ترقی کا نوحہ
مستنصر حسین ٹاڑر جب رائے کوٹ سے فیری میڈو ناگاہ پربت کے بیس کیمپ گئے تو شدر رہے گئے کہ وہاں نہ صرف پکا روڈ بن گیا ہے بلکہ ہوٹل اور موٹل بھی کھل گئے ہیں ۔ ٹاڑر صاحب پہلی مرتبہ دو دن کے پیدل سفر کے بعد فیرو میڈو پہنچے تھے مگر اب یہاں روڈ بن گیا ہے اور فیری میڈو جانے والا چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے ۔ ٹاڑر صاحب کو یہ سب زرا نہیں بھایا ۔ انہوں نے اس راستہ پر دو دن پیدل سفر کرنے کے بعد جب وہ فیری میڈو پہنچے تو ان سر غرور سے تن گیا تھا ۔ مگر اب قدرت کے ان حسین نظاروں کا اب ایڈویچر ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔
مصتنسر حسین ٹاڑر کا نوحہ درست ہے مگر ہم اس تبدیلی کو روک نہیں سکتے ہیں ، یہ سب کچھ ہمارے بس میں نہیں رہا ہے ۔ کیوں کہ لالچ اور ہر چیز کو کمرشل کرنے کے لیے ہم اندھا دندھ تعمیرات شروع کردیں ہیں ۔ یہ حقیقت ہے فطرتی مناظر سے محبت کرنے والا جب اس علاقہ میں سفر کرتا ہے تو یہ ترقی کے امور کتنے گراں گزرتے ہیں اور یہی ٹاڑر صاحب کو گراں گزرا ۔ وہ اس ایڈوینچر کو کیسے بھول سکتے جو انہوں نے دو دن پیادہ یہ سفر میں ہوا تھا ۔ اس سفر میں جو انہیں جو خوشی اور مسرت حاصل ہوئی تھی وہ چند گھنٹوں کے سفر میں کہاں نصیب ہوگی ۔ اس سفر سے وہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو کہ آسائشوں کے عادی ہیں اور پیدل چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں اور ان کے لیے تو اس راستہ پر جیب میں سفر کرنا بھی ایک ایڈوینچر ہوگا ۔
ہم ۲۰۱۰ میں استور کے راستے دیوسائی گئے اور ہم دیوسائی جانے سے پہلے ناگاہ پربت کے دامن میں ایک گاؤں چیورٹ میں دو شب ٹہرے تھے ۔ گوری کوٹ سے چیورٹ راستہ کچا تھا اور حال ہی میں یہ بنا تھا ۔ وہاں ٹرانسفامر اور پول رکھے ہوئے تھے ۔ جو اس کا اعلان تھا کہ جلد یہاں بجلی آجائے گی ۔ وہاں کے باسی بہت خوش تھے کہ ان کی زندگیوں میں تبدیلی آرہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کچا راستہ ہمارے لیے ہائی وے کے برابر ہے ۔ پہلے یہاں سے گوری کوٹ پیدل جاتے تھے ۔ اب اس کچہ راستہ پر ہر طرح کی گاڑیاں چلنے لگیں ہیں ۔ مگر میری بیٹی کو یہ سب پسند نہیں آیا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کچا روڈ تک تو صحیح ہے مگر یہاں بجلی نہیں آنی چاہیے ۔ ورنہ یہاں کا سارا حسن ختم ہوجائے گا اور جو مزا یہاں سفر میں اور رکنے میں آیا وہ نہیں رہے گا ۔
ہم اس روڈ کو کچا کب تک رہنے دیں گے ؟ اور جلد ہی یہ روڈ بھی پکا ہوجائے گا اور یہاں کاریں ڈوریں گیں ۔ لوگوں کے لیے یہاں کا سفر آسان ہوجائے مگر فطرت کا حسن اور ایڈوینچر ختم ہوجائے ۔ ہم تعمیرات ایک حد تک کریں تو غنیمت ہے ۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہماری حدیں کہاں تک ہیں ۔ اسی سفر میں ہم جب حولیاں سے آگے بڑھے تو سخت حیرانی ہوئی کہ حولیاں سے ٹھاکوٹ تک یوں لگ رہا تھا کہ ہم کسی بڑے شہر کی گلی یا سڑک پر سفر کر رہے ہیں ۔ کیوں کہ سڑک دونوں طرف مکان مسلسل بنے ہوئے تھے ۔ پہلے یہ مکان جو وادی اور پہاڑوں پر دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور حسین نظارہ پیش کرتے تھے ۔ جہاں رات کو یوں لگتا تھا کہ تارے زمین پر اتر آئے ہیں اور جدھر دیکھو دور دور تک خوبصورت نظارے دیکھائی دیتے تھے ۔ مگر اب ان نظاروں کو دیکھنے کے لیے نظریں ترس جاتیں ہیں ۔ کیوں کہ وہ سامنے مکانوں سے ٹکرا واپس لوٹ آتی ہیں ۔ یہاں ۲۰۰۵ کے زلزے کے بعد جب مقامی لوگوں پیسہ ملا تو انہوں نے سڑک کے کناے ہی مکان بنالیے ۔ جو رہتے تو پہاڑوں پر ہیں اور اس شاہراہ پر ان کے خالی مکان پڑے ہیں ۔ ان مکانوں نے وادی کا حسن گہنا دیا اور مشکل سے کوئی ایسی جگہ بچی ہوئی ہے جہاں مکان نہیں ہیں ۔ وہاں بھی جلد ہی مکان بن جائیں گے اور سفر کا حسن مکمل ختم جائے گا ۔ اب بھی دور دور تک حسین نظارے مشکل سے نظر آتے ہیں ۔
مری ایک زمانہ میں مجھے بہت پسند تھا جو اپنے حسین اور خوبصورت نظاروں کی وجہ سے مشہور تھا ۔ وہاں چاروں طرف خوب صورت نظارے دلفریب نظر آتے تھے ۔ مگر اب وہاں انسانوں نے اندھا دندھ تعیرات کرکے سارا حسن نست و نابود کر کے رکھ دیا ۔ اب وہاں فطرت کے حسن نظاروں جگہ بلند و بالا عمارتوں نے لے لی ہے ۔ جہاں بھی نظریں دوڑاؤں وہاں اب صرف عمارتیں ہیں نظر آتی ہیں ۔
یہی عالم اب جھیل سیف الملوک کا ہے جہاں جانے کے لیے پکا روڈ بن چکا ہے اور جھیل کے کنارے رہاشی کیبن اور دوکانوں کی ریل پیل ہوگئی ہے ۔ مجھے یاد ہے جب ہم وہاں پہلی دفعہ گئے تھے تو وہاں کا سفر ہماری جیب نے کچی سڑک پر بہت سی رکاوٹیں کے ساتھ طہ کیا تھا ۔ جہاں جیپ کو ٹن کرنے کے لیے ریورس ہوکر ٹن کرنا پڑتا تھا ۔ جہاں ہمارا راستہ گلشیر نے روک لیا تھا اور دو گھنٹہ کی کوشش کے بعد ہماری جیپ نے وہ گلیشرپار کیا تھا ۔ وہاں کچی سڑک نہیں بلکہ سیڑھیاں تھی جن پر ہم نے سفر کیا تھا اور اس سفر کو ہم اکثر یاد کرکے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ مگر وہ سارا ایڈونچر اور حسن کہاں رہا ہے ۔ ناران سے بغیر کسی مشکل کے بآسانی جھیل سیف الملوک پہنچا جاسکتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعمیرات ترقی کا حصہ ہیں ۔ لیکن اس اندھا دھند تعمیرات نے فطرت کا حسن ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ بات ہم کبھی نہیں سوچتے کہ تعمیرات اعتدال اور ضرورت کے تحت ہوں نہ کہ ہر چیز کو کمرشل کردیں ۔ مگر ہم کو اس کی پرواہ نہیں ہے ، ہم کچھ لالچ میں اور کچھ ناسمجھی میں آنکھ بند کرکے ہر کام کرتے ہیں ۔ مستنصر حسین ٹاڑر نے قراقر ہائی وے کے ترانے گائے تو غلط نہیں گائے تھے ۔ کیوں کہ وہاں آنے جانے کا ایک آسان راستہ کھل گیا ۔ لیکن مستنصر حسین ٹاڑر رائے کوٹ سے فیری میڈو تک پکی سڑک کا نوحہ بھی درست ہے ۔ اس سڑک کی تعمیر نے وہاں کا سارا ایڈوینچر ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔
اسکردو سے کے ٹو تک کا راستہ خپلو سے ہوکر گزرتا ہے وہ راستہ کیا تھا دنیا کا مشکل ترین پیدل ٹریک تھا ۔ جب کوئی بیرونی سیاح کے ٹو جاتا تو اس ٹریک کا ضرور ذکر کرتا تھا ۔ ان مہم جو سیاحوں کی کتابیں اس ٹریک کے ایڈوینچر سے بھری ہوئی ہیں ۔ ہر سال سیکڑوں سیاح صرف اس ٹریک پر سفر کرنے آتے تھے ۔ لیکن وہاں اب پکا روڈ بن چکا ہے جہاں اب آرام سے کسی بھی گاڑی میں بغیر کسی ڈر خوف کے سفر کیا جاتا ہے ۔ امید ہے کہ جلد ہی یہ آسائش کے ٹو تک میسر آجائے گی اور پھر ان ایڈویچروں کا ذکر کون کرے گا ۔ کیوں کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نگاہ پربت تک بلکہ کے ٹو روڈ بنالیں یا لفٹ چیر لگالیں ۔ پھر یہ سفر پر آسائش اور آرام دہ ہوجائیں گے اور اس سفر کے ایڈویچر کا کوئی ذکر نہیں کرے گا اور لکھنے والا اتنا ہی لکھے گا کہ ہم کے ٹو ہوکر آئیں ہیں ۔ اب بیرونی ممالک کے سیاحوں کی کتابوں میں وہ بات نہیں ہوگی جو لوگوں میں شوق و اشتیاق پیدا کردیتی ہے اور نہ ہی اب کوئی مستنصر حسن تاڑر پیدا ہوگا ۔ کیوں کہ ادیب تو اپنے عہد کی پیداوار ہوتے ہیں ۔ جب عہد نہ ہوگا تو ادیب کہاں پیدا ہوگا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔