوں کے لئے آزادی کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو مردوں کے لئے ہوتا ہے ۔ اس لئے میری اپنی جمعراتوں کی شامیں جان کے ساتھ گزارتی ہے کیونکہ جمعراتیں ہی وہ دن ہوتے ہیں جب جان وقت نکال سکتا ہے ۔
جان میگی نامی ایک عورت کا خاوند ہے اور ان کے دو بچے ہیں ، ایک اچھا سا گھر بھی ہے جو انہوں نے اس وقت خریدا تھا جب ابھی جائیدادوں کی قیمتیں بڑھیں نہ تھیں ۔ اس وقت ان کے باس سمے بھی تھا اورانہیں اپنے شوق بھی تحریک دیتے تھے اور وہ انہیں پورا کرنے میں انپی جانیں بھی خطرے میں ڈال دیتے تھے ۔ جان میری کو بتاتا ہے کہ وہ اس کے لئے کتنی اہم ہے لیکن وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ ’عہد‘ تو’ عہد‘ ہوتا ہے ۔ وہ اس کا ذکر اتنی بار کرتا ہے کہ میری کو بوریت ہونے لگتی ہے لیکن ادھیڑ عمر کے مرد ایسے تعلق کو عمومی طور پر طول دے ہی لیتے ہیں اور لڑکی کا وقت اچھا گزرتا رہتا ہے ۔
ایک دن جیمز اپنی کیلیفورنین اعلیٰ نسلی موٹر سائیکل پر سوار آتا ہے اور آپ کو یقین نہ آئے گا کہ وہ دونوں چھلانگ لگا کر بستر میں جا گھستے ہیں ۔ پھر سب کچھ پانی کے ساتھ بہنے لگتا ہے ۔ ایسے میں جان ، جس کے پاس میری کے اپارٹمنٹ کی چابی ہے ، آ وارد ہوتا ہے ۔ وہ انہیں بستر پر ایک دوسرے میں پیوست سویا دیکھتا ہے ۔ وہ اپنی بیوی میگی کی وجہ سے حسد تو نہیں کرتا لیکن اس پر مایوسی طاری ہو جاتی ہے ۔ ایسے میں یہ سوچ کر کہ اگلے دو سالوں میں اس کا سر انڈے کی طرح گنجا ہو جائے گا ، اس سے رہا نہیں جاتا ۔ وہ یہ کہہ کر کہ اس نے اپنا نشانہ پکا کرنا ہے ، ایک شاٹ گن خریدتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ پلاٹ کا کمزور حصہ ہے ، بہرحال اسے بعد میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ان دونوں کو گولی مار کر خود کو بھی ہلاک کر لیتا ہے ۔
میگی ایک مناسب وقت تک سوگ منانے کے بعد جان پہچان والے ایک شخص فریڈ سے شادی کر لیتی ہے اور پھر ہر شے ویسے ہی شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ ’ اے ‘ میں ہوتا ہے، اب ، البتہ ، نام بدل جاتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ڈی ۔ ۔ ۔
فریڈ اور میگی کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔ وہ غیرمعمولی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہیں اور اگر کوئی چھوٹی موٹی مشکل پیش بھی آ جاتی ہے تو وہ اسے مثبت انداز میں حل کر لیتے ہیں ۔ لیکن ان کا عمدہ گھر ساحل سمندر پر ہے جہاں ایک روز سمندری طوفان کی اونچی لہریں تباہی پھیلا دیتی ہیں ۔ وہاں جائیدادوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں ۔ باقی کہانی اس بارے میں ہے کہ سمندری طوفان کیوں آتا ہے اور وہ اس سے کیسے بچتے ہیں ۔ وہ چونکہ نیکو کار اور خوش قسمت ہیں اس لئے بچ جاتے ہیں گو ہزاروں اس میں ڈوب جاتے ہیں ۔ آخر کار وہ اونچائی پر ، بھیگے کپڑوں سے نچڑتے پانی میں ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے شکر ادا کرتے ہیں اور پھر سے ویسے ہی رہنا شروع کر دیتے ہیں جس کا بیان ’ اے‘ میں موجود ہے ۔
۔ ۔ ۔ ای ۔ ۔ ۔
ہاں لیکن فریڈ دل کا مریض ہے ۔ باقی کہانی اس بارے میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح شفقت ، محبت اور آپسی سلجھاﺅ سے اس وقت تک ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ مر نہیں جاتا ۔ تب میگی خود کو خیراتی کاموں کے لئے وقف کر دیتی ہے یہاں تک کہ ’ اے‘ جیسا اختتام نہیں ہو جاتا ۔ اگر آپ چاہیں تو اس کا نام ” میگی“ ، ” کینسر“ ، منتشرالذہن اور قصوروار“ یا پھر ” پرندوں کا شیدائی“ رکھ سکتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ایف ۔ ۔ ۔
اگر آپ اس سب کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ہی ’ بورژوا‘ ہے تو جان کو انقلابی اور میری کو اس کی مخالف جاسوس ایجنٹ بنا دیں اور دیکھیں کہ یہ کہانی آپ کو کہاں لے کر جاتی ہے ۔ یہ یاد رکھیں کہ یہ کینیڈا ہے ۔ آپ پھر بھی اسی اختتام پر پہنچیں گے جو ’ اے‘ میں ہے ، درمیان میں آپ چاہیں جتنا مرضی جذباتی ، شہوانی اورجھگڑوں پر مبنی تعلقات کا رزمیہ ڈال دیں ، کچھ ایسا ، جیسا ہمارے یہاں بیتا یا بیت رہا ہے ۔
آپ جیسی مرضی تراش خراش کریں آپ کو پھر بھی اسی ایک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کسی دوسرے اختتام کے جھانسے میں نہ آئیں کیونکہ یہ سب بناوٹی ہیں ؛ چاہے قصداً دھوکہ دینے کے لئے گڑھے گئے ہوں یا پھرخواہ مخواہ کی ایسی امید پرستی کا نتیجہ ہوں جو بے شک جذباتی نہ بھی ہو ۔
سب سے معتبر اختتام وہی ہے جو یہاں دیا گیا ہے؛
جان اور میری مر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ جان اور میری مر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ جان اور میری مر جاتے ہیں ۔
یہ بیان تو ہوا اختتام کے بارے میں ۔ آغاز ہمیشہ زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں ۔ سچے واقف حال ہی ، بہرحال ، انہی سے کہانی کا پیٹ بھرتے ہیں کیونکہ یہی کام مشکل ہوتا ہے ۔
' پلاٹوں ' کے بارے بس یہی کچھ کہا جا سکتا ہے جو کچھ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، ایک ’ کیا ‘ اور ایک ’ کیا ‘ اور ایک ’ کیا ‘۔
اب کوشش کریں کہ ’ کیوں‘ اور ’ کیسے‘ کو کس طرح دیکھنا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔