تقسیم کے وقت کیا مسلمانوں نے ہندووں سکھوں کا قتل عام نہیں کیا؟
اس بات کی بھی تردید ہوگی کہ مسلمان ہندو، سکھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔۔
' ملتان ایک پرامن شہر تھا، محبت اور اچھے لوگوں سے بھرا شہر۔ سرائیکی زبان اور ثقافت بہت خوبصورت ہے۔ ہم نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا تھا، کہ ایک دن یہ سب ختم ہوجائے گا۔ اور ہمیں صوفیوں کے شہرسے جانا پڑے گا۔ ہمارے بزرگ ملتان کے قدیم باشندے تھے۔ ہمارے مسلمان ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ہم اکٹھے کھاتے پیتے تھے۔ میرے والد مسلمان اولیا کے متعقد تھے۔ اور صوفیوں کے مزاروں پر حاضری دیتے تھے۔۔ مسلمان اکثریونینسٹ پارٹی کے خلاف اکثر بدزبانی کرتے تھے۔ انہوں نے عوامی جلسوں میں غیرمسلموں کے خلاف اشتعال دلانے کے لئے ملاوں کو استعمال کیا، میں نے 5 مارچ کو ایک جلوس میں شرکت کی، جس میں زیادہ تر ہندو طلبا تھے۔ بوہڑ گیٹ میں اس جلوس کا مسلمانوں کے ساتھ خونی تصادم ہوا۔ اس کے بعد مشتعل مسلمان ہندووں کی دکانوں کو آگ لگانے لگے، اور کی کو چھرا گھونپ دیا گیا۔ سیٹھ کلیان داس کے قتل سے خوف و ہراس پھیل گیا۔ اور کئی امیر ہندووں نے اپنے خاندانوں سمیت مشرقی پنجاب میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، ہم نے ملتان اپریل میں چھوڑا، میں ہمیشہ ملتان واپس جا کر اپنا شہر دیکھنے کا خواہاں رہا۔ لیکن مارچ 1947 میں جو خوف مجھ پر طاری ہوا، وہ اب بھی برقرار ہے۔
(پریم چند کھنہ جالندھر)
"آج بھی میرے تصور میں بوہڑ چوک پر بے دردی سے قتل ہونے والے نانک سنگھ اور دیگر ہندووں کی لاشیں موجود ہیں۔ اس علاقے میں میرے والد کی دکان تھی، اور دکان کی پچھلی گلی میں ہمارا گھر تھا۔ ہندو اور سکھ لاہور میں خضرحیات حکومت کے خاتمے کے خلاف پرامن احتجج کررہے تھے۔ مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا۔ ان میں کئی بدنام جرایم پیشہ لوگ تھے۔ جب مسلمانوں نے حملہ کردیا، تو خوف و ہراس اس قدر پھیل گیا، ہندو اورسکھ ہرطرف بھاگنے لگے۔ میں اور کزن امرت لال بھی ان کے ساتھ بھاگنے لگے، مسلمان بلا تفریق تمام ہندووں کا تعاقب کررہے تھے۔ یہ بڑا روح فرسا منظر تھا۔ لیکن کچھ مسلمانوں نے ہمیں بچا کر چھپا دیا۔ پولیس کا رویہ جارحانہ تھا۔ اور اس نے ہندووں اورسکھوں کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد ہندووں اورسکھوں نے اپنے خاندانوں کو مشرقی پنجاب میں محفوظ مقامات پر بھیجنا شروع کردیا۔ میرے والد اور چچا جولائی کے اختتام تک ہمارے پاس آن پہنچے، البتہ ہمارے کئی رشتے داروں کو اگست میں قتل کردیا گیا۔۔"
(گردھاری لال کپور)
" بوہڑ بازار کے قریب ہماری دکان تھی۔ اور بیشتر گاہک مسلمان ہی تھے۔ مسلمان خواتین باپردہ آیا کرتی تھی، البتہ دکان پروہ پردہ ہٹا دیتی تھی۔ ہم انہیں احترام سے بی بی جی کہا کرتے تھے۔ بیشتر خواتین کا تعلق پیروں کے گھرانوں سے ہوتا تھا۔ ایک مسلمان خاتوں نے میرے والد کی بہن بن کر ان کو راکھی بھی باندھی ہوئی تھی۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی، وہ اکثر میرے والد کو کہتی تھی۔ میں نے بھولے ناتھ کو گود لینا ہے۔اور میرے والد کہا کرتے تھے، ' بی بی جی آپ کا ہی بچہ ہے'۔ 5 مارچ کو اچانک گڑ بڑ ہوئی۔ مجھے کچھ دیر میں دکان پر چیخوں اور شور کی آواز سنائی دی۔ میں چھوٹا سا تھا جب میری ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ اگرچہ میرے والد جلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ لیکن کسی نے انہیں قتل کرڈالا۔ میرے ایک مسلمان دوست سرور نے میری زندگی بچانے کے لئے اپنے گھرلے گیا۔ پھر میرے چچا کشن جو ریلوے مین ملازم تھے، وہ لدھیانہ سے ملتان آئے، ہم نے اپنی دکان فروخت کردی۔ اور اپریل کے شروع میں لدھیانہ چلے گے۔ میں آج بھی ملتان اور اپنے مرے ہوئے باپ کو خواب میں دیکھتا ہوں۔ میں 13 سال کا تھا، جب ملتان میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
(بھولا ناتھ گلاٹی)
گورنر نے وائسرائے کو تار میں ملتان میں 100 ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر زخمیوں کی اطلاع کی۔ 8 مارچ کو ملتان میں 140 لاشیں برآمد ہوئی۔ ملتان میں صورت حال اس وقت بگڑگئی، جب غیرمسلم طلبا نے قائد اعظم مردہ باد کے نعرے لگائے، دوپہر تین بجے تک ڈیڈھ سو افراد تقریبا تقریبا تمام کے تمام ہندو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
"ملتان میں فسادات 5 مارچ کو شروع ہوئے، زیادہ ترمسلمانوں نے (اکثریت ہونے کی وجہ سے) ہندووں اور سکھوں پر حملے کئے، ہندووں کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ شہر کا علاقہ زیادہ متاثر ہوا، لیکن گردونواح کی بستیوں پر بھی حملے کئے گے۔ ملتانی ہندو پرامن لوگ تھے، 1947 کے ہنگاموں سے پہلے ملتان میں حالات پرامن تھے۔ تجارت اور کاروبار پر ہندووں کا زیادہ غلبہ تھا۔مسلمان ثقافتی اور سیاسی زندگی پر حاوی تھے۔ پہلی جھڑپ بوڑھ گیٹ پرہوئی، جہان زیادہ تر گردیزی گھرانے کے لوگ رہتے تھے۔ ہندووں کا ایک جلوس پاکستان مخالف نعرے لگاتا آیا، سامنے برف فروش مسلمان عبدالکریم نے مظاہرین کو للکارا، ایک قصاب محمد رمضان چھریاں لے آیا،دو سکھ قتل کردیئے گے،ایک سکھ لاش سے لپٹ کررونے لگا، " تو زندہ ہے" جس سے خونریزی شروع ہوگئی۔ اس ردعمل سے فسادات میں شدت آگئی۔ ہندووں کے گھر بڑے بڑے تھے، مسلمانوں نے ان کے گھروں کو آگ لگانی شروع کردی۔
دوسری طرف ہندووں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی مدد بھی کی۔۔"
امرتسر اور جالندھر:
سکھ گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلمانوں کو سڑکوں پر مظاہرے کرتے دیکھ کرکافی جذباتی اور کبیدہ خاطر تھے۔ ایک طرف نعرے تھے، 'جو مانگے پاکستان، اس کو دیں گے قبرستان'۔ دوسری طرف 'بن کے رہے گا پاکستان' لے کے رہیں گے پاکستان'۔ گول پٹی چوک پر مسلمانوں نے اینٹیں، پتھراور سوڈا واٹرکی بوتلیں پھینکیں۔ سکھوں نے کرپانوں سے حملہ کیا، سکھوں نے 7 مسلمانوں کو قتل کردیا، مسلمانوں میں زبردست اشتعال پھیل گیا، پورا شہر میدان جنگ بن گیا۔ مسلمانوں نے طویل منصوبہ بندی کررکھی تھی، اسلحہ اور پٹرول بھی زخیرہ کررہے تھے۔ مسلمان سکھوں کے اہم ترین شہر امرتسر میں سکھوں کے حوصلے پست کرنا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ نے 4 مارچ کو حملے کی تیاری مکمل کرلی، مسلمانوں نے چھوٹے چھوٹے جتھے بنا کر شہر کے تمام اندورنی داخلی راستے بند کردیے۔ ہندو سکھ آبادی عین شہرکے بیچ رہتی تھی، اور مسلمان ارد گرد کے علاقوں میں۔ چنانچہ ہندو سکھ آبادیاں گھیرے میں آگئی، مسلمانوں کو سکھوں اور ہندووں پر حملہ کرنے میں برتری حاصل ہوگئی۔ امرتسر کے نواحی علاقے میں مسلمان آبادی شریف پورہ کے پاس ایک ٹرین پر بہیمانہ حملہ کیا گیا، جس میں ہندووں اور سکھوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ مسلمانوں نے نہ صرف ہندووں اور سکھ مردوں بلکہ بچوں اور عورتوں کو بھی ہلاک کیا۔ یہ حملہ چوک پراگ داس میں مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ تھا۔۔ کئی مسلمان نوجوان ٹرین پر چڑھ گے، ایک نے ڈرائیورکو چھرا گھونپ دیا۔ مسلمان عسکریت پسندوں نے عام مسافر عورتوں، مردوں، بچوں کا نہ چھوڑا۔ ان خبروں کو سن کر ہندووں اور سکھ نوجوانوں میں غم و غصے کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ان کے بڑوں کا خیال تھا، کہ مسلمانوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ امرتسر میں مجموعی طور پر فسادات سے پہلے بھائی چارے کی فضا پائی جاتی تھی۔۔ (جناح جھوٹ بول رہا تھا مسلمان ہندو ساتھ نہیں رہ سکتے)۔ مسلم اور غیر مسلم بچے ایک دوسرے کے بزرگوں کو چچا چچی کہہ کربلاتے تھے۔
خواجہ افتخار کے مطابق کچھ غیرمسلموں نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی مسلمانوں کی جانتیں بچائیں۔ اسی طرح ہاتھی گیٹ میں مسلمانوں کےہتھے چڑھنے والے دو سکھ لڑکیوں کو امرتسر مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نے بچایا۔
'مسلم لیگ پورے پنجاب میں ہندووں اور سکھوں کو مٹانے کے درپے تھی۔ لیکن امرتسر میں اسے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ 6 مارچ کو ہولی تھی، جس وقت ہندو اور سکھ تہوار منانے کی تیاری کررہے تھے۔ مسلمانوں نے ریلوے ورکشاپ کے سکھ مزدوروں پر حملہ کردیا۔ اور ان میں بعض کو قتل کرڈالا، ایک ٹرین پر حملہ ہوا جسمیں امرتسری مسلمانوں نے بے رحمی کے ساتھ بے گناہ ہندووں اور سکھوں کو قتل کرڈالا۔ بعد میں مسلمانوں نے ہندووں اور سکھوں کی عمارتوں کو آگ لگا دی۔ قمریورش کے مطابق اشتعال انگیزی مسلمانوں کی جانب سے طویل عرصے سے جاری تھی۔ مسلمان غنڈے بھی اس تحریک میں شامل ہوگے۔
5 مارچ کے بعد لاہور میں تشدد پھیل گیا، کناڑی بازار، کیسربازار، رنگ محل میں دکانیں لوٹنے اور جلانے کے کئی واقعات ہوئے، جب ہندووں نے مزاحمت کی کوشش کی، تو ایک سب انسپکڑ پولیس نفری کے ساتھ آیا اور فائرنگ شروع کردی، ایک ہندو نوجوان نے سب انسپکڑ کو روکنے کی کوشش کی، تو اس نے فائرنگ کردی، جس سے وہ نوجوان ہلاک ہوگیا، پورے شہر میں کشیدگی پھیل گئی، اسکول بند ہوگے۔
امرسنگھ اور مدن لال سنگھ نے اپنی کہانی یوں سنائی، ہزارہ سے جب سکھ روالپنڈی آئے، کئی ہندو اور سکھ عورتین بچوں سمیت اغوا کی گئیں۔ اور پھر کبھی بازیاب نہ ہوئی۔ کچھ عورتوں سے زیادتی بھی کی گئی، کچھ روح فرسا واقعات میں عورتوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی (مسلمانوں نے)۔ اور ان کے نازک حصوں کو تیز دھار ہتھایروں سے زخمی کیا گیا، ہم نے متاثرہ افراد کو گوردواروں اور مندروں میں قیام کرایا، کچھ افراد کو ہندووں کے گھروں میں ٹھہرایا گیا۔ اور کچھ مشرقی پنجاب کے علاقوں کپورتھلہ، امرتسر، پٹیالہ نقل مکانی کرگے۔ جب مارچ 1947 میں مسلمانوں نے حملے شروع کئے۔ اگست 1947 کو سکھوں نے جوابی حملے کرنے شروع کئے۔
کلکتہ میں قتل عام:
16 اگست 1946 کی صبح کو مسلمان بڑی تعداد میں کلکتہ شہر میں داخل ہوئے، جب ہندووں نے رکاوٹیں کھڑی کی، تو چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوئی، مسلمانوں نے ہندووں کی دکانوں پر حملے شروع کردیئے، اور ہندو آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا، نامی گرامی غنڈوں کی قیادت میں مسلمانوں نے حملے کئے، ان جھڑپوں میں 2 سے 4 ہزار لوگ ہلاک ہوئے، اور 15 ہزار سے زائد زخمی۔ کلکتہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا سلسلہ وبا کی طرح سارے ہندوستان میں پھیل گیا۔ بمبئی میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم ہوا۔ دونوں طرف سے سینکڑوں افراد مارے گے۔ مشرقی بنگال کے علاقے نواکھلی میں مسلمانوں نے حملے کرکے 400 ہندووں کو جان سے مار ڈالا۔
" ایک روز پاجامہ اور شیروانی دو ڈھائی سو کے لگ بھگ طلبا ہمارے قصبے شیخوپورہ آئے (یہ مسلمان نوجوان یوپی سے پنجابی مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے بھیجے گے تھے)۔ انہوں نے خطاب کرتے کہا، " اس جگہ سے میں آیا ہوں، (یعنی علی گڑھ)، وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا، ہم سر پر کفن باندھ کرشیخوپورہ آئے ہیں۔۔ ہم پاکستان حاصل کرکے رہیں گے۔ مسلم لیگ کے مقررین بھی جارحانہ انداز اپنا رہے تھے، مولوی، پیر، اور طلبا صوبے بھر میں پھیل کر دھمکی دے رہے تھے۔ مسلم لیگ کو ووٹ نہ دینے والے مسلمان نہیں رہیں گے۔۔اور ان کے نکاح ٹوٹ جائیں گے۔۔۔ وہ انہیں کمیونٹی سے بے دخل کردیں گے۔۔ مسلم لیگ نے جارحانہ اور خطرناک انداز سے اپنی مہم میں اسلام کا نام استعمال کیا۔۔
راوالپنڈی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سکھوں کا قتل عام:
راوالپنڈی شہر میں سکھ اور ہندو اکثریت میں تھے۔ امیر ترین افراد سکھ تھے۔ بیشتردکانیں، تجارتی عمارتیں، اور رہائشیں اسکیمیں ان کی ملکیت تھی۔ ہندو چھوٹے دکاندار اور کچھ سنار تھے۔ پنڈی کی مسلم آبادی غریب تھی، ان کی اکثریت ہنرمندوں اور کم اجرت والے مزدوروں کی تھی۔
" 5، 6 مارچ کو اچانک شہرمیں قرآنی اوراق گرے ہوئے پائے گے، جس سے شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، جلاو گھیراو اور چھرا گھونپنے کی وارداتیں شروع ہوگئی۔ کئی روز تک فسادات چلتے رہے، املاک کا بھاری نقصان ہوا، غیرمسلمون نے شروع میں تو مقابلہ کیا، لیکن بعد میں ان کو پنڈی سے بھاگنا پڑا۔ 1947 سے پہلے ہندووں اورسکھوں کی بڑی آبادی تھی، مجموعی طورپربہت اچھے اورمہربان لوگ تھے۔ رٹہ کے علاقے میں کچھ سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ اور ڈھوک میں سکھوں کو جبرا' اسلام قبول کرکے ان کے سر اور داڑھی کے بال مونڈ ڈال دیئے گے۔ سکھوں نے مزاحمت کی تو مسلمان ہجوم نے تشدد کرکے ان کو جان سے مار ڈالا۔ سکھوں نے اپنے مذہب کی علامت کی بے حرمتی پر شرم کے مارے خود کشی کرلیں۔ تشدد تیزی سے پھیل گیا، دہیات میں اس کی شدت زیادہ تھی۔ کئ ہندو اورسکھ بھاگ کرشہرآگے، ان کی حالت زار بلاشبہ قابل رحم تھی،
6 مارچ کو محلہ لال کرتی میں تمام مذاہب کے عمائدین نے امن کمیٹی تشکیل دی، لیکن کمیٹی کا ایک مسلمان رکن شیخ برکت سازشی نکلا، جب کمیٹی کےہندو ارکان اور سکھ میٹنگ میں برکت کے گھر پہنچے۔ تو ان پر دھوکے سے حملہ کردیا گیا۔ سندر سنگھ حلوائی نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن چھریوں چاقووں سے ہجوم نے اس کا تعاقب کیا۔ اس نے جان بچانے کے لئے ایک مسجد میں پناہ لی۔ اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن حملہ آوروں نے یقین کرنے کی بجائے وضو والی جگہ پر لٹا کراس کو زبح کردیا۔ انہوں نے زبان منہ سے باہر نکال دی، اور داڑھی صاف کردی۔ اور لاش کو گلیوں میں گھسیٹا۔ یہ ایک کرہیہ منظر تھا۔ "ہمارے ہمسائے میں مقیم ایک سکھ خاندان نے ہمارے گھر میں پناہ لی۔ ہمارے گھرکے بارے ہجوم جمع ہوگیا۔ اور سکھوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن ہم نے انکارکردیا، ہمارے خاندان کی وابستگی خاکسار تحریک سے تھی"۔ " ہمارا گھر خالصہ ہائی اسکول ' گلی 'مائی ویر دی بنی' میں تھا۔ ہزارہ سے مسلمانوں کے حملوں سے بھاگ کرآنے والوں کو ہمارے محلے میں پناہ دی گئی۔ کیونکہ یہ ہندوو سکھ اکثریت کا علاقہ تھا۔ میرے والد ریلوے میں ٹکٹ ایگزامنرتھے، میرے والد کو پکڑ کر ان کی داڑھی مونڈنے کی کوشش کی کہ ایک مسلمان قبائلی سردار نے ان کو بچایا۔ مسلمان پولیس اہل کاروں کا کہنا تھا، کہ انگریزوں نے ان کو تین دن کے لئے کھلی چھوٹ دی ہے، غیرمسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو۔۔ مسلمانوں نے دہیات کا رخ کیا جہاں ہندووں اور سکھوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ مسلم لیگ کے غنڈوں نے دہیات میں بے یارومددگار سکھووں اور ہندووں کی کوئی مدد نہ کی۔ مسلمان شرپسندوں کا سرغنہ چوہدری مولا اوراس کا بھائی چوہدری حقا تھا۔ سکھوں نے دونوں کے سرکی قیمت 50 ہزارروپے رکھی ہوئی تھی۔
پیرآف گولڑہ شریف کی شہہ پر مسلمانوں کا گروہ راولپنڈی شہر میں آیا ، ہندووں اورسکھوں نے خندقیں کھود کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔ مسلمان شرپسندوں نے 7 مارچ کو ٹیکسلا اسٹیشن پر ٹرین روک کر 22 ہندووں اورسکھوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا،
یہ بات قابل ذکرہے، کہ قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کے کسی راہنما نے راوالپنڈی میں فسادات اورظلم و جبرکی کوئی مذمت نہ کی۔
مسلمانوں کے ہاتھوں سکھوں کا قتل عام:
"مسلمانوں کے جتھوں نے کہوٹہ پربھیڑیوں کے غول کی شکل میں ہلہ بول دیا، بالٹیوں میں بھرا تیل چھٹرک کرسکھوں اور ہندووں کے گھروں کو آگ لگادی، چند ہی لمحوں میں پورا علاقہ شعلوں میں گھرگیا اورآگ میں پھسنے افراد بے بسی کے عالم میں چیختے چلانے لگے، اورمدد کے لئے پکارتے رہے، لیکن شعلوں نے ان کو نگل لیا۔ جنہوں نے آگ سے جان بچائی انہیں پکڑ کرباندھ دیا گیا، اور پھر تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ ہندووں اورسکھوں کے گھروں کو لگائی آگ پھیلتے پھیلتے بے قابو ہوگئی، اور مسلمانوں کے مکانوں تک بھی جا پہنچی، چنانچہ پورا کہوٹہ راکھ کا ڈھیر ہوگیا، چند ہی سکھ اورہندو عورتیں زندہ بچ پائی، انہیں یا تو بستروں سے اٹھا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اورپھر جبرا' ان کا مذہب تبدیل کیا گیا، کچھ عورتیں آگ میں جلنے والے اپنے مردوں کے ساتھ زندہ جل مری۔
آزاد کشمیر کی سرحد کے ساتھ ایک گاوں میں بھی سکھوں کا صفایا کردیا گیا تھا۔ تھمالی (جہاں جنرل ٹکا خان نے ابتدائی تعلیم لی تھی) میں کم مسلمان رہتے تھے، یہ خوشحال گاوں گا، ہندووں کی تعداد کم تھی، بیشتر لوگ سکھ تھے، عین وسط میں ایک گوردوارہ تھا۔ ہمارے سکھوں اورہندووں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، مسلمان غریب اور مقروض تھے، جب کہ سکھ بہت امیر تھے، باہر سے آنے والے حملہ آور پہلے ہی گاوں کے ارد گرد اکٹھے ہونے شروع ہوگے، بڑا حملہ 13 مارچ کو ہوا، اس وقت تک کئی ہزار مسلم افراد نے گاوں کا محاصرہ کرلیا، ان کے پاس کئی قسم کے ہتھیار تھے، اکثریت کے پاس لمبے ڈنڈے اور نیزے تھے۔ سکھوں نے ان حملہ آوروں کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی، امن معائدے میں ثالثی کا کردار جنرل ٹکا خان کے والد راجہ محمد اقبل نے کیا۔ کچھ ہندووں اور سکھوں نے پیسے دے کرجان چھڑائی، معائدے کے تحت ہندو اور سکھ اپنی زمینیں چھوڑکر چلے جائیں گے۔ معائدے کے باوجود ایک گروہ نے گاوں پر حملہ کردیا، ہمارے سکھوں سے بہت اچھے تعلقات تھے، وہ میرے والد کی بہت عزت کرتے تھے، فائرنگ اور نعروں کی آوازیں آ رہی تھی، بچے اور عورتیں زور زور سے رو رہے تھے، کچھ دیر تک سکھوں نے دفاع کیا، لیکن اتنے ہجوم کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ گوردوارے میں آگ بھڑک اٹھی، دھماکوں کی آوازیں آ رہی تھی، لڑائی پورا دن جاری رہی۔ دو سکھ نوجوانوں کو میرے والد نے گھر میں پناہ دی۔ اگلے روز جب فوج پہنچی، تو سب کچھ تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ سکھوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا تھا۔ کچھ سکھوں اور ہندووں نے اسلام قبول کرلیا، اور وہ اسی گاوں میں رہے۔
" تھمالی ڈھائی تین ہزار نفوس کی آبادی کا گاوں تھا۔ صرف چارگھر مسلمانوں کے تھے، کچھ سکھ فوج میں افسر تھے، سکھ لڑکوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ امیرتھے جب کہ ہم غریب تھے، ہمارے بیشتر اساتذہ ہندو تھے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ تحریک پاکستان کے بارے کوئی بات نہ کرتے تھے۔ حملے کے ساتھ ہی اللہ و اکبر کی آوازیں آ رہی تھی، سکھوں کے پاس اسلحہ نہیں تھا، انانہوں نے اپنی املاک کو آگ لگا دی، اور اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ہاتھ سے مارڈالا،
" حملہ آوروں کا پہلا جتھہ 6 مارچ کو پہنچا، ابتدا میں سیکڑوں افراد تھے، جو بعد میں ہزاروں کی تعداد مین آن ملے، وہ ڈھول بجا کر اللہ اکبرکے نعرے لگا رہے تھے، کچھ لوگ گھوڑوں پر بھی سوار تھے، بارہ مارچ تک تھمالی گاوں کو کئی ہزار لوگ محاصرے میں لے چکے تھے۔ کچھ سکھ گھروں سے نکل کر کھیتوں کی طرف لڑنے کے لئے گے، لیکن وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے تھے۔ خواتین کو گرودوارے لے جایا گیا، ان کے پاس قیمتی زیورات بھی تھے۔ اس کے بعد وہاں آگ کا آلاو جلایا گیا، سکھوں کا کہنا تھا، کہ ہم اپنی عورتوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں لگنے دیں گے۔ میری دادی، والدہ اورایک بہن زندہ آگ میں جل مری۔ میرے والد باہر کھیتوں میں لڑرہے تھے۔ مسلمانوں نے ہم چند سکھ لڑکوں کو گھیر لیا، اور کہا، کہ ہم اللہ و اکبر کے نعرے لگائیں۔ ایک ستر سالہ رام سنگھ بھی اللہ واکبر کا نعرہ لگا رہا تھا، کہ ایک مسلمان نے اس کے گنجے سرپر کلہاڑے سے وار کردیا، وہ زمین پر گر پڑا، اس واقعے کے بعد تھمالی ہمارے لئے اچانک اجنبی بن گیا، جب فوجی ہمیں ٹرک پر سوارکررہے تھے، تو ہماری گائیں بھینسین ٹرک کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ یہ تھمالی کے حوالے سے میری آخری یادداشت ہے"
چوا خالصہ 1947 میں تین ہزارنفوس کا خوشحال گاوں گا۔ یہاں بھی مسلمان غریب اور ہندو ، سکھ امیر تھے۔ کاروبار پران کا کنٹرول تھا۔ ان میں کچھ اہم سول اور فوجی عہدوں پربھی فائز تھے۔ ہندو محرم کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ بھی اپنے مقدس ایام جوش و جذبے سے مناتے تھے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر ٹھاکرداس پوری ایک صوفی منش آدمی تھے، شائد ہی کوئی مسلمان ہوگا، جو ماسٹر ٹھاکرکی عزت نہ کرتا ہو۔ وہ تمام شاگردوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے، بدقسمتی سے حملہ آوروں نے ان کے ساتھ بھی ظالمانہ سلوک کیا، تاہم ایک مسلمان استاد ماسٹر شیرزمان نے ان کو بچا لیا، اورٹھاکربحفاظت ہندوستان چلا گیا۔ جب گڑبڑ شروع ہوئی، تو ہندو اورسکھوں نے اپنے کنبوں کو اونچی عمارتوں میں جمع کرلیا، بچوں اور عورتوں کو یا تو قتل کردیا گیا، یا آگ میں پھینک دیا گیا۔ جنہوں نے ایسا نہ کیا، انہیں مسلمان حملہ آوروں نے مار ڈالا۔
6 یا 7 مارچ کو مسلمانوں کے پہلے جتھے نے حملہ شروع کیا، کچھ ہندو سکھ مارے گے، تاہم حملہ آوروں کا اصل مقصد دکانیں لوٹنا تھا۔ 12 اور 13 مارچ کو مسلمانوں کا ایک بڑا جتھہ آیا، وہ غیرمسلموں پرغالب آگے، ان کو پیش کش کی گئی، کہ وہ یا تو مسلمان ہوجائیں، یا پھر موت کے لئے تیار ہوجائیں۔ دو سکھ بڑوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو مار کرآگ میں پھینک دیا۔ 150 سکھ حملے میں مارے گے۔ مجھے آج بھی سرکٹی لاشوں کا منظر یاد ہے۔۔
جتنا بڑا مسلمان زمیندار تھا، اتنا ہی وہ سکھ ساہوکار کا مقروض تھا۔ میرے والد کی 8 کنال زمین سکھوں کے پاس رہن تھی، ہماری سکھوں سے کوئی پرخاش نہ تھی، ہمارے اور ان کے درمیان خیرسگالی اور دوستی کے جذبات پائے جاتے تھے۔ سکھ مسلمانوں کا خیال رکھتے تھے۔ تاکہ ان کے دل میں نفرت انگیز خیالات پیدا نہ ہوں۔ گاوں میں دو کنوئیں ہوتے تھے ایک مسلمانوں کا دوسرا سکھوں اور ہندووں گا۔ لوگوں کے پاس نیزے، چھرے اور ڈنڈے تھے ، غیرمسلموں کی دکانیں لوٹی جا رہی تھی۔ کچھ سکھوں اور ہندووں کو قطار میں کھڑا کرکے مسلمان ہونے کو کہا، انہیں چھوتے چھوٹے گروپوں میں مسجد میں لے جایا جاتا۔ کلمہ پڑھا کران کے بال اور داڑھیاں منڈوا دی جاتی۔۔
بابو کرم سنگھ ہمارے استاد تھے، گاوں میں انگریزی صرف وہی پڑھا سکتے تھے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے، مسلمانوں نے فیصلہ کیا، کہ وہ مسجد کی چھت پر چڑھ کر قریب واقع گوردوارے پردستی بم پھینکے گے، جب حملہ ہوا، تو میں بابو کرم سنگھ کی کلاس پڑھ رہا تھا۔ اکبرخان نے نعرہ تکبیر لگایا، اور ہندووں سکھوں کی دکانیں لوٹنے لگے۔ حملہ آور گاوں کے ہی تھے، جلاو گھیراو کا سلسلہ دو روز تک جاری رہا۔ ہم نے ایک جگہ ایک لڑکی کو چھپے دیکھا، ہم نے اسے کہا، باہر آو اور کلمہ پڑھ لو، اس نے انکار کردیا اور خود کو آگ لگا لی۔ چوتھے روز فوج آئی۔ جہلم کیمپ میں نے کئی معذور اور لاچار افراد کو دیکھا، حملہ آوروں نے خواتین کی چھاتیاں کاٹ ڈالی، اور ان کو کئی بار زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شیرخوار بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گے تھے۔ اور ان کی لاشیں نیزوں پر اچھالی گئی۔ مسلمان فوجیوں نے بظاہر اس جلاو گھیراو کی منصوبہ بندی کی تھی۔۔
جاری: کتاب پنجاب کا بٹوارہ۔۔ اشتیاق احمد