پروگرام تقریب رونمائی 2 کتب بتاریخ 30 دسمبر2018 ء باشتراک بزمِ فروغِ ادب و ثقافت لیہ اور ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
"صابر جاذب لیہ" یہ ایک تحریک کا نام ہے۔ اپنی ذات میں ایک ادارہ ایک انجمن۔
میرا جنون کام کام اور بس کام! کام کا جنون مجھے مشرق میں اُڑا لے گیا تو بھارت، تھائی لینڈ اور ملائشیا تک کے سفر کروائے، مشرقِ وُسطیٰ میں دوحہ قطر اور مغرب میں لے کر اڑا تو ہنگری، پولینڈ، چیکوسلواکیہ، آسٹریا، فرانس، جرمنی، سوئٹزر لینڈ میں جا اُتارا اور مغرب بعید میں امریکہ کی متعدد ریاستوں میں مجھے لے کر گھوما۔
پڑھنے پر آیا تو قدیم ترین تہذیبوں ٹیکسلا، موئنجودڑو، ہڑپہ سمیت بابل اور نینوا، یونانی مِتھس، بُڈاپسٹ ہنگری، روڈس ہائن جرمنی، ہائیڈل برگ جرمنی کھنگال ڈالیں۔ کتب کی ابتدا قرآن کریم سے ہوتے ہوئے اناجیل اربعہ، غزل الغزلات، تورات، زبور اور یوحنا عارف کا مکاشفہ۔ وید اور گیتا سمیت حضرت بدھا کی دھم چک پوتن سُت پڑھ ڈالیں۔ مذاہب کے تقابلی جائزہ پر آیا تو اللہ نے توفیق دی کہ اسلام، ہندومت، سکھ مت، جین مت سے لے کر بدھ مت، کنفیوشن ازم، زرتشت ازم وغیرہ سب پر تحصیل علم حت المقدور کی۔ انڈین آفس لائیبریری، انڈین سائینس میوزیم مین ہاٹن نیویارک تو گویا میرے پسندیدہ باغ ہیں۔ جن میں میں پروان چڑھا ہوں۔ ایسے میں تھل دیکھنے کا موقع مل گیا۔
2018 ء اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا کہ لیہ سے میرے صابر جاذب نے آواز دی کہ میں پروگرام رکھ رہا ہوں دو اداروں کے اشتراک سے دو کتب کی چہرہ نمائی ہے جو تشریف لا سکتا ہے لے آئے۔ جناب شہزاد تابش کی یہ مجبوری تھی کہ ان کی کتاب کی رونمائی تھی وہ اپنے دو عزیزوں کے ساتھ کشاں کشاں لیہ پہنچے۔ میری صرف ایک ہی مجبوری تھی "سیکھنے کا جنون" جو مجھے سخت سردی میں چھ گھنٹے سے بھی زائد مسلسل سفر کروا کر تھل دکھانے لے گیا۔ میں ہیڈ تریموں یعنی تین منہ والا ہیڈ ایک بار پھر دیکھنے جا رہا تھا۔ کالج کے زمانہ میں ملتان، پاک پتن شریف کی زیارتوں پر متعدد بار گیا۔ حضرت سلطان باہو کے مزار پر حاضری بھی دی اس لیے گڑھ مہاراجہ موڑ بھی مجھ سے ناآشنا نہیں تھا۔
میں 5:30 علی الصبح کا چلا 10:45 پر لیہ پہنچا۔ میرا بھتیجا میثم ابن صابر جاذب مجھے گھوڑے والے چوک سے لینے آیا۔ میں نے بچے سے کہا کہ سب سے پہلے مجھے بابا اور اماں کے مزاروں پر لے جاو کیونکہ مجھے ہنگامِ شہر کی نسبت شہرِ خموشاں زیادہ پیارا لگتا ہے جہاں ہمارے بابا جناب شعیب جاذب اپنے نصفِ جمیل کے پہلو بہ پہلو آرام فرما رہے ہیں کیوں کہ میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ اگر زندگی میں کبھی لیہ گیا تو سب سے پہلے مزاروں پہ حاضری دوں گا۔ سو اللہ بھلا کرے وہ لے گیا۔
واپسی پر صابر بھائی کا استقبال دیدنی تھا۔ گھر کے صحن میں چار مہمانان کے لیے چار، رنگین چارپائیاں بہترین نئے بستر سے سجا کر دھوپ میں بچھائی گئی تھی۔ سبحان اللہ تھل کے ٹیلے ابھی ذہن و دل میں مستحضر تھے یہ منظر دیکھ کر اور بھی سکون ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد محترم شہزاد تابش اپنے دو احباب کے ساتھ تشریف لائے۔ میل ملاقات کے بعد پُرتکلف روایتی ناشتہ کیا اُبلے ہوئے دیسی انڈے اور چائے نوشِ جان کی اور ایک بجے ہم لرننگ پبلک سکول فیض چوک پہنچے جس کے بالا خانہ پر موجود ہال میں پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا۔
تھل کے احباب حل و عقل ہمارے لیے چشم براہ تھے۔ ان میں سبھی خود سے بہت زیادہ پڑھے لکھے اور قابل نیز قابل احترام احباب کو موجود پا کر دل باغ باغ ہو گیا۔
سکول کے خوبصورت ہال میں سال 2018ء کی خوبصورت ترین تقریب اور مشاعرہ منعقد ھونے جا رہا تھا۔
تقریب اور مشاعرے کی نظامت ادب شناس اور ادب نواز شاعر جناب شمشاد حسین سرائی نے کی۔
صدارتی پینل میں ہمہ جہت شخصیات محترم ڈاکٹر مزمل حسین ،محترم منظور بھٹہ اور محترم محمد سلیم اختر جونی کو سٹیج پر متمکن ہونے کی درخواست کی گئی۔
مہمانان خصوصی میں محترم
قربان حسین کوٹ چٹھہ نیز راقم الحروف احمد منیب شامل تھے۔
اعزازی مہمانان میں محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاھین ڈیروی اور جناب شہزاد تابش تھے جن کی کتب کی رونمائی مقصود تھی۔
"باقیات مختار صدیقی" اور "دعا کے چراغ"
دیگر مہامانِ گرامی قدر میں محترمہ سیدہ معظمہ نقوی، ڈاکٹر حمید الفت ملغانی، شاہ دل شمس حافظ آباد ،پروفیسر ریاض راہی، نعیم ساگر پھلروان اور پروفیسر شعیب بخاری شامل تھے۔
بنیادی طور پر تقریب کو دو نشستوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔
1: دو کتابوں کی تقریبِ رونمائی
2: مشاعرہ
تقریب رونمائی میں پہلی کتاب"باقیاتِ مختار صدیقی" تھی جسے پروفیسر ڈاکٹر شاھین ڈیروی نے تحقیق و تدقیق کے بعد مرتب کیا ہے اور
دوسری کتاب"دعا کے چراغ" جس کے شاعر جناب شہزاد تابش لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ محترم تنویر نجف صاحب نے سورة العصر تلاوت کی جس میں اللہ رب العزت نے انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ حیاتِ ارضی کا اخیر ہے چنانچہ حق اور صبر کے ساتھ زندگی گزارو اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہو۔
پھر بارگاہِ رسالت مآب ؐ میں ہدیہء نعت پیش کیا گیا اور پھر ڈاکٹر صابرہ شاہین کی کتاب
"باقیاتِ مختار صدیقی" کی تقریبِ رونمائی ہوئی۔ اس ضخیم اور پُرمغز کتاب کی تحقیق، تدوین اور پیش کرنے کی ضرورت و اہمیت نیز ڈاکٹر صاحبہ کے اندازِ تحقیق و تفحیص اور اسلوبِ تحریر پر روشنی ڈالنے کا مرحلہ آیا۔
یہ کارگزاری رقم کرنے سے قبل میں بہتر سمجھتا ہوں کہ احباب کی خدمت میں محترمہ کا تھوڑا سا تعارف کروا دوں تاکہ محترمہ کی قدآور اور فیض رساں شخصیت کی جھلک بھی میرے محترم قارئین دیکھ لیں۔
نام .ڈاکٹر صابرہ شاہین (شاہین ڈیروی)
جنم بهومی. ڈیرہ غازی خان
تعلیم – بی ایس سی
ایم اے (اردو) بی زیڈ یونیورسٹی ملتان
ایم فل اردو (جی سی یونیورسٹی لاہور)
پی ایچ ڈی اردو (جی سی یونیورسٹی لاہور)
تخلیق و تنقید
.1-خالی بک (سرائیکی شعری مجموعہ)
2- مختار صدیقی حیات و خدمات (تنقید)
3- باقیاتِ مختار صدیقی (تحقیق)
زیرِ ترتیب
1- اردو نظمیں (شعری مجموعہ)
2- غزلیات (اردو شعری مجموعہ)
متفرقات
تنقیدی و تحقیقی مضامین
1-انشائیے
2-سفر نامے
3-کالم نگاری
خدمات عالیہ:
1-پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کوٹ چٹھہ
2-بانی و سیکرٹری حلقہ اٙربابِ ذوق ڈیرہ غازی خان
3-ضلعی صدر پاکستان یوتھ لیگ
4-علاقائی صدر ادیب فاونڈیشن پاکستان۔
بے حساب پذیرائی کے ساتھ ساتھ بے شمار ایوارڈز اور اعزازات و اسناد آپ کی شخصیت کی زینت کو چار چاند لگاتی ہیں۔
آپ کی کاوشوں پر محترم شمشاد سرائی، محترم ڈاکٹر حمید الفت ملغانی، محترمہ سیدہ معظمہ نقوی اور محترم ڈاکٹر مزمل حسین نے پرمغز مقالہ جات پیش کیے۔
میں اِس تقریب میں حیران تھا کہ جنوبی پنجاب نیز تھل کے علاقے میں اتنی قدآور شخصیات موجود ہیں اور اتنا زرخیز خطہ سبحان اللہ!
میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھا جب میں نے خود کو ان اہلِ علم کے جلو میں پایا۔
سفر کی وہ تکان بھی دور ہو گئی جو ابھی واپسی کے سات گھنٹے کے مسلسل سفر میں درپیش تھی۔
محترم قارئین! سماں بندھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو بلایا گیا اور انہوں نے مردانہ وار خطاب فرمایا۔ یہ خطاب گروپ میں بھی شیئر کیا گیا جو سب احباب نے سماعت فرمایا۔
محترمہ کی ساری باتیں سر ماتھے پر!
عرض گزار ہوں بصد احترام! محترمہ آپ کو لاہور یا لاہوریوں سے شکوے ضرور ہوں گے لیکن ہم نے آپ کو کتنی محبتیں دیں ان کا خراج یا حساب آپ سے کبھی نہیں چاہیں گے۔ آپ کی ولادت گو ڈیرہ غازی خان میں ہوئی لیکن آپ کی ذہنی ربوبیت لاہور کے ہی موقر ارباب و احباب علم و دانش نیز وسیع القلب ادارہ جات نے کی اور بالیدگی بھی لاہور کی ہمہ ہمی اور دبستان نے عطا کی۔ حصول علم میں اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے سے لے کر مسندِ صدارت تک کے مراحل جان لیوا تو ہوتے ہی ہیں۔ یاد رہے کہ سونا آگ میں جب تک نہ ڈالا جائے کندن بن کر نہیں نکل سکتا۔ اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو اِس وقت آپ کے اردگرد کئی ڈاکٹر صابرہ شاہین ہوتیں جبکہ ابھی تک آپ اکیلی ہیں۔
قارئین محترم! دبستان و گلستان لاہور نے ہر ایک کو بلا تفریق مالا مال کیا ہے۔ لاہور نے محترمہ کو بھی سیانی اور کماڈھی دھی رانی سمجھ کر اپنی آغوشِ مادر میں جگہ دی اور علم کے غازے سے آپ کے نقوش کو نہ صرف سنوارا بلکہ قلب و ذہن کو جِلا بخشی اور ہیرا بنا دیا۔ لاہور کو آپ پر فخر ہے اور آپ سے محبت بھی ہے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور یونہی آسمانِ ادب پر چمکتا دمکتا مشعلِ راہ ستارہ بنائےرکھے۔ آمین
دوسری کتاب "دعا کے چراغ" کتاب پر خاکسار احمد منیب، محترم پروفیسر ریاض راہی اور محترم ڈاکٹر مزمل حسین لیہ نے مقالہ جات پیش کیے۔
دونوں صاحبانِ علم یعنی محترمہ ڈاکٹر صابرہ اور جناب شہزاد تابش اور ان کے فن پاروں کو خوب سراہا گیا۔
خاکسار نے تابش صاحب کی کتاب پر مقالہ پڑھنے سے پہلے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا تعارف کروایا جو ماقبل ادارہ کے تمام ممبران کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں اور پھر مقالہ پیش کیا۔
میں ممنون احسان ہوں اہالیانِ لیہ کا جو انہوں نے نہایت درجہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے بھی پذیرائی عطا کی اور میری تحریر کو بھی سراہا۔
بعد ازاں محترمہ ڈاکٹر شاھین ڈیروی اور جناب شہزاد تابش کا کلام باقاعدہ ترنم کے ساتھ جناب قاضی ظفر اور جناب تنویرحسین نجف نے اپنی دلکش اور پُرسوز آوازوں میں پیش کیا۔
****
دوسری نشست:
دوسری نشست میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں مہمان شعرا کے علاوہ مقامی سرائیکی زبان میں بھی موثر اشعار سننے کو ملے۔ اس مشاعرہ میں پنجاب بھر سے چالیس شعرا اور شاعرات نے کلام پیش کیا۔
شعرا اور ادب نواز شخصیات کی کثیر تعداد نے تقریب میں شرکت کی اور مقالہ جات پیش کرنے والوں اور شعرا حضرات کو خوب داد دی۔
اگلے دو تین ایام میں مقامی اخبارات "لٙیہ ٹوڈے" اور "نوائے تھل" نے باتصویر اس پروگرام کو اپنی اشاعت میں جگہ دی۔
قارئین محترم! یہ کامیاب پروگرام پانچ گھنٹے جاری رہا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اتنا وقت بیٹھنے اور سننے کے باوجود حاضرین کے چہرے بشاشت سے دمک رہے تھے۔ میرا دل شاد اور روح سرشار ہو گئی کہ اس قدر محبت کرنے والا تھل! ماشاء اللہ!
جب بھی تھل ہمیں دوبارہ بلائے گا ہم بصد شوق پہنچیں گے اور اپنے ان سب دوستوں کے چہرے دیکھ کر دید کی ترسی ہوئی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے اور قلب و ذہن کی تسکین کے سامان کریں گے۔ ان شاء اللہ
میں بزم فروغِ ادب و ثقافت لیہ اور اپنے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا نہایت ممنون ہوں کہ انہوں نے ادب کی چاہ رکھنے والے سب نفوس کو ایک جگہ جمع ہو کر سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کیا۔ میں نے اپنے ادارہ اور چیئرمین ادارے کی طرف سے اہالیانِ لیہ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اللہ کرے یہ پہلا پروگرام ہو نہ کہ آخری۔ آمین
قارئین محترم! جاڑے کی رات واپسی تھی۔ آپ سب سے محبت کرنے والا آپ سب کا نمائندہ احمدمنیب تھل کے ایک ایک ٹیلے اور نشیب و فراز سے محبتیں کشید کر کے جھولی بھر کے لوٹا۔
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر مِلاں گے۔
******