یہ سارا معاملہ ہی دراصل انسانوں پر کنٹرول کا ہے ۔ دماغ اور جسم تو کنٹرول کیے جا سکتے ہیں لیکن روح نہیں ۔ لہٰزا تقلید یوں کی روح زندہ ہوتے ہی ان کے جسم کو چھوڑ جاتی ہے ۔ ۱۹۳۲ میں ایک مشہور انگریزی لکھاری Aldous Huxley نے کتاب brave new world کے عنوان سے لکھی تھی ۔ اس اے پہلے بھی ایک دفعہ میں نے اپنے ایک بلاگ میں ہکسلے کی کتاب the doors of perception جو اس نے ۱۹۵۴ میں لکھی تھی کا زکر کیا تھا ۔ ہکسلے نے ۵۰ کی دہائ میں امریکہ کی جان ہاپکنز کی لیب میں psychedelic ڈرگز کے لیے lab rat بننے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ہکسلے ان ڈرگز سے altered consciousness میں چلا گیا تھا اور بہت کچھ اس کتاب میں بتانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔
ہکسلے کی یہ کتاب brave new world اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ ہکسلے اس میں بیانیہ یہ دے رہا ہے کہ کیسے مشینوں یا incubators کے زریعے مرضی کے انسان جو کنٹرول کیے جا سکیں ان کی نسل کی افزائش ہو سکے ۔ یہ بہت زبردست طنزیہ ناول ہے مادہ پرستی اور کنٹرول والی دنیا پر ۔ ناول پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج واقعہ ہی ۸۵ سال بعد ہم ان انسانوں کی نسل پیدا کرنے میں آخرکار کامیاب ہو ہی گئے اور چین اس کی واضح مثال ۔
آج ۹۹ %دنیا کی آبادی تقلید ، کنڈیشننگ اور برین واشنگ پر tuned ہے ۔ ہکسلے نے اس ناول کے آغاز پر کہا تھا کہ
“Wintriness responded to wintriness “
اور مزید کہا کے
“Generalities are intellectually necessary evils”
اگر سب نے عقل استعمال کی تو پھر ہمارے کام کون کرے گا ؟ ہمارا غلام کون بنے گا ؟ بادشاہت اور حکمرانی کیسے ہو گی ؟ کل ہی پاکستان سے پروفیسر لکھاری اپنی فیس بک پر فرسٹ اور سیکنڈ ایر کے پرچہ چیک کرتے ہوئے ان incubators سے نکلے ہوئے بچوں کا تزکرہ کر رہی تھی ۔ ایک فرسٹ ایر والی نے لکھا “روز چار گلاس پانی نہ پیئں تو ملک میں آبی کمی بہت ہو جاتی ہے “ اور سیکنڈ ایر کی طالبہ نے لکھا “قرآن شریف میری پسندیدہ شخصیت ہے”
ہکسلے کے اس ناول میں جو لیبارٹری ہوتی ہے جہاں کنٹرولڈ بچے پیدا کرنے ہوتے ہیں اور genetic انجنیرنگ سے ان کی تعداد کو بڑھانا ہوتا ہے ان کی تربیت انہی لائینوں پر کی جاتی ہے ۔ اس لیبارٹری کے نزدیک ایک مفروضہ اگر 62400 دفعہ دہرایا جائے یا بولا جائے تو وہ سچ بن جاتا ہے ۔ مریم نواز ،عمران خان اور آئ ایس آئ کے ٹرولرز بھی یہی ۲۴/۷ کرتے ہیں ۔ کل تین پاکستان کے محسن انسانیت چوہدری سرور ، امجد ثاقب اور شعیب سلطان ایک دوسرے کو ایوارڈ دے رہے تھے کے الحمدللّٰہ پاکستان سے غربت ختم ہو گئ اور ان تینوں نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ سبحان اللہ ۔ صدقے جاؤں ایسے نیک بندوں پر ۔
اسی کو ہکسلے کتاب میں کہتا ہے کہ ایک جملہ
Ending is better than mending
بہت دفعہ اس انکیوبیٹر کی نسل کو دہروایا جاتا ہے ، تا کہ انسان کی نسل کُشی کی جائے ۔ ختم ہی کر دو جو چین کی پالیسی ہے ، کوئ دس لاکھ یوغر مسلمان مار کر بھی چین کو چین نہیں ۔ اور تاریخ کو جُھٹلا دو یہ کہ کر کہ history is bunk ۔ ایک پاکستانی اینکر اگلے دن تاریخ کو رگید رہا تھا کہ جناب تاریخ تو فضول ہے آپ اب کی بات کریں ۔ پیسہ کہاں ہے جناب ؟ پھر ایک اور اہم برین واشنگ “جزبات “کو ختم کرو جسے ہکسلے کہتا ہے
“No pains have been spared to make your lives emotionally easy, to preserve you, so far as that is possible, from having emotions at all “
اس معاملہ میں بھی چین بے تاج بادشاہ ہے اور اسی پر میں کہتا ہوں کہ اگر کسی آبادی میں جزبات اپنی اوریجنل فارم میں دیکھے جا سکتے ہیں تو وہ امریکہ ہے اور امریکہ کو کوئ بھی ملک اور قوم محض اسی بنیاد پر کبھی فتح نہیں کر سکے گی ۔ چین واقعہ ہی ہکسلے کی زبان میں
“She has become a world controller, and he Gamma minus machine minder”
اور ہکسلے ٹھیک کہ رہا تھا کہ پرانے زمانوں میں بُڑھاپے میں لوگ لائبریریوں اور عبادت گاہوں کا رُخ کرتے تھے اب
Electro magnetic golf courses
اور lingerie clubs کا ۔ لاس ویگاز میں ایک کلب ہے چھ فُٹی عورتوں کا جس میں ساٹھ سال سے بڑے بلینیرز مردوں کو صرف شمولیت کی اجازت ہے ۔
آج بھی یہ سب کچھ اوپر بتائ ہوئ تربیت دینے والے لوگوں کے پیچھے لوگ کروڑوں پیسہ لیے پھرتے ہیں ایسی برین واشنگ کروانے کا ۔ مجھ جیسوں کو ایک لائیک مل جائے تو سارے پاگل ای اوئے کے نعرے لگاتے ہیں ۔ میں پھر سوچتا ہوں میرا فرض یہ حقیقتیں شئیر کرنا ہے جو میں بے لوث ہو کر ایک خدا کی طرف سے ڈیوٹی سمجھ کر کر رہا ہوں ، اللہ نے چاہا تو کرتا رہوں گا ۔ مجھے تو روحوں سے پیار ہے نہ کے جسموں سے ۔ باقی آپ کی مرضی ، سمجھ میں آئے تو بسم اللہ نہ بھی آئے تو خیر ۔ میں نے اپنی زندگی گزارنی ہے ، اور آپ نے اپنی ، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہم interconnected تو ہیں لیکن کسی بھی صورت interdependent نہیں ۔
بہت خوش رہیں ۔ کوشش کریں کے اپنی زندگیاں جیئں ، نہ میری اور نہ ہی ان تقلیدیوں کی اپنی انوکھی قدرتی زندگیاں ۔ اللہ نگہبان ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...