ترقی پذیر ملک کی ترقی کا ماڈل:
– پہلے ملک کے انفراسٹرکچر کوبنایا جاتا ہے، ہائی ویز، موٹرویز، اورہیڈ، انڈرہیڈ پل، سرنگیں،پانی کے زخائر اور بجلی کے براجیکٹس، ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں۔ یہ سب کچھ کسی ملک کی پس ماندہ شکل کوبدلنے کی پہلی شرط ہوتی ہے۔ یہ وہ سازگارماحول مہیا کرتا ہے جہاں سرمائے کی نشوونما ہوتی ہے
– ملک میں سماجی امن، سیاسی استحکام اور نظام اورپالیسی میں تسلسل دوسری سب سے بڑی شرط ہے۔
– ہڑتالوں، احتجاجی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا خاتمہ
اسی ماڈل کی پیروی میں ترکی اورملایشیا نے ترقی کی۔ مہاتیر کے ملایشیا میں 'خلائی مخلوق' نامی ادارے کا وجود نہیں تھا۔ وہاں اس طرح کے ریاستی ادارے کی مداخلت نہ تھی۔ طیب اردوان کے ترکی میں بھی اسی ماڈل کے پیش نظرترقی ہوئی۔ وہاں 'خلائی مخلوق' تھی، طیب اردوان نے عوام کی حمائت سے اسے کچل کررکھ دیا۔ ہزاروں فوجی افسروں اورجنرلوں کو جیلوں میں ڈالا۔۔ سزائے موت دی۔ خاکی ادارے کواس نے سیدھا کردیا۔ ان دونوں ملکوں میں لیڈرشپ کے خلاف کرپشن، اقربا پروری، آمرانہ مزاج کا شور مچا، لیکن انہوں نے اسے مذکورہ بالا ترقی کے ماڈل میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔
پاکستان میں اس ماڈل کا حامی اورشعوررکھنے والا سیاسی لیڈر نواز شریف ہے۔ پاکستان میں ترقی کے جو مظاہر آج نظرآتے ہیں، وہ نواز شریف کی دین ہیں۔ لیکن سیاسی استحکام کے معاملے میں نواز شریف اورہم پاکستانی مہاتیراور اردوان کی طرح خوش نصیب نہیں۔ کہ یہاں کوئی بھی اطمینان کے ساتھ پانچ سال حکومت نہیں کرسکتا۔
ایک جابراوربے حس اسٹیبلش منٹ ہے۔ جسے ملک کی ترقی، سماجی امن اوراستحکام بالکل عزیز نہیں۔ وہ اپنے ذاتی اوراداراتی مفادات میں اندھے ہوچکے ہیں۔ عوام اورملک ان کے لئے شطرنج کا میدان ہے۔ مہرے بناتے ہیں۔ مہرے اچھالتے ہیں۔ مہرے گراتے ہیں۔ داخلی اورخارجی امن کو برباد کرنے والی پراکیساں پالتے ہیں۔ ملک کو غیرمحفوظ کرکے کہتے ہیں، ہم پاکستان اورآپ کو بچا رہے ہیں۔ دارالحکومت میں ہفتوں اور مہینوں پرمشتمل دھرنے اورہڑتالیں کرواتے ہیں۔ ریاستی ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھا کرخوش ہوتے ہیں۔ (چیف جسٹس اورنیب یہی کررہے ہیں) ملک میں انتشارپیدا کروا کراپنے سینوں میں تمغے لگواتے ہیں۔
ملک کو برباد کردینے والی اس سوچ کے خلاف آج نواز شریف تنہا کھڑا ہے۔۔ جس کا ماخذ صرف حب الوطنی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“