(کُلیاتِ ” مجروح سلطان پوری ” کے حوالے سے)
ادب میں غزل کے حوالے سے اور فلم میں گیت کے حوالے سے مجروح سلطان پوری کی شہرت قابلِ رشک اور قابلِ داد رہی ہے – دونوں میدانوں میں یہ نہ صرف کامیاب رہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے کلام نے جہاں ان کے اپنے زمانے کو متاثر کیا وہاں ان کے سُخن کے گہرے نقش بنتے چلے گئے جسے وقت کی آندھی مٹا نہ سکی – یہ نقش اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی تروتازہ ہیں – ایسا کسی شاعر کے ساتھ ہو جانا معجزے سے کم نہیں – اس کے ثبوت کی ضرورت تو نہیں پھر بھی ناچیز فلم اور ادب کے حوالے سے کچھ سُخن نقوش پیش کرنا چاہے گا – ملاحظہ فرمائیں –
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا
مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
حادثے اور بھی گذرے تیری الفت کے سوا
ہاں مُجھے دیکھ اب مری تصویر نہ دیکھ
یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ گھُٹی گھُٹی سی آہیں
یونہی کب تلک خدایا ، غمِ زندگی نبھاہیں
مُجھے نہیں کسی اُسلوبِ شاعری کی تلاش
تری نگاہ کا جادو مرے سُخن میں رہے
مُجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ کے جل گئے
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروح
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
یہ مضمون ناچیز اکیسویں صدی کے تیسرے دہے میں لکھ رہا ہے اور مجروح کے مندرجہ بالا اشعار برسوں پہلے ترقی پسند تحریک کے غزل مخالف دور میں لکھے گئے ناچیز کو یاد رہ گئے یہ شعر گویا یادداشت کا حصّہ بن گئے تھے جو لکھتے وقت یاد آ گئے – ایک مَیں ہی نہیں اور بھی کتنے ہوں گے جنہیں مجروح کے یہ اور اس کے علاوہ اشعار بھی یاد ہوں گے اور یہ بھی کہ نئی نسل تک بھی پہنچ رہے ہوں گے – مجروح واقعی ایک سدا بہار غزل گو تھے جنہوں نے آنے والے زمانے کے لیے اپنے سُخن نقش چھوڑے ہیں –
یہ تو ہوئی مجروح کے شعری ادب کی بات، اب فلمی گیتوں کی بات کریں تو ایک گاتا گنگناتا جہاں نظر آتا ہے – جس کی چمک دمک سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، اس کی مثالیں گیتوں کے خزانے میں محفوظ ہیں جن کی ادبی حیثیت بھی اس لیے مستحکم ہے کہ فلم کی کہانی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر، پروڈیوسر ڈائریکٹر کی مداخلت کو برداشت کر کے، موسیقار کی دُھن پر لفظوں کو فٹ کر کے بھی اُردو زبان کے معیار و مقام کو برقرار رکھنا معمولی بات نہیں – کچھ فلمی گیتوں کے مُکھڑے بطور مثال پیش ہیں ملاحظہ فرمائیں –
میرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے
افسوس یہ ہے کہ وہ مجھ سے کچھ اکھڑا اکھڑا رہتا ہے
اب تو ہے تم سے ہر خوشی اپنی
تم پہ مرنا ہے زندگی اپنی
تونے او رنگیلے کیسا جادو کیا
پیا پیا بولے متوالا جیا
بانہوں میں چھپا کر یہ کیا کیا
او متوالے جیا
مُجھے دردِ دل کا پتہ نہ تھا
مجھے آپ کس لیے مل گئے
نگاہیں بھی ملا کرتی ہیں اور دل، دل سے ملتا ہے
مگر اک چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
ٹوٹے نہ دل ٹوٹے نہ دل، ساتھ ہمارا چھوٹے نہ
جو چلا گیا اسے بھول جا
وہ نہ سن سکے گا تری صدا
جو چلا گیا – – – – – – _
توبہ یہ متوالی چال، جھک جائے پھولوں کی ڈال
چاند اور سورج آ کر مانگیں تجھ سے رنگِ جمال
حسینہ تیری مثال کہاں – – – – –
ہم آج کہیں دل کھو بیٹھے
یوں سمجھو کسی کے ہو بیٹھے
ہم آج کہیں – – – – – – – –
ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے
جو بھی پیار سے ملا ہم اسی کے ہو لیے
کوئی ہمدم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
او مرے دل کے چین
چین آئے مرے دل کو دعا کیجئے
او مرے دل کے چین
ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے تمہارے بناء
ہمیں تم سے پیار کتنا – – – – – – –
یہ دل نہ ہوتا بیچارہ قدم نہ ہوتے آوارہ
جو خوبصورت کوئی اپنا ہمسفر ہوتا
یہ دل نہ ہوتا آوارہ – – – – – – – –
جاتا ہوں مَیں، مُجھے اب نہ بلانا
میری یاد بھی اب دل میں نہ لانا
میرا ہے کیا میری منزل نہ کوئی ٹھکانہ
جاتا ہوں میں – – – – – – – – – – –
تیرے بناء زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں
شکوہ نہیں شکوہ نہیں، شکوہ نہیں
تیرے بناء زندگی بھی لیکن زندگی تو نہیں
زندگی نہیں، زندگی نہیں ، زندگی نہیں
تیرے بناء – – – – – – – – – – – – –
یہ تو بس مثالیں ہیں سینکڑوں گیت ہیں جو مجروح نے چھوٹی بڑی فلموں کے لیے لکھے ہیں – لیکن اکثر ایسا ہُوا ہے کہ فلم چلے نہ چلے مجروح کے گانے چل جاتے تھے جس کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا میوزک ڈائریکٹر ان کے ساتھ کام کرنا پسند کرتا تھا اور مجروح فراخدلی سے نئے پروڈیوسرز کی فلموں کے گیت لکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے – اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں کے ساتھ مجروح نے کام کیا اور نئے موسیقاروں کے ساتھ کام کر کے ان کے حوصلے بڑھائے اور آخری عمر تک انہوں نے کام کیا – یعنی فلمی دنیا کی تین نسلوں نے مجروح سے گیت لکھوائے اور ان کی عزّت کی – یہ مجروح کی شخصیت اور ان کے گیتوں کی مقبولیت کی وجہ سے ہُوا –
مجروح سلطان پوری ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے کم شاعری کی اور زیادہ شہرت پائی اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کم شاعری کی خلاقیت، بلاغت اور غنائیت نے انہیں زیادہ شہرت دی، ان کا ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرع اہلِ ذوق حضرات و خواتین کو پسند آیا – احتیاط اور طویل وقفے سے غزل کہنے والے کا صرف ایک مجموعئہ کلام ” غزل ” ہے اس سلسلے میں مجروح کہتے ہیں –
” میرے بہت ہی عزیز سید محمد مہدی علی گڑھ کا یہ مشورہ درست ہے کہ جب میرا مجموعئہ کلام نئی غزلوں کے اضافے کے ساتھ شایع ہُوا اسے 1956. ء ہی کا شائع شدہ سمجھا گیا کیونکہ مَیں نے ہمیشہ اپنے مجموعے کا نام” غزل” ہی رکھا – نتیجہ یہ ہُوا کہ ہر نئے ایڈیشن کو پڑھنے والے وہی سنہ 1956. ء کا پرانا ایڈیشن سمجھتے رہے – لہٰذا ضروری ہُوا کہ اس بار مجموعے کا نام ” غزل ” کے بجائے کوئی اور مثلاً ” مشعلِ جاں ” رکھ دیا جائے ”
( ص 81-82 گفتنی نا گفتنی کُلیاتِ مجروح سلطان پوری )
ناچیز کے پاس نہ” غزل ” کا کوئی نیا یا پرانا ایڈیشن تھا نہ” مشعلِ جاں ” تلاش کے بعد” غزل ” کا ایک نسخہ ملا اور مشعلِ جاں بھی اضافہ غزلوں کے ساتھ ملی – اسی تلاش میں ناچیز کو ایک کتاب” کُلیاتِ مجروح سلطان پوری” ( مرتّب تاج سعید) ہاتھ لگی، جس کا سن اشاعت 2003.ء تزئین و اہتمام اشاعت میں صفدر حسین کا نام ہے – قیمت 300 روپیہ ہے اور اس کے پبلشر الحمد پبلیکیشنز ( رانا چیمبرز – سیکنڈ فلور – چوک پرانی انار کلی) لیک روڈ – لاہور ہے – یہ کتاب مجروح کے سلسلے کی ایک اہم کتاب ہے –
” کُلیاتِ مجروح سلطان پوری” کے مرتّب تاج سعید نے اس کتاب حرفِ آغاز کے تحت مجروح کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں بہت کچھ معلومات فراہم کی ہیں – اس مضمون کی آخری سطریں ملاحظہ فرمائیں –
” مجروح سلطان پوری کی شخصیت اور فن کے اس مجموعے کے لیے اس کے دوستوں اور مداحوں کے مضامین کا ایک انتخاب پیش کرتے وقت ہم اس کے اکلوتے مجموعئہ غزل کو مکمّل طور پر اس میں شائع کر دیا ہے تاکہ اس کی شاعری سے مَحبّت کرنے والے اس ارمغان کے ذریعے اس کے فکر و فن تک رسائی حاصل کر سکیں – مجروح سلطان پوری نے بے شمار گیت لکھے مگر ان کے مشہور گیت ہی اس مجموعے میں شامل کیے گئے ہیں – یہ کتاب الحمد پبلیکیشنز کے صفدر حسین کی خوش ذوقی اور ادب دوستی کی بنیاد پر ہی آپ تک پہنچ رہی ہے اُمیّد ہے آپ کو یہ ارمغان پسند آئے گا ”
( ص 19″ کُلیاتِ مجروح سلطان پوری ” مرتّب تاج سعید)
اس کتاب کے 352 صفحات میں 82 صفحات شروع کے 5 صفحات آخر کے نثر کے ہیں تاج سعید اور مجروح سلطان پوری کے علاوہ جگن ناتھ آزاد، رفعت سروش، ڈاکٹر سید معصوم رضا، وارث کرمانی ، محمد علی صدیقی، ف-س-اعجاز اور افضل اقبال نے مجروح کی حیات، گیت کاری، ان کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی، غزل کو تازہ دم کرنے کی ضد اور کامیابی، مشاعروں میں شرکت چاہنے والوں میں اضافہ، فلمی ادبی اعزازات و ایوارڈ اور ان سے ذاتی وابستگی جسے موضوعات پر فراخدلی اور دیانتداری سے لکھ کر مجروح شناسی کا ثبوت پیش کیا ہے – ہر مضمون اپنی جگہ اہم ہے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے – ناچیز نے مطالعہ ضرور کیا ہے لیکن اظہارِ خیال سے قاصر ہے بس اس بات پر اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ مجروح کے شعری ادب پر یہ کتاب دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے –
” کُلیاتِ مجروح” کے ص 348 تا 352 میں” مجروح دوسروں کی نظر میں ” عنوان کے تحت صاحبِ رائے مستند قلم کار قرۃالعین، گوپی چند نارگ اور اختر سعید خان کے گرانقدر مضامین ہیں – ان مضامین کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں –
” آپ دنیا کے کسی گوشے میں چلے جائیے جہاں ہندوستانی آباد ہیں وہاں آپ کو دور دراز کی پہاڑیوں اور گاؤں اور شہروں میں لتا کی آواز میں گائے ہوئے مجروح کے نغمے سنائی دیں گے – آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور سے قبل کسی شاعر یا نغمہ نگار کو ایسی عالمگیر شہرت حاصل ہونی ممکن نہیں تھی – ممبئی میں ایک طویل عرصہ گذارنے کے باوجود مجروح صاحب نے اودھ کے کلچر کو اپنے گھر میں زندہ رکھا تھا وہ ایک نہایت مہذب اور وضع دار انسان تھے – مجروح صاحب سے ممبئی کی محفلوں میں اکثر ملاقات ہوئی تھی اور وہ بہت ہی شفقت سے ملتے تھے – ان کی بیگم فردوس بھی ایک بڑی خلیق اور ملنسار خاتون ہیں – مَیں شاعروں اور ادیبوں کی نا و نوش کی محفلوں میں جانے سے اعتراز کرتی ہوں لیکن مجروح صاحب کے یہاں میں کئی بار گئی کہ ان کے یہاں کا رکھ رکھاؤ قابلِ تعریف تھا ان سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی جب مَیں نے انہیں اور چند اور دوستوں کو اپنے یہاں مدعو کیا – اس میں اُردو داں امریکن خواتین بھی شامل تھیں – انہوں نے حکمت پڑھی تھی اور عربی فارسی تو گویا ان کی گھٹی میں پڑی تھی لیکن ممبئی میں انہوں نے خود انگریزی پڑھنی شروع کی اور انگریزی بولنے میں بھی مہارت حاصل کر لی ان کی وفات کی خبر سن کر مجھے شعر یاد آ رہا ہے –
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
سحر قریب ہے اللہ کا نام لے ساقی
(ص 348 – 349 قرۃالعین حیدر کتاب ہذا)
” افسوس مجروح سلطان پوری کے اُٹھ جانے سے ترقی پسند غزل کا میر تقی میر رخصت ہو گیا – قبول عام اور لطف سُخن کو خداداد کہا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ صلاحیت تربیت اور ذاتی کوششوں پر منحصر ہے – مجروح سلطان پوری کا کمال یہ تھا کہ فارسی اور اُردو شاعری کی غزلیہ روایت کی روح کو انہوں نے جذب کر لیا تھا اور ان کی آواز میں ایسا جمالیاتی رچاؤ اور کشش پیدا ہو گئی تھی کہ ان کی بات دل پر اثر کرتی تھی – ایک زمانہ تھا جب ترقی پسندوں نے غزل کی شدید مخالفت کی تھی، مجروح سلطان پوری کا کمال یہ ہے کہ نہ تو انہوں نے ترقی پسندوں کا ساتھ چھوڑا اور نہ ہی غزل سے اپنی وفاداری کو ترک کیا – یہ ان کی سلامتی طبع اور خوش مذاقی کا کھلا ہُوا ثبوت ہے کہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ تغزّل اُردو شاعری کا جوہر ہے اور اس سے ہاتھ اٹھانا گویا شعریت سے منھ موڑنا ہے ”
( ص 349 کتاب ہذا گوپی چند نارنگ)
” ترقی پسند غزل کا یہ کلاسیکی رنگ و آہنگ صرف مجروح کا حصّہ تھا جس نے ایک دبستان کی حیثیت اختیار کر لی ہے – جتنے بڑے شاعر گذرے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنی کسی انفرادیت کی وجہ سے زندہ ہے – ترقی پسند غزل مجروح صاحب سے منسوب ہے اور ان کی یہ انفرادیت ان کی بقا کی ضامن ہے ”
(ص 352 کتاب ہذا اختر سعید خاں)
مُجھے خوشی ہے کہ مَیں نے کُلیاتِ مجروح سلطان پوری کا مطالعہ کیا – مزید خوشی یہ کہ اس پر لکھنے کا موقع ملا – مجروح کے ایک شعر پر ناچیز اپنی گفتگو ختم کرنا مناسب سمجھتا ہے –
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ