ممبئی کے معروف ترقی پسند ادیب عنایت اختر جن کا پورا نام اختر حسین محمد یوسف تھا۔ 92 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ وہ بہت مخلص، نفیس، سادہ اور کریم النفس انسان تھے۔ ان سے جب ملاقات کرنی ہوتی تو وہ عموما جے جے جنکشن مدن پورہ کے عوامی ادارے کی لائبریری میں مل جاتے تھے۔ وہ یہاں اکثر سردار جعفری، مجروع سلطان پوری، اور سجاد ظہیر اور کئی ترقی پسند ادیبوں اور شعرا سے ادبی اور علمی گفتگو کرتے نظر آتے تھے۔ وہ اخبارات مین ترقی پسند ادب اور تحریک کے حوالے سے مضامین لکھا کرتے تھے۔ انھون نے ٹی وی پر " نکڑ"، منورنجن"، سرکس" ،" یہ زندگی،"رجنی"، اور "الف لیلی" کے نام سے سریلز لکھی۔ ساجد الحسن نے بتایا "۔نکڑ سرکس یہ جو ہے زندگی اور الف لیلی اپنے وقت کے بہت ہی ممتاز و مقبول عام ٹی وی سیریئلس تھے اور یقینا یہ زمانے کے لئے رجحان ساز بھی ثابت ہوئے ہیں ۔سرکس ہی نے شاہ رخ حان کو پہچان دی تھی اور یہیں سے انہیں بالی ووڈ میں قدم رکھنے کا موقع ملا تھا ۔ اتنے عظیم ٹی وی سیریلس کے لکھنے والے عنایت اختر گوشہ گمنامی میں پڑے رہے یہ افسوس ناک امر ہے "۔ عنایت اختر مرحوم اپنی نوعمری کے زمانے سے اپنے انقلابی اور ترقی پسند مزاج کے سبب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ وہ سکہ بند مارکسزم سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اور وہ اس تحریک کے " گراس روڈ لیول" کے نظریاتی کا رکن تھے اور ترقی پسند سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ وہ تا حیات اپنے انقلابی اور یساریت پسند نظریات پر سختی سے قائم رہے ۔ وہ اس سلسلے میں سودے بازی نہیں کرتے تھے۔ لہذا لوگوں نے ان کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ یعقوب گلی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں " ادارہ قلم" کے نام سےادبی علمی اور نظریاتی محفلیں منعقد کرتے تھے۔ عنایت اختر تا حیات معاشی طور پر آسودہ زندگی نہیں گزار سکے وہ اپنی انحرافی ،نفی دانش اور انقلابی سرشت کے باعث کوئی کام لگ کر نہیں کرسکے۔ انھوں نے اپنی مختصر یاداشتوں کو اخبارات کے لیے قلم بند کیا۔ جن سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوں پر روشنی پڑتی ہے ۔ ان کے چند کالمز ممبئی کے ادبی جریدے " نیا ورق" میں بھی شائع ہوتے رہے ۔ ادارہ کتاب دار ان کی یاداشتوں کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کی یہ یاداشتین کمیونسٹ پارٹی کے ایک جریدے" دور حیات" میں شائع ہوتی رہی۔ میں جب بھی ممبئی جاتا تھا تو اس سے ملاقات رہتی تھی۔ اس تصویر میں دائیں جانب سے عنایت اختر مرحوم، الیاس شوقی اور راقم سطور کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تصویر 23 فروری 2013 میں ممبئی میں منٹو کی صدر سالہ سالگرہ کے موقع دوروزہ کانفرس " کتنے منٹو" پر کھینچی گئی تھی۔
ان کو مجگاوں کے رحمت آباد قبرستان پیوند زمین ہوئے۔ انھوں نے پس ماندگان میں بیوہ دو بیٹے سمیر اور عرفی اختر حسین اورایک بیٹی سیما چھوڈی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...