ترقی پسند تحریک کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ صدی کے آغاز میں ہی دنیا میں سوشلسٹ ،ترقی پسند خیالات اور نظریات کے ساتھ ساتھ ترقی پسند انقلابات نے جنم لینا شروع کردیا تھا ۔سب سے بڑا انقلاب سوویت یونین میں 1917 میں آیا۔اس کے بعد چین میں ۔اسی دوران برصغیر میں بھی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان میں بائیں بازو یا ترقی پسند تحریک چلتی رہی ۔اس کے کئی دور آئے ۔لیکن جب سوویت یونین ٹوٹا تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ کہا گیا کہ سوشلزم اوربائیں بازو کا اب کوئی مستقبل نہیں ۔سوشلزم اور بائیں بازو کے انقلابات اب قصہ پارینہ بن چکے ۔دنیا بھر میں یہی پیغام گیا ۔یہی خیالات پھیلائے گئے کہ لیفٹ کی سیاست و فکر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ختم ہو گئی ہے۔برصغیر میں سوشلزم ،ترقی پسندیت اور بائیں بازو کے خیالات کا باقاعدہ آغاز 1936 میں ہوا۔جب یہاں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تحریک یا ترقی پسند تحریک وجود میں آئی ۔پاکستان کے بننے کے کچھ سال بعد تک ترقی پسند مصنفیں ،دانشوروں اور انقلابی ادیبوں کا خوب چرچا رہا ۔ترقی پسند تحریک کو کمال دانشور انسان نصیب ہوئے ۔سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی ،کرشن چندر ،ساحر لدھیانوی ،سردار جعفری ،راجندر سنگھ بیدی ۔عظیم انسانوں کی ایک مکمل کہکشاں تھی ،جن کو عوام و خواص میں بھرپور پزیرائی مل رہی تھی ۔ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر برصغیر کی تحریک آزادی کا ایک حصہ تھی ۔ترقی پسند ادیبوں نے ہندوستان کے لوگوں میں آزادی کی لہر پید اکی ۔لیکن جب تقسیم ہو گئی ،پاکستان اور بھارت دو ملک وجود میں آگئے ۔پاکستان میں فوری طور پر ترقی پسند تحریک پر پابندی عائد کردی گئی ۔اب پاکستان پروگریسو رائیٹر ایسوسی ایشن پر پابندی تھی ،لیکن بائیں بازو کے دانشور لکھتے رہے ،ان کی تخلیقات کو پزیرائی ملی ۔ان کی سوچ اور فکر سامنے آتا رہا ۔لیکن ترقی پسند تحریک پر پابندی تھی ۔ترقی پسند تحریک کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ ملک میں غربت کا خاتمہ ہو ،ترقی پسند سوچ کا پھیلاو ہو ،ترقی پسند انقلاب آئے ۔جب انگریز یہاں پر حکومت کررہے تھے تو برطانوی سامراج بھی برصغیر میں ترقی پسند یا سوشلسٹ انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں حائل کررہا تھا ۔برطانیہ نہیں چاہتا تھا کہ روس یا چین جیسا سوشلزم یہاں آئے ۔جب پاکستان بنا تھا تو عظیم شاعر اور ترقی پسند دانشور ساحر لدھیانوی بھارت سے پاکستان آگئے ۔کچھ مہینوں کے بعد ہی وہ یہاں سے چل دیئے ۔یہاں آتے ہی ان کی جاسوسی شروع کردی گئی ۔بھارت جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وآپس انڈیا اس لئے جارہے ہیں کہ یہاں اب ترقی پسند فکر کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ جو ملک بنا ہے جس کا نام پاکستان ہے ،جلد یہاں جاگیردار اور ملاں کا اتحاد ہوگا ،پھر یہاں کوئی شریف آدمی رہ نہیں پائے گا ۔پھر یہاں صرف انتہا پسندی اور رجعت پسندی ہی پروان چڑھے گی ۔اگر دیکھا جائے تو بات سچ ثابت ہوئی ہے ،دونوں کا اتحاد ہوا ،اور پھر آگے کی کہانی سب کے سامنے ہے ۔ساحر بھارت بھاگ گیا ،بیچارے سجاد ظہیر نے بڑی کوششیں کی ،ترقی پسند فکر و سیاست کے لئے خفیہ طور پر کام کیا ،زیر زمین رہ کرکام کیا ،جبر برداشت کیا ،جیلیں کاٹیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے تحریک پاکستان کی حمایت کی ،خود سوویت یونین نے پاکستان کی آزادی کی حمایت کی ۔1945 آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کا الگ ملک ہو ،یہ ان کا جمہوری حق ہے۔لیکن جب پاکستان بن گیا ،سجاد ظہیر پاکستان گئے تو ان کے جانے سے پہلے ہی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے ۔بائیں بازو کے مفکر سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے ۔وہ جو پاکستان کی تحریک کے مخالف تھے ،تما م جاگیردار اور بڑے بڑے جید عالم وہ یہاں آکر پاکستان کے مامے چاچے بن بیٹھے ۔بیچارہ سجاد ظہیر جیلوں میں سڑتا رہا ،تشدد سہتا رہا ۔ترقی پسند دانشوروں اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا قصور یہ تھا کہ یہ جاگیرداروں کے خلاف بات کرتے تھے ،عوام کے مسائل کی بات کرتے تھے ۔اور مساوات کی بات کرتے تھے ۔پاکستان میں جاگیردار صرف اقتدار کو انجوائے کرنے آئے تھے ،انہیں پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔یہ دولتانے ،ٹوانے ،یہ فیروز خان نون ،خظر حیات خان وغیرہ جمعیت علماٗ ہند ،مجلس احرا وغیرہ کے بہت سارے لوگ مسلم لیگ میں آخر میں اس لئے شامل ہو گئے کہ ان کو معلوم تھا پاکستان بننے والا ہے ،اقتدار حاصل کرنے کا یہی موقع ہے اور وہی موقع انہوں نے استعما ل کیا ۔پاکستان بن گیا ،جاگیردار ،ملاں اس کے ٹھیکیدار بن گئے ۔سبط حسن ،مرزا اشتیاق بیگ ،سجاد ظہیر ،مرزا ابراہیم ،سردار شوکت ،سی آر اسلم وغیرہ گرفتار ہو گئے ۔ان کا قصور یہ تھا کہ یہ جاگیردار کے خلاف بات کرتے تھے ۔ترقی پسند سوچ و فکر کی بات کرتے تھے ۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے وابستہ تھے ۔اب جاگیردار ،ملاں ،برطانوی اور امریکی سامراج کے سامنے یہ بیچارے ترقی پسند کیسے ٹھہر سکتے تھے ۔1951 پنڈی سازش کیس میں تو ان پر ظلم کی انتہا کردی گئی ۔یہ کمیونسٹ ،ترقی پسند یا بائیں بازو والے غربت کی بات کرتے تھے ،مساوات ،انصاف کی بات کرتے تھے ۔لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ان کو ظلم و جبر سے دبانے کی کوشش کی ،لیکن پھر بھی ان بہادرں نے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کیا ۔ان بیچاروں کے پاس مالی وسائل کی کمی تھی ،سجاد ظہیر کی قیادت میں ترقی پسندوں نے پورے پاکستان میں پرپرزے پھیلانے کی کوشش کی ۔۔ایک زمانہ تھا جب ٹریڈ یونین پر لیفٹ کا کنٹرول تھا ۔کسان تحریک پر کمیونسٹ پارٹی کے ورکرز چھائے ہوئے تھے ۔اسٹوڈنٹ تحریک لیفٹ کے پاس تھی ۔یہ نعرے بلند ہورہے تھے کہ کسانوں کو زمینیں دو ،مزارعوں اور ہاریوں کو زمینیں دو ۔غریب کی غربت کے خاتمے کی بات کی گئی ،جلسے جلوس نکالے گئے ۔ترقی پسندوں نے عملی سیاست میں کام کیا ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑ رہے تھے ۔وہ ان سے لڑ رہے تھے جن کے پاس بے شمار وسائل تھے ۔عالمی صورتحال بھی کچھ ایسی تھی کہ سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف صف بندی ہورہی تھی ۔اسی عالمی صورتحال کا شکار پاکستان کی ترقی پسند تحریک ہوئی ۔پھر کیا تھا کہ احمد ندیم قاسمی ،ظہیر کاشمیری اور دادا فیروالزدین جیسے ادیبوں کو بھی زلیل کیا گیا ،انہیں سی گریڈ جیل میں رکھا گیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور برطانیہ کا دباو تھا کہ ان کمیونسٹو ں کو روکا جائے ۔1954 میں ترقی پسند تحری پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔حسن ناصر جیسے انسان کو قلعے میں تشدد کرکے قتل کردیا گیا ۔1965 میں تنظیمی لحاظ سے زمین پر ترقی پسند یا لیفٹ کی کوئی بھی پارٹی موجود نہ تھی ۔ترقی پسندوں کا طبقہ بھاشانی گروپ میں چلا گیا ۔کچھ ترقی پسند نیپ کا حصہ بن گئے ۔ترقی پسند دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ پیپلز پارٹی میں چلا گیا ۔اس طرح ترقی پسند تحریک ،کمیونسٹ پارٹی کے تمام نایاب ادیب و دانشور بکھر گئے ۔اب یہ ترقی پسند دانشور مسلم لیگ یا جماعت اسلامی میں تو نہیں جاسکتے تھے ۔مجبورا پیپلز پارٹی جیسی ملٹی کلاس سیاسی پارٹی میں چلے گئے ۔1970 کے زمانے میں ترقی پسند ادیبوں کا ایک مقبول اخبار بھی نکلا جس کا نام آزاد اخبار تھا ۔حمید اختر ،عبدللہ ملک اور آئی ائے رحمان اس اخبار کے خالق تھے ۔یہ وہ واحد لیفٹ کا اخبار تھا جو بنگالیوں کے حقوق کی بات کرتا تھا ۔کہتا تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ۔یہ وہ اخبار تھا جس نے بنگال میں فوجی ایکشن کے خلاف بات کی ۔جس نے یحیی خان کے مارشل لاٗ کے خلاف لکھا ۔اسی اخبار نے انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد لکھا تھا کہ آزمائش آچکی ہے ۔بھٹو ،مجیب الرحمان مل جائیں ۔ورنہ حالات بدترین ہو جائیں گے ۔یہ دونوں اقتدار چاہتے تھے ۔لڑ پڑے ،پھر نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں بر آمد ہوا ۔ترقی پسندوں نے ہمیشہ بنگالی کے حقوق کی بات کی ،ولی خان جیسی ترقی پسند جماعت کے خیال و فکر کو پاکستانیوں تک پہنچایا ترقی پسندوں نے ہمیشہ کہا کہ گیارہ اگست کی جناح کی تقریر پر عمل نہ کیا گیا تو پاکستان انتہا پسندی کا گڑھ بن جائے گا اور ایسا ہی ہوا ۔جنرل ضیاٗ جیسے آمر کے زمانے میں جتنا بھی مزاحمتی ادب سامنے آیا ،یہ سب ترقی پسند ادیبوں کی کاوش تھی ۔اس کے باوجود کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دائیں بازو کے کنٹرول میں ہمیشہ رہا ہے ۔طاقت و وسائل ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت کے پاس تھے۔طاقتور حلقوں نے ہمیشہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کو طاقتور بنایا اور ان کا استعمال کیا ۔تشدد،انتہا پسندی کا متبادل نظام آج بھی ترقی پسند سوچ اور لبرل ازم ہے ۔جس کا زکر نواز شریف اپنی تقریوں میں کبھی کبھار کرتے رہتے ہیں ،انہیں معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے نجات کا زریعہ صرف لبرل سوچ میں ہی ہے ۔پاکستان کی تباہی کے پیچھے ضیاٗ کے نصاب تعلیم کا ہاتھ ہے ۔اس نصاب میں نفرت کا درس ہے ،اس میں تضادات ہیں ،نفرت اور تعصب ہے ،یہود و ہنود کا فلسفہ ہے ،اس نصاب تعلیم کی وجہ سے پاکستان کے انسانوں کا رویہ انتہا پسندانہ ہے ۔اب بھی موقع ہے کہ پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان سامنے آئیں ،اس متعصبانہ نصاب تعلیم کے خلاف تحریک چلائیں ،ترقی پسند سوچ کو نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں ،تب ہی جاکر ہمارا رویہ بدلے گا ،پھر کہیں جاکر ہم انسانوں کی بات کریں گے ،پھر ہی جاکر مشعال جیسے انسانوں کا قتل عام رکے گا ۔اس کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی ،ترقی پسند سوچ کے لئے پروگرامز ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ترقی پسند ادیبوں سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے ۔ترقی پسند سوچ و فکر کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضروت ہے ۔ملٹری ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ بھی لبرل سوچ سے ہی ممکن ہے ،اس لئے جب نواز شریف بھی لبرل پاکستان کی بات کرتے ہیں ،تو اس سے مجھے بہتری کی امید محسوس ہوتی ہے ۔درست اور ترقی کا راستہ صرف ترقی پسندانہ لبرل سوچ میں پوشیدہ ہے ۔لیکن اس راستے میں بڑی مشکلات اور مسائل حائل ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو لبرل سوچ کی حامل ہو ،مسلم لیگ ن سے پیپلز پارٹی تک سب ہی کسی نہ کسی حد تک دائیں بازو کی جماعتیں ہیں ۔اس وقت ایک لبرل اور لیفٹ کی سیاسی جماعت کی تشکیل کی ضرورت ہے ۔نیا سوشل کنٹریکٹ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد انسانیت اور پروگریسو فکر پر مبنی ہو ۔اس طرح سے ہی انتہا پسندی اور تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے ۔یہ جو بدترین حالات ہیں ،اس کے ہم خود زمہ دار ہیں ۔ہمارا قومی رویہ جان بوجھ کر سازشی نظریات پر استوار کیا گیا ہے ۔بھیا افغان وار نے سوویت یونین کا شیرازہ نہیں بکھیرا تھا ۔یہ تو روس کا اندرونی نظام تھا ،جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ۔سوویت یونین کے آمرانہ اور بیورو کریٹک نظام نے کارل مارکس کو شکست دی ۔ورنہ کارل مارکس کو کبھی شکست نہ ہوتی ۔افغان وار کی وجہ سے ہمارے طاقتور لوگوں نے مال بنایا ۔جہادی پیدا کئے جو آج ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں ۔اگر ان کی سرپرستی نہ کی گئی ہوتی تو ہمارا سماج ایسا نہ ہوتا ۔اب ان کا علاج صرف اور صرف لبرل شعور ہے ۔یہی بہترین بیانیہ ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔اب بہترین موقع ہے کہ لبرل سوچ کی آبیاری کی جائے ،اس کی نشوونما کی جائے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسان سمجھ گئے ہیں کہ جو بھی اسلام کا نام لیتا ہے ،اس کے پیچھے اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔آج عوام کی ہمدریاں انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کے ساتھ نہیں ہیں ۔یہی موقع ہے کہ عوام کو انسانیت پر مبنی ترقی پسندانہ شاہراہ پر ڈالا جائے ۔اب عام لوگ انتہا پسندوں کے مخالف ہو گئے ہیں ۔اب تو فائدہ اٹھالو ۔باقی آپ کی مرضی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔