جس قدر تیز رفتار سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے، اس سے پہلے اس کی مثال نہیں۔ ایسا کیوں؟ اس کے لئے ساتھ لگی تین تصاویر۔
پہلی تصویر دنیا کی آبادی کا گراف ہے۔ انسانوں کی ایک لاکھ سال کی تاریخ کے بعد انیسویں صدی کے آغاز پر پوری دنیا کے کل انسانوں کی تعداد نوے کروڑ تھی۔ جتنی آبادی ایک لاکھ سال میں ہوئی تھی، اس سے آٹھ گنا اضافہ اگلے صرف دو سو برس کا ہے۔ اس میں غذائی ٹیکنالوجی، ہائی جین اور میڈیکل ٹیکنالوجی کا بڑا کردار رہا ہے۔ آبادی میں اضافہ کی رفتار اب کچھ کمی کی طرف ہے لیکن خیال ہے کہ اس صدی کے اختتام پر یہ گیارہ ارب ہو جائے گی۔
دوسری تصویر عالمی اوسط شرح خواندگی کی جو پچھلے دو سو برس میں بارہ فیصد سے بڑھ کر اب تراسی فیصد ہے۔ (برِصغیر میں یہ چار فیصد سے بڑھ کر ستر فیصد تک پہنچی ہے جبکہ مغربی اور مشرقی یورپ میں یہ پچھلے بیس سال سے سو فیصد پر ہے)۔ آج سے دو سو سال قبل پوری دنیا میں لکھنا پڑھنا جاننے والے لوگوں کی تعداد صرف دس کروڑ تھی جس سے کہیں زیادہ خواندہ لوگ اب صرف پاکستان میں ہیں۔
تیسری تصویر رابطوں کے ذرائع کی تاریخ کی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر دنیا ایک دوسرے سے کٹے لوگوں کی تھی۔ نہ ٹرین تھی، نہ موٹرکار۔ زیادہ تر لوگ جس جگہ پیدا ہوتے، تمام عمر اس کے بیس میل کے اندر ہی گزار دیتے۔ ممالک کا جو تصور آج کا ہے، اس وقت ابھی اس کا آغاز تھا۔ دور تک رابطوں کے ممکن ہونے کا آغاز ریڈیو اور ٹیلی گراف سے انیسویں صدی میں ہوا۔ ڈیجیٹل صورت میں ڈیٹا اکٹھا ہونا اور پھر انٹرنیٹ بیسویں صدی کے اختتام پر عام ہوا۔
اب اربوں لکھنے پڑھنے والے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، دنیا کے کسی بھی اور کونے میں جانے گئے علم سے اسی وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ علم رکھنے والوں کی تعداد، معیار اور جوڑنے والے ذرائع کا مطلب یہ کہ اب مشترکہ انسانی دماغ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے جتنا اب سے ایک نسل پہلے تھا اور ان عوامل کے ملنے کا مطلب یہ کہ ترقی کی رفتار وہ ہے جس کا پہلے تصور بھی نہ تھا۔
اس کا ایک پہلو یہ کہ اب تیزی سے بڑھتی اور بدلتی نالج بیس کا مطلب یہ کہ اس بڑے طاقتور عالمی دماغ کا مؤثر حصہ بننے کے لئے کوئی بھی فکسڈ نصاب پڑھ لینے سے کہیں زیادہ اہم اس کے ساتھ رہنے کا طریقہ سیکھنا ہے۔ اب دنیا میں بڑی تقسیم علم کی ہے اور اس میں اضافہ بھی تیز ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ کہ ایسا کرنا اب مشکل نہیں۔ کیا اب یہ زبردست نہیں کہ شاید آپ سے ہزاروں میل دور کسی کے دماغ میں آیا خیال اب اسی وقت آپ کی سکرین پر لکھا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اب کچھ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اپنے ملک کے نظام، سسٹم یا نصاب کے مسئلے اب رکاوٹیں نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔