ترنم خیز و منفرد لہجہ کے شاعر شفق سوپوری
میں نے اس سبز ہتھیلی میں اتارا خنجر
جس کے چلو سے پیا تھا کبھی نیلا پانی
کیا کبھی ہم نے بگاڑا ترے دریا کا کچھ
کیوں ڈراتا ہے ہمیں خواب میں گہرا پانی
وہ تری یاد سے لپٹی تھی کتاں کی چادر
یا کہیں اوڑھ کے بیٹھا تھا دھندلکا پانی
شاعری اور نثر میں بنیادی فرق نغمگی اور ترنم کا ہے مزکورہ بالا اشعار میں دیکھیں یہ نغمگی شفق کی شاعری میں اسطرح رچی بسی ہے جیسے پھول میں خوشبو ہوتی ہے۔
کہیں کہیں وہ شاعری میں مزاحیہ رنگ اختیار کر لیتیے ہیں ویسے تو ہر غزل کا مزاج منفرد ہوتا ہےاور ہونا چاہئے وہ اپنے اوپر طبع کی پابندیاں عائد نہیں کرتے .اسطرح ان کی اس دیدہ و دانستہ روش سے ایک ہی غزل میں انیک رنگ کے اشعار مل جاتے ہیں مثال کے طور پر ایک ہی غزل کے دو اشعار ملاحظہ کریں .
سجا سجا کے حسینوں کے جسم پر زیور
ستم ہمارے یہاں کے صراف کرتے ہیں
اس سے پہلا شعر دیکھیں
بچا جنوں میں جو پرکالۂ گریباں کچھ
اسے صحیفۂ غم کی غلاف کرتے ہیں
اس تفاوت کی وجہہ یہ ہوسکتی ہے
میرا خیال ہے. شفق سوپوری کے مزاج میں طنز و مزاج اور فکشن کی بو باس بھی بدرجہ اتم موجود ہے انہوں نے فکاہیہ مضامین پر ایک مجموعہ “شگفتانے”پیش کیا ہے اسی طرح شاید وہ ہمہ وقتی یا کل وقتی شاعر نہیں انہوں نے آدی واسی سماج پر “نیلیما” ناول بھی لکھا ہے شفق افسانہ بھی خوب لکھتے ہیں . کلام فیض کا عروضی مطالعہ کے علاوہ موسیقی ، شاعری اور لسانیات اور مخزنِ موسیقی ۔جیسی انکی کتابیں دیدہ زیب ٹائٹلوں کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہیں۔ انکی شاعری کلاسیکی تجربات میں کچھ اضافہ ہوسکتی ہے. انکا ایک شعر :
مجھ کو بالکل بھی اکیلا نہیں ہونے دیتا
میں جہاں جاؤں مرے ساتھ ہے سایا تیرا
یہ غزل شفق نے احمد ندیم قاسمی کی مشہور زمانہ نعت کی زمیں میں کہی ہے
"سایا "ایک ہی لفظ کو دو شاعروں نے حسب مراتب اور حسب توفیق اپنے اپنے انداز میں استعمال کیا ہے
۔انکی شاعری کا بیشتر حصہ بیانیہ ہے وہ اپنی شاعری کے ذریعہ اہنا ہیغام دوسروں تک پہنچاتے ہیں ع
تو و طوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکر ہر کس بقدر ہمتِ اوست
لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہیں نہیں
میں تو کہتا ہوں زمانے پہ ہے سایا تیرا
اسی طرح ایک اور شعر میں ….
دل کی صفائی کا مطلب انکے نزدیک الگ ہے ثابت یہ ہوا کہ شاعر اپنی زبان الگ سے بناتا ہے..ضروری نہیں وہ محاورہ یا روزمرہ کا پابند ہو..
آئنہ دل کی صفائی کو شفق سوپوری صفائی کو وہ کسی حسین خریدار سے جوڑتے ہیں یہ شعر مجاز کی بجائے حقیقت پر بھی لیا جاسکتا ہے
ان اللہ جمیلُ و یحبُ الجمال ( بے شک اللہ حَسِین ہے اور حُسن سے محبّت کرتا ہے)
شفق لطیف طنز بھی کرتے ہیں کہیں کہیں انکے شعر نشتر زنی کا کام کرتے ہیں
سفر میں ہیں مگر انکی نہیں کوئی منزل
یہ لوگ سائے کا اپنا طواف کرتے ہیں
یا پھر یہ شعر
تونے جذبات سے تاثیر بڑھانی چاہی
بس یہی جھول شفق تیری کہانی میں تھا
نمونہ کلام
ہم سمجھتے ہیں خاک کشِ کوئے نگار
لوگ جس چیز کو بادِ سَحَری کہتے ہیں
جنبشِ کاہ بتاتی کا زمانے کا مزاج
اہل ادراک ہَوا کو خَبَری کہتے ہیں
دل وہ معمورۂ حیرت ہے کہ جس کے نِگِرَاں
چشم کو مانعِروشن نَظَری کہتے ہیں
میری پیاسی زمیں کے اوپر
کچھ دنوں سے ابر ہلکا ہے
وہ نشانے کی مشق کرتے ہیں
سوجا بچے! وہ چاند ماری کرتے ہیں
کسی امید کا تارہ یہیں پہ ٹوٹا تھا
مگر یہ راستہ دل کا یہیں سے روشن ہے
اسی مقام پہ شاید بچھڑ گئے تھے ہم
یہاں زیادہ گماں ہی یقیں سے روشن ہے
سلطنت جس کو عطا کرنی ہے کر لے لیکن
مِرے مولا مرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے
پہچانتا ہوں اپنے خدو خال کو مگر
لگتا ہے آئینے کا مقابل ہے کوئی اور
غزل
آگ سے آگ بجھانے کا ہنر سیکھ لیا
زخم نے درد چھپانے کا ہنر سیکھ لیا
اور کیا سیکھتے اے قافلہ ء خوش گذراں
گرد اپنی ہی اڑانے کا ہنر سیکھ لیا
تیز کردی گئی رفتار ہماری بھی مگر
ہم نے آنے کا نہ جانے کا ہنر سیکھ لیا
کون ہم گوشہ نشینوں سے کرے گفت و شنید
ہم نے سننے نہ سنانے کا ہنر سیکھ لیا
بعد کھونے کے ہے پانے کا مزہ خوب مگر
ہم نے کھونے کا نہ پانے کا ہنر سیکھ لیا
ہم کہ شامل بھی پرندوں کی کسی ڈار میں تھے
ہم نے اڑنے نہ اڑانے کا ہنر سیکھ لیا
بیٹھ کر کارگہہ_ اشک کے استادوں میں
آئینہ خانے میں آ نے کا ہنر سیکھ لیا
ہم نے اس شہر _ عجائب کے دبستانوں سے
پردہء غیب اٹھانے کا ہنر سیکھ لیا
خوف_ شمشیر تھا یا گرمیء پہلوے بتاں
جاگنے کا نہ جگانے کا ہنر سیکھ لیا
صاحبو! دشمنوں نے معتمدوں سے میرے
دودھ میں زہر ملانے کا ہنر سیکھ لیا
خون آنکھوں سے مری بہنے لگا جب میں نے
ناو کاغذ کی بنانے کا ہنر سیکھ لیا
غزل
کیا انتشار خطہء وحشت میں پڑ گیا
یعنی کہ بل مزاج ۔ محبت میں پڑ گیا
درپیش تھا خلا کا سفر اور ناگہاں
پاوں مرا زمین پہ عجلت میں پڑ گیا
ہر چند غم نے میرا نکھارا سخن مگر
دل ایک بد قماش کی صحبت میں پڑ گیا
اے کرہء فراق بتا کیا معاملہ
اس بار۔ خاک سے ترا ہجرت میں پڑ گیا
میں بولتا تھا اس کو سنائی نہ کچھ دیا
وہ دیکھتا تھا اور میں حیرت میں پڑ گیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“