لال مسجد کے جامعہ حفصہ کی لائبریری کو اسامہ بن لادن سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس فیصلے کو سراہے گا۔ مولانا عبدالعزیز‘ سید منور حسن اور کئی اور بزرگ‘ کسی جزیرے میں نہیں رہ رہے، وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہمارے درمیان ہی چلتے پھرتے ہیں۔ ان کے ہزاروں لاکھوں متفقین ہیں، پیروکار ہیں جو ان کے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ ان حضرات کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے‘ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ تسلیم نہ کرنے کے رویے سے تکبر کا اظہار ہوتا ہے یا یکسر لاعلمی کا۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ معاشرہ دو عمودی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ عمودی اس لیے کہ اگر آپ کاغذ پر ایک مربع یا مستطیل شکل بنائیں تو معاشرے کو سمجھنے کے لیے اس کے درمیان لکیر یوں کھینچیں جو اوپر سے نیچے آ رہی ہو، دائیں سے بائیں نہ جا رہی ہو۔ مستطیل یا مربع دو برابر کے متوازی حصوں میں بٹ جائے گا۔ یہ دونوں حصے برابر ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو حصہ اسامہ بن لادن کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے وہ سماجی لحاظ سے کم تر ہے یا طاقت کے لحاظ سے دوسرے حصے کا ہم سر نہیں۔ آبادی کے اس حصے میں مدارس سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے علاوہ ہر طبقے کے لوگ موجود ہیں۔۔۔ تاجر‘ وکیل‘ ڈاکٹر‘ یونیورسٹیوں کے طلبہ‘ اساتذہ‘ سرکاری ملازم‘ حساس اداروں میں کام کرنے والے‘ صحافی ـ سب اس نقطہ نظر سے اتفاق کرنے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سب اس ملک کے شہری ہیں۔ اس ملک سے اپنے انداز میں محبت کرتے ہیں۔ محب وطن ہیں‘ پھر یہ کہ اپنے نظریات پر سختی سے قائم ہیں اور قائم رہنا جانتے بھی ہیں۔ یہ ہے وہ حقیقت جس سے آنکھیں چرانا حماقت ہے۔
معاملہ اتنا آسان نہیں کہ تقسیم صرف اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے یا نہ ماننے کی ہے۔ یہ تقسیم‘ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا‘ اوپر سے نیچے تک ہے اور مکمل ہے۔ آبادی کے یہ دو طبقے ہر اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ ان کے لباس اور ظاہری صورتیں مختلف ہیں‘ ان کے اخبارات‘ دورانِ تعلیم مضامین‘ پسندیدہ لٹریچر‘ سب کچھ الگ الگ ہے۔ ان کی ثقافتی دلچسپیاں یکسر مختلف اور متضاد ہیں، یہاں تک کہ عمومی طور پر یہ دونوں طبقے ایک دوسرے میں شادیاں کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اختلاف اتنا شدید ہے کہ نشست گاہوں کے انداز تک مختلف ہیں۔ آپ کسی مدرسہ کے مہتمم یا ناظم کے پاس جائیں، وہاں قالینی فرش ہو گا، گائو تکیے ہوں گے اور چوکیاں دھری ہوں گی۔ جوتے باہر اتار کر اندر جانا ہو گا۔ کالج کے پرنسپل سے ملنے جائیں‘ وہاں کرسیاں اور صوفے ہوں گے‘ قالین پر جوتوں سمیت چلنا ہو گا۔
اس تقسیم کا سبب صرف مدارس کو قرار دینا آدھا سچ ہے۔ آدھا سچ کہیں اور ہے جس سے ہم یا تو آگاہ ہی نہیں یا تجاہلِ عارفانہ برتتے ہیں۔ مدارس کا رُخ دو قسم کے طلبہ کرتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو اپنی مرضی سے وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ مرضی نظریاتی بنیادوں پر ہے۔ اس گروہ میں خوشحال گھرانوں کے فرزند بھی شامل ہیں۔ اکثریت دوسرے گروہ سے ہے۔ یہ معاشرے کا سماجی اور مالی اعتبار سے اسفل ترین طبقہ ہے۔۔۔ جس کے دس بچے ہیں‘ زمین تھوڑی ہے‘ روزگار غیر مستحکم ہے‘ وہ بچوں کو مدرسہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ وہاں رہائش مفت ہے‘ کتابیں بھی مہیا کی جاتی ہیں‘ تین وقت کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔
یہ اسفل ترین طبقہ ہمارے پالیسی سازوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ صرف قبائلی علاقوں کی مثال لیجیے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ برطانوی سامراج کو قبائلی علاقوں کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ان علاقوں کو صرف افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ایک کُشن (تکیے) کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس کی بلا سے وہاں کے بچے غلیل سے کھیلیں یا کتابیں پڑھیں۔ نااہلی اور کم نظری کی انتہا یہ ہے کہ یہ پالیسی پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہی۔ وہاں کالج بنے نہ یونیورسٹیاں‘ کارخانے لگے نہ بازار کھلے۔ ہماری حکومتوں میں دوراندیشی ہوتی تو آج وزیرستان‘ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں درجنوں یونیورسٹیاں اور پیشہ ورانہ کالج اور انسٹی ٹیوٹ ہوتے، صنعتیں ہوتیں‘ زراعت جدید خطوط پر متعارف کرائی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہاں کے نوجوان اُس آگ میں ایندھن کے طور پر استعمال نہ ہوتے جس کے شعلے آج آسمان تک پہنچ رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ حکومت سے پوچھیں تو سہی‘ گزشتہ 67 برسوں میں کن کن خانوں‘ کن کن مَلکوں کو کس کس پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کتنی کتنی ادائیگیاں کی گئیں۔ یہ اعداد و شمار جاننا قوم کا عمومی اور ان نمائندوں کا خصوصی حق ہے۔ یہ رقوم اربوں کھربوں تک ہوں گی۔ ان کا عشرِ عشیر بھی عام قبائلی تک نہیں پہنچا۔
اور یہ جو بلوچستان سے مذہبی پارٹیاں انتخابات جیتتی ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا اس پر کبھی غور ہوا ہے؟ اس کی وجہ مدارس کی کثرت اور تعلیم کی کمی ہے۔ سرداری نظام اس صوبے میں ایسا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ سرداروں کو کیا پڑی ہے کہ تعلیم پھیلنے دیں اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے پھریں۔ ایک بلوچی دانش ور نے بتایا کہ قبیلے کا ایک لڑکا کراچی گیا اور پڑھ لکھ گیا۔ واپس آیا تو باپ سے کہا کہ قبیلے کے سردارکو ازراہِ نیازمندی ملتے ہیں۔ وہ خوش ہو گا کہ اس کے قبیلے کا ایک نوجوان پڑھ لکھ گیا ہے۔ سردار نے دیکھا کہ لڑکے نے ڈھنگ کا لباس پہنا ہوا ہے اور بات چیت میں خوداعتمادی ہے۔ جاگیردارانہ ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نوجوان کو اٹھا لیا گیا۔ اس کے پورے جسم پر شہد ملا گیا اور ایسی غار میں بند کر دیا گیا جو چیونٹیوں کا ٹھکانہ تھی۔ اس واقعہ میں رمق بھر مبالغہ نہیں۔ لیکن مدرسے سینکڑوں کھلتے رہیں‘ سرداروں کو کوئی اعتراض نہیں۔
یہی صورت حال جنوبی پنجاب میں ہے۔ فیوڈلزم نے لوگوں کو جکڑ رکھا ہے۔ مدرسہ وہ واحد دروازہ ہے جو لوگوں کو ایک لمبی اونچی دیوار میں نظر آتا ہے۔ ان مدرسوں سے سال بہ سال ہزاروں نوجوان ایک خاص مائنڈ سیٹ لے کر نکلتے ہیں اور اس طبقے کو مزید طاقت ور بناتے جاتے ہیں جو اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتا ہے۔
کیا صورت حال بدلے گی؟ نہیں! بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ پالیسی سازحلقوںکو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ معاشرہ دو متضاد‘ متحارب حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ادراک ہی نہیں تو علاج کون کرے گا؟ کم ہی ایسے ارکان پارلیمنٹ میں ہیں جن کا ذہن گہرے تجزیے کی تاب رکھتا ہے۔ رہے کابینہ کے ارکان اور انہیں راستہ دکھانے والے بیوروکریٹ تو یہ وہ بالائی طبقہ ہے جس کی بقا ہی اس میں ہے کہ معاشرہ تقسیم ہو کر لڑتا جھگڑتا رہے۔
معاشرے کے اجزائے ترکیبی بدلنے کے لیے دانش‘ ادراک‘ گہرائی اور وژن درکار ہے۔ جو قوم ایک ہوائی اڈہ بنانے پر ایک عشرہ لگا دیتی ہے وہ اپنے معاشرے کو بدل لے‘ یہ ناممکنات میں سے ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“