تقسیم ہند کے عظیم انسانی المیے کا ذمہ دار کون؟ (اپنے ایک مضمون سے اقتباس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تقسیم ہند کے عمل میں جلد بازی نہ کی جاتی تو اس انسانی المیے سے بچا جا سکتا تھا جس میں مختلف اندازوں کے مطابق تین سے پانچ لاکھ لوگ قتل ہوئے اور دس کروڑ کے لگ بھگ لوگوں نے ہجرت کی، خواتین جن کی عصمت دری کی گئی، ان کے درست اعداد و شمار تو شاید کبھی دستیاب ہو بھی نہ پائیں، اور نہ ہی ان خواتین کے اعداد و شمار کبھی مل پائیں گے جنھوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پنجاب کے کنویں ان عزت مآب خواتین کی لاشوں سے پٹ گئے تھے، جو ان کی اجتماعی خود کشیوں کی یادگار بن گئے۔
ہوا یہ کہ حکومت برطانیہ، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان 1946 کے بعد سے اختیارات کی تقسیم پر بات چیت جاری تھی۔ لیکن مسلم لیگ کو کانگریس پر اعتماد نہیں تھا جس کا اس کے پاس جواز موجود تھا۔ مسلم لیگ چاہتی تھی کہ تقسیم کا یہ کام انگریز اپنے ہاتھوں سے انجام دے کر جائیں۔ کانگریس نے اس موقع پر ضروری لچک دکھانے سے بھی انکار کر دیا۔ اس پر قائد اعظم نے حکومت اور کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے نے 16 اگست 1946 کو یوم راست اقدام منانے کا اعلان کر دیا جس سے پہلے بنگال اور کلکتہ میں اور پھر دیگر علاقوں میں بھی ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جس میں کم از کم 4 ہزار لوگ مارے گیے اور ایک لاکھ بے گھر ہو گئے۔ یہ حالات دیکھ کر تقسیم امکان سے بڑھ کر یقینی بن گئی۔ انگریزوں نے تقسیم کا عمل تیز کر دیا اور اس جلد بازی میں متحدہ ہندوستان کی آبادی جو ابھی تک اس عمل کے لیے ذہنی، اور انتظامی طور پر تیار نہ ہو پائی تھی، غصے میں پاگل ہوگئ اور فسادات پھوٹ پڑے۔
دیکھا جائے تو دباؤ بڑھانے کے لیے سٹریٹ پاور کا استعمال ایک منفی اور مہلک ہتھکنڈا ہے۔ مطالبہ خواہ کیسا ہی درست کیوں نہ ہو لیکن اس کے حصول کے لیے عوام کی قربانی دینا کسی ایسے لیڈر کو زیب نہیں دیتا جس کو لوگوں سے ہمدردی کا دعوی ہو۔
مسلم لیگ کو تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ممکنہ فسادات کا پورا ادرک تھا۔ لیکن ان کے لیے الگ ملک جلد از جلد حاصل کرنا زیادہ ضروری ٹھہرا تھا، انسانی جانوں کا ضیاع انہوں نے جان پوچھ کر گوارا کر لیا تھا۔ اس کا ایک ثبوت تو یہی یومِ راست کا اقدام ہے، جس سے حالات کی حدت کا اندازہ سب کو تھا، دوسرا ثبوت قائد اعظم کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے 21 مئی 1947 کو ڈون کومب ویل کو دیا۔ جس میں قائد اعظم نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے ممکنہ خوفناک نتائج پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ انٹرویو کا اقتباس یہ ہے:
"The new clamour for partition that is stated is by the vocal section of the caste Hindus in Bengal and the Sikhs in particular in the Punjab will have disastrous results if those two provinces are partitioned and the Sikhs in the Punjab will be the greatest sufferers; and Muslims under contemplated Western Punjab will no doubt be hit, but it certainly will deal the greatest blow to those, particularly the Sikhs, for whose benefit the new stunt has been started. Similarly in Western Bengal, caste Hindus will suffer the most and so will the caste Hindus in Eastern Punjab."
ترجمہ: تقسیم کے مسئلے پر یہ نیا شور و غوغا جو بنگال میں طبقاتی ہندوؤں نے اور خصوصا پنجاب میں سکھوں نے شروع کیا ہے، اس کے بہت بھیانک نتائج ہوں گے اگر دونوں صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور پنجاب میں سکھوں کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوگا اور مسلمانوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں نقصان ہوگا، مگر جن کے نام پر یہ نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے یعنی کہ سکھ، ان کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اسی طرف ہندوؤں کو مغربی بنگال میں اور مشرقی پنجاب میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔
گویا کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نے تقسیمِ ہند کو اس انسانی المیے، جو وسیع پیمانے پر قتل و غارت، عصمت دری، نقل مکانی اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی اور نفساتی المیے کی صورت میں ظاہر ہوا، اور جس کے اثرات ہندو مسلم نفرت کے احساس کی صورت میں نسلوں کو منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگوں، ایک دوسرے کے ہاں بدامنی پیدا کرنے کے لیے دھماکوں، ایک دوسرے کے ہاں باغی عناصر کی پشت پناہی وغیرہ جیسے اقدامات دفاعی پالیسی کا حصہ بن گئے ہیں، اس سب کا احساس کرتے ہوئے بھی جلد بازی کی تقسیم کو گوارا کر لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ اس المیے کو برپا کرنے کی مجرم نہیں بنتی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس کے بعد معافی اور تلافی کا عمل شروع کر کے نفرت کے سلسے کو ختم کرنا چاہیے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“