ترقی کی راہ میں حائل دو طبقات:-
اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس کے اندر معاشرے کو رشد و ارتقاء بخشنے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس کے قوانین مستقل مگر اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں عصری تقاضوں کو احاطہ کرنے کی لازوال قوت پائی جاتی ہے۔ معاشرے کو اجتماعی شکل دینے اور یگانگت کے ساتھ سفر طے کیا جاسکتا ہے مگر اس کی راہ میں دو قسم کے لوگ رکاوٹ بنتے ہیں۔ منجمد افراد اور جاہل افراد۔
مجنمد افراد:-
یہ وہ افراد ہیں جن کے نزدیک ہر نئی چیز باطل ہے۔ ہر نئی ایجاد کو بدعت کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سپیکر دجال کی آواز اور ٹی وی شیطان کی ماں ہے۔ انہیں کوئی یہ بتائے کہ اشیاء بری نہیں ہوتی، ان کا استعمال انہیں برا بناتا ہے۔ جو سپیکر دجال کا پیغام دیتا ہے، اس سے حق کی بانگ بھی تو دی جاسکتی ہے۔ جو ٹی وی شیطانی ایجنڈا پیش کرتا ہے، اس سے الہٰی پیغام رسانی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ منجمد طبقہ فقط پرانی اور کہنہ پرست روایات و رسومات میں قیدی ہے، اسے زمانے کی کسی بھی چیز کو قبول کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ہرشے فسادہے۔ یہ مسواک سے دانت صاف کرتے ہیں، مٹی کے برتن میں کھاتے پیتے ہیں، کجھور کی چٹائی کے بنا سوتے نہیں، چمچ کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں اور فقط کالی سیاہی سے لکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دین فقط آثارِ قدیمہ کا محافظ ہے اور آج کے دور میں اس سے فقط ثواب ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق قرآن وہ اوزار ہے جو زمانے کی تیزروی کا لگام ڈالنے کے لیے ہے جبکہ کائنات آج سے 1400 سال پہلے والے زمانے کی مقلد بن کر رہنی چاہیے۔ ان ہی کی کوکھ سے شدت پسند افراد پیدا ہوتے ہیں۔
جاہل افراد:-
یہ وہ افراد ہیں جو ہرنئی چیز کو لپک کر قبول کرلیتے ہیں۔ ہر چیز کو وقت کا تقاضہ اور علم و دانش کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے اندر دشمن شناسی کی عدم موجودگی ہمیشہ تہذیب و تمدن کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ نیا فیشن، نیا ڈیزائن، نیا سٹائل اور نئی نئی شکلوں کے منتظر رہنے والے یہ افراد دین کو زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ایک شعبہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا علیحدہ شعبہ جو باقی شعبوں میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ آنکھ بند کرکے ہر نئے شگوفوں کو قبول کرلیتے ہیں۔ یہ لوگ ایک طرف اسلام کو قبول تو کرتے ہیں مگر اسے اتنا چکنا چپڑا بناتے ہیں کہ زمانے کے ساتھ موافقت پیدا کرسکیں. یہ دم چھلے افراد کا ایسا گروہ ہے جس کا اپنا کوئی راستہ نہیں، ان کا دین زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے. مصلحت پسندی ان کی پہچان ہے.
جامد اور جاہل میں بنیادی افتراق و اشتراک:-
فرق یہ ہے کہ جامد انسان دین کو زمانے کے خلاف استعمال کرتا ہےجبکہ جاہل انسان زمانے کو دین کے خلاف ہتھیار بناتا ہے۔ ایک نیل پالش کی مخالفت میں جلوس نکالتا ہے تو دوسرا نیل پالش کے حق میں لمبی لمبی تحریریں لکھتا ہے۔
اشتراک یہ ہے کہ دونوں سے دین کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ چاہے اسلام کو پتھر کے زمانے میں لوٹا دو یا اسے ایٹم کے زمانے میں مسجد و ممبر اور چند اخلاقی مسائل تک محدود بنا دو دونوں صورتوں میں نقصان دہ ..
یہ کالم فیس بُک سے اسپیجسے لیا گیا ہے۔