محل تھا اور سلگتا عود تھا اور جھاڑ فانوس تھے۔ ہر پائیں باغ میں عیش و طرب کی محفل برپا تھی۔ ہر دیوان میں دیوانِ عام تھا یا خاص، رقص و سرور تھا اور ہر خواب گاہ سے نقرئی قہقہے چھن چھن کر باہر آ رہے تھے۔ گراں بہا قالینیں تھیں، چاندی کے ظروف تھے۔ بلّور کی صراحیاں تھیں، مور چھل تھے اور کنیزیں، تلواریں تھیں اور چوبدار، محل جنت سے کم نہ تھا! تالی بجانے سے خدّام ظاہر ہوتے تھے جن کے ہاتھوں میں خوان تھے۔ دنیا میں اس سے بہتر انتظام ناممکن تھا!۔
میں غلام گردش سے ہوتا ہوا شیش محل میں داخل ہونے لگا تھا جب میں نے اسے دیکھا۔ اسکے کپڑے تار تار تھے۔ پیروں میں ٹوٹے ہوئے پاپوش تھے۔ کاندھوں پر دریدہ شال تھی۔ سر پر چیتھڑوں جیسی ٹوپی تھی۔ ایک ہاتھ میں کشکول تھا۔ دوسرا ہاتھ زخمی تھا۔ جس سے خون رس رہا تھا! بازوؤں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ ضْعف اسکے ایک ایک انگ سے ظاہر تھا۔ پیاس سے ہونٹ سوکھ رہے تھے۔ گال زرد تھے اور پچک گئے تھے‘ میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا!
’’ تم نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ کب تک ر ہو گے اس حالت میں؟
میں نے پوچھا
جواب میں وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔
’’جس حال میں بھی ہوں، میں اس محل میں رہنے والوں کے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا۔
تم کب تک گْھلتے رہو گے اور پگھلتے رہو گے؟ اس محل کا طرزِ زندگی اور اس میں رہنے والوں کا طرزِ فکر نہیں تبدیل ہو سکتا۔ تمہیں ہی اس ہجوم میں شامل ہونا پڑیگا۔
’’نہیں! یہ کبھی نہیں ہوسکتا! انہوں نے مجھے راستے سے ہٹانے کیلئے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کیا نہیں کیا، لیکن میں زندہ ہوں اور زندہ رہوں گا۔ کیا تم نہیں جانتے کون کون میرے درپے ہیں۔ سب سے پہلے جاگیرداروں نے میرے راستے میں کانٹے بچھائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ محل صرف ان کیلئے بنا ہے۔ وہ کسی کو اس میں آنے نہیں دیتے۔ ہر دالان میں ہر راہداری میں، ہر شیش محل میں ہر دیوان میں، وہ اور انکی ذریت دندناتی پھر رہی ہے۔ حالانکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ محل ان کیلئے نہیں بنا تھا پھر سردار آئے اور مجھے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر سازش ناکام ہوئی۔ ان سرداروں نے اپنے اپنے قبیلوں کے لوگوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ بلوچستان سے باہر آئیں تو جمہوریت کا راگ الاپنے لگتے ہیں اور اپنی راجدھانیوں میں ہوں تو مجرم پکڑنے کیلئے بے بس خلق خدا کو جلتے کوئلوں پر چلاتے ہیں۔ یہ محل کے ہر کمرے میں موجود ہیں اور ہر ایک کے کئی سو محافظ ہیں! پھر مذہب کے علم بردار آئے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے محل پر چھا گئے۔ ان میں خدا کا خوف ہے نہ مخلوق کی شرم! یہ اتنے دیدہ دلیر اور اس قدر دریدہ دہن ہیں کہ ایک طرف فخر سے کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے ہم اس محل کے بنانے کے جرم میں شامل نہیں اور دوسری طرف یہ مسخرے وزارت چھوڑتے ہیں‘ نہ امارت اور حاجبوں چوبداروں نقیبوں اور کفش برداروں کے بغیر ایک قدم نہیں چلتے۔ انہوں نے کئی بار مجھ پر وار کئے لیکن ان کی کوئی بزدلانہ کوشش آج تک کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ انتہا یہ ہے کہ لوگ انکی ہوسِ زر سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں لیکن یہ سفید جھوٹ بول بول کر مسندوں پر مسلسل براجمان ہیں! پھر وہ سیاہ دل طبقہ ہے جو اپنے آپ کو افسر شاہی کا نام دیتا ہے۔ یہ اپنے طور پر الگ اس زعم میں ہیں کہ سب کچھ ان کا ہے اور یہ سارا میلہ ان کیلئے برپا کیا گیا ہے۔ یہ کبھی پھْدک کر اس طرف سے باڑ کے اس طرف جا پہنچتے ہیں اور کبھی واپس آ جاتے ہیں۔ انکی ذریتیں ولایت میں ہیں۔ انکی شہریتیں دْہری ہیں۔ ان کی تجوریوں میں مزید ڈالر ٹھونسے جانے کی گنجائش نہیں، انکے محلات لاتعداد ہیں اور انکی بیگمات علانیہ اور خفیہ متعدد ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ پر وار کئے لیکن یہ مجھے گھائل تو کر سکے، مار نہیں سکے۔ پھر وہ تاجر اور صنعت کار ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دینگے۔ ایک صنعتکار نے جو بہت بڑا سیاست دان ہے پانچ ہزار روپے ٹیکس میں ادا کئے ہیں، رہے سیاست دان تو وہ جاگیردار ہوں یا صنعتکار، سب ایک جیسے ہیں۔ گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں، میرٹ کو قتل کرنے کیلئے سفارشیں کرتے ہیں اور دباؤ ڈالتے ہیں۔ ارب کھرب پتی ہونے کے باوجود سرکاری رہائش گاہوں کا کرایہ تک نہیں دیتے اور ذہنی پستی کا یہ واحد ثبوت نہیں اور بھی کئی ثبوت ہیں مثلاً یہ کہ اسمبلیوں میں صرف اس وقت اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں جب مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو
!
لیکن اس سارے عرصہ میں‘ ان باسٹھ سالوں میں… ایک ساتھی ایسا ہے جو مسلسل میرے ساتھ رہا۔ غربت میں، سفر میں، بے کسی میں، بے چارگی میں، دھوپ میں، طوفان میں ، اس نے میرا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔ بارہا مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اس نے مجھے امید کی کشتی پر بٹھایا اور اپنے اس پختہ ایمان کا اظہار کیا کہ مجھے کوئی بدبخت گزند نہیں پہنچا سکتا‘ میرے اس ساتھی نے ہمیشہ ایک ہی گیت گایا …؎
یہی مٹّی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے
یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر
یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا بڑے ہوئے
ہمیں پاؤں پاؤں چلاتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے
یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں
یہی چْھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں
یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے
یہی غرناطہ یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے
تار تار کپڑوں والا یہ شخص 23 مارچ ہے اور باسٹھ سال سے ہر حالت میں اس کا ساتھ دینے والا نوائے وقت ہے اور نوائے وقت کا ایمان ہے کہ محل پر قابض لوگ کیفر کردار کو پہنچیں گے اور وہ دن ضرور آئے گا جب مسند پر 23 مارچ بیٹھے گا۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_03_01_archive.html
“