ہفتہ بھر سے ایک پیغام نے اشقر کے دل میں کشمکش برپا کر رکھی تھی۔ اشقر حقیقت پسند اور متعین اہداف کو سامنے رکھ کی کام کرنے والی طبیعت رکھتا تھا، جلد ہی جان گیا تھا کہ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا بے توجہی کا باعث ہیں اور ان سے دور ہی رہتا۔ نہ فیس بوک پہ اکاونٹ نہ وٹس ایپ کا جھنجھٹ پالا۔ مگر نہ جانے کہاں سے علی نے نمبر ڈھونڈ کے رابطہ کیا اور لندن ملنے پہنچ گیا، جہاں وہ کانفرنس میں شرکت کیلئے آیا تھا۔ دفتر کے بعد شام پانچ بجے گلوریا جیمز پہ ملے۔ کالج کی اور دوستوں کی یادوں کو تازہ کرتے چٹکی میں ۱۰ بج گئے۔ کچھ لڑکوں کے نام کا ذکر ہوا جن کو شکل یاد نہ آ رہی تھی، کہ علی نے کمینے دوستوں کی طرح دیبا کا نام لیا اور بولا، اب یہ نہ کہنا تجھے دیبا بھی یاد نہیں اور ساتھ ہی اپنے مخصوص انداز میں ہنسنے لگا، جسے سن کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی ڈرائیور پرانی گاڑی کو بار بار زور سے بریک لگائے اور پھر چھوڑ دے۔ ہہہییییخخخخخ ہہہیییخخخ ہہہیییخخخ۔ ایک کھسیانی سی مسکراہٹ اشقر کے منہ پہ ابھری اور دل میں گویا عشقِ شباب کے تمام عذاب ابل پڑے۔ وہ عشق بھی بادِ صبا کے ایک ٹھنڈے جھونکے کی مانند شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اشقر کی متاع دل و جاں کو یوں بہا لے گیا جیسے بگولہ خس و خاشاک کو۔ بادی النظر میں دیبا ایسی نہ تھی کہ اشقر اس کی زلف کا اسیر ہو جاتا۔ بلکہ وہ تو ان میں سے تھی جو کم ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ نہ تو رنگ ایسا گورا چٹا تھا کہ نمایاں ہوتی، نہ وضع قطع اور لباس میں ممتاز۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں تو کبھی حصہ ہی نہیں لیا اور نہ کبھی کلاس فنکشن میں شرکت کی۔ اس کے بر خلاف اشقر کی تربیت گھر سے ہی ایسی ہوئی تھی کہ ہدف کا تعین کرو اور دلجمعی سے اسے حاصل کرو۔ پڑھائی میں بھی اچھا، بذلہ سنجی، حاضر جوابی، اور کھیل میں بھی کایاں۔ اس لئے اساتذہ اور صنف مخالف دونوں میں مقبول رہا۔ پھر یوں ہوا کہ تھرڈ ائیر میان جب کلینکل راؤنڈز شروع ہوئے تو اتفاقاً دونوں ایک ہی گروپ میں آ گئے اور دیبا کی کمان آبرو کا تیر اشقر کے جگر کے پار ہو گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا رہا جنوں بھی بڑھتا چلا گیا اور دیبا کی خاموشی اسے مہمیز دیتی رہی۔
اشقر اپنی مائل بہ ہدف طبیعت کے مطابق فورا دائمی رشتۂ رفاقت میں بندھ جانے کا اظہارِ تمنا کر بیٹھا اور دیبا نے کہا کہ ان کے ہاں یہ فیصلے ان کے ابا کرتے ہیں۔ اشقر نے والدین سے بات کی، تھوڑی سی دوڑ دھوپ کہ بعد اس کے گھر والوں سے رابطہ ہو گیا اور اشقر کے والد دیبا کے گھر گئے۔ انہوں نے پہلا سوال پوچھا کہ آپ کی ذات برادری کیا ہے، انہوں نے بتایا راجپوت۔ دیبا کے گھر والوں نے کہا کہ وہ سید ہیں ، سیدوں سے باہر کسی صورت رشتہ نہ کریں گے اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کی گنجائش نہیں۔ رشتوں کی بات بھی شناسائی کی مانند کو بکو پھیل جاتی ہے۔ ایک ناکامی، اور اوپر سے بے بسی نے گویا اشقر کی روح کھینچ لی۔ لاکھ دل کو دوسرے کاموں میں لگاتا مگر بے سود۔ گھنٹوں کتاب کا ایک صفحہ کھولے گزر جاتے اور گریڈز گرنے لگے۔ پھر کلاس میں روز دیبا کا آمنا سامنا ہو جانا گویا مزید بجلی بن کر گرتا اور عشق اور احساسِ بضاعت دونوں کو دو چند کر دیتا۔ اسی دوران ایک پروفیسر صاحب کی محفل میں گیا جن کی پر حکمت باتوں کا لاہور میں خوب چرچا تھا، یوں تو پی ایچ ڈی سکالر تھے مگر واصف علی واصف جیسی باتیں کرنے کی وجہ سے بابا جی کہلاتے تھے۔ بابا جی کو اشقر نے اپنی مشکل بتائی تو انہوں نے کہا اگر کسی معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پاؤ تو اپنے آپ کو اس سے دور کر لو۔ بات گویا اشقر کے دل کو لگی۔ اس نے مائگریشن کے متمنی ایک لڑکے سے پچاس ہزار روپے پکڑے اور علامہ اقبال میڈیکل کالج مائگریشن کرا لی۔ وقت نے زخموں پر مرہم رکھا اور زندگی اپنی راحتوں، کلفتوں کے ساتھ رواں دواں رہی، یہاں تک کہ اشقر کو دیبا کے خدوخال بھی یاد نہ رہے۔ مگر علی جب اس کا نام لیا تو وہ تمام جذبات و احساسات پھر سے گویا امڈ آئے۔ علی تو کلاس ری یونین کی دعوت دے کر اور یہ کہہ کے چلا گیا کہ دیبا بھی آئے گی مگر اشقر کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کر گیا۔ کبھی خیال آتا کہ جس احساس کو مارنے میں سو جتن کئے تھے، اب پھر سے ان کو نہ ابھرنے دیا جائے اور معذرت کی جائے اور کبھی تجسس بیدار ہو تا کہ نہ جانے اب کیسی ہے وہ، کیا وہ بھی میری طرح اکیلی ہے ، مشکل ہے مگر شاید! پھر ذہن کی رو بابا جی کی جانب بہہ نکلی، اور کالج چھوڑنے کا فیصلہ انتہائی احمقانہ معلوم ہونے لگا،وقت کے ساتھ آخر کالج میں رہتے ہوئے بھی سب کچھ بھول ہی جاتے، آخر ایسی بھی کیا بات تھی۔ پھر بابا جی پہ غصہ آنے لگا کہ نوجوان کچے ذہنوں پہ اپنی فلسفیانہ گفتگو کا رعب جھاڑ کے الٹے سیدھے مشورے دیتے تھے۔ دفعتاً یہ خیال اشقر کے ذہن میں کوندا کہ کیوں نہ اب بھی بابا جی سے پوچھا جائے، کیا کہتے ہیں، اور یوں ان کی بات کو پرکھا جائے، کیا واقعی کچھ حکمت رکھتے ہیں یا رانگ نمبر ہی ہیں۔ چنانچہ اگلی صبح ہی بابا جی کے پاس حاضری دی، جو اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ معتقدین رکھتے تھے۔ اشقر نے جا کر سارا ماجرا سنایا اور پوچھا کہ میں جاؤں یا نہ جاؤں۔ بابا جی نے کہا، بیٹا نہ جاؤ تو بہتر ہے۔ مگر آج اشقر کالج کا لڑکا نہیں تھا، بولا کیوں نہ جاؤں۔ بابا جی خاموش ہوئے، گولڈ لیف کی ڈبی کھولی، سگریٹ سلگایا، ایک لمبا سا کش لیا اور بولے، تم کیوں جانا چاہتے ہو؟ اشقر اس دفعہ اپنے دلی جذبات کو کھل کر بابا جی کو بتانا کمزوری سمجھنے لگا اور کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کہے، اس کی بذلہ سنجی نے جوش مارا اور بولا، میں اس کو اپنی بانہواں میں لینا چاہتا ہوں-
بابا جی نے اطمینان سے جواب دیا، بیٹا شاید یہ وقت اس کیلئے مناسب نہیں۔ اشقر پہلے ہی کچھ خار کھائے بیٹھا تھا، ضد سے بولا کیوں مناسب نہیں۔ بابا جی نے پھر کچھ توقف کیا، اور بولے، بیٹا میں بحث میں کبھی نہیں پڑتا، لیکن اگر تم جانے کو بضد ہو تو آج اطمینان سے گھر جا کر سو جاؤ، میں تمہیں کاغذ کی دو پرچیاں طے کر کے دوں گا، اگر صبح اٹھ کر بھی تمہارا ارادہ یہی رہا تو پہلی پرچی کھول کے پڑھ لینا اور دوسری پرچی تقریب کے دن اپنے ساتھ لیتے جانا، اور جب اسے دیکھو گے تو دوسری پرچی نکلا کے پڑھ لینا۔ اشقر بولا بہت خوب۔ دل میں سوچنے لگا کہ اس مرتبہ بابا جی کی اصلیت کھل جائے گی۔ گھر جا کے سویا، اگلی صبح اٹھا اور سب سے پہلے اٹھ کر پہلی پرچی کھولی، اس پہ لکھا تھا " بیٹا جو تم چاہتے ہو اس کیلئے تمہیں اپنا وزن پندرہ کلو کم کرنا ہو گا"۔ اشقر نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنے کالج کا چھریرا بدن اسے یاد آیا۔ وقت نے جہاں آسودگی بخشی وہاں ایک توند بھی عنایت کر دی تھی۔ تقریب میں ابھی مہینہ باقی تھا، اشقر کی مہم جویانہ طبیعت نے کروٹ لی، ناشتہ اور کھانا ترک کیا اور رات ہی جیم پہنچ گیا۔ مہینہ بھر میں وہ اپنا وزن پندرہ کلو کم کر چکا تھا۔ چنانچہ تقریب والے دن اطمینان سے تیار ہوا، دوسری پرچی جیب میں ڈالی اور گاڑی ہوٹل کو دوڑائی۔ تقریب شروع ہونے سے آدھ گھنٹا پہلے ہی پہنچ گیا، پھر دوستوں سے دعا سلام کا سلسلہ شروع ہوا، مگر نظریں اسے ہی ڈھوںڈتی رہیں اور ہاتھ بار بار جیب میں پڑی پرچی کو جا لگتا، کبھی دل میں آتا کہ پرچی کھول کے دیکھ لے، مگر پھر کبھی باتوں میں لگ جاتا اور کبھی کسی سے ملنے۔ کافی وقت گزر گیا، مگر دیبا کہیں نظر نہ آئی، دل میں خیال آیا کہ شاید آئے ہی نہ اور پھر بابا جی، پرچی اور وزن گھٹانا، سب پہ ہنسی آنے لگتی کہ بابے نے دوسری مرتبہ الو بنا دیا۔ مگر پھر اچانک وہ گیٹ سے داخل ہوئی، اشقر کی سانسیں سینے میں ہے اٹک گئیں۔ وہ بلا شبہ دیبا ہی تھی۔ اشقر کے ذہن میں خیال آیا کہ وہی چاند سا چہرہ، بلکہ چودھویں کا چاند، بلکہ یوں محسوس ہونے لگا کہ چودھویں کا چاند سوا نیزے تک آگیا ہو۔ ہاتھ غیر ارادی طور پہ کوٹ کی جیب میں تہہ کی ہوئی پرچی کی جانب بڑھا، اشقر نے پرچی نکالی اور جلدی سے کھولی، اس پہ لکھا تھا، "بیٹا جو تم چاہتے ہو، اس کیلئے تمہیں اپنا وزن پندرہ کلو اور اس کو اپنا وزن تیس کلو کم کرنا پڑے گا۔ "۔ اشقر نے ایک نظر پرچی کو دیکھا، اور ایک نظر دیبا کے موٹاپے کو، اور خاموشی سے پچھلے دروازہ سے باہر نکل گیا۔ گاڑی میں بیٹھا تو بابا جی کا میسج آیا تھا " سرفراز کبھی دھوکا نہیں دیتا" بابا جی کا نام پروفیسر سرفراز تھا۔
“