ترقی تمہارے نام
مورخ لکھتا ہے 1492ء میں جب کولمبس سمندر کو چیر کر مشرقی ممالک تک رسائی کی کھوج لگا رہا تھا تو حادثاتی طور پر امریکہ جا پہنچا ۔جہاں انسان پہلے سے ہی فطری ماحول میں سادہ زندگی گزار رہے تھے ۔پوپ نے ثواب کمانے کیلئے انہیں عیسائی مزہب سے آشنا کرایا جسے وہ پہلے نہیں جانتے تھے ۔یورپی ممالک کے لوگ جب یہاں پہنچے تو مقامی باشندوں کا قتل عام شروع کردیا اور خود وہاں کی زمین اور قیمتی نوادرات کے مالک بن بیٹھے ۔
سونے چاندی کی کانوں کو کھودنے کیلئے افریکہ سے غلام منگوائے گئے انہیں محنت مزدوری پر لگایا گیا اور خود مالک مطلق ٹھہرے ۔دوسرے علاقوں سے بھی آباد کار جب شمالی امریکہ آئے تو افریقہ سے ہی مزدور نما غلام لا کر کاشت کاری اور کھیتی باڑی کرائی گئے۔لیکن کانوں اور زمینوں کے مالک خود ٹھہرے ۔یورپ کی ترقی و خوشحالی میں افریقی غلاموں کی ہی مرہون منت ہے لیکن شاید تاریخ میں مزدوروں غلاموں کا کردار مٹا دیا جاتا ہے ۔
لاہور، اسلام آباد، ملتان کی میٹرو بس ہو یا اورنج لائن ٹرین ۔ڈیفنس کی سڑکیں ہوں یا بڑی عمارتیں ۔بحریہ ٹاؤن ہو یا جم خانہ کلب ۔ان سب کی ترقی میں دیہات سے درآمد شدہ مزدوروں کا منفرد و نمایاں کردار ہے۔ حتی کہ اشرافیہ و سرمایہ دار طبقے کو سکول سے لے کر دفتر تک لے جانے میں دیہاتوں کے ڈرائیور اور درآمد شدہ غلاموں کا اہم کردار ہے ۔لیکن تاریخ میں کبھی بھی کسی عمارت پر مزدورں کے نام تختی نہیں لگی ۔لگی ہے تو نام نہاد اشرافیہ کی۔لاہور، اسلام آباد، کراچی اور دوسرے بڑے شہروں اور ان میں آباد اشرافیہ و مافیا کی ترقی میں ڈرائیور، ماسی، چاچا، خانساماں، مالی اور چوکیدار کا بہت اہم کردار ہے جسے کوئی یاد رکھنے کو تیار نہیں۔!مزدور افریقہ، صومالیہ یا پاکستان کا ہو۔قوموں کی ترقی میں اس کی محنت نہیں خون شامل ہوتا ہے ۔دنیا کے مزدور و تمہیں سلام!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“