تقدیس اور لطف کا تعلق اور تضاد
کوئی سات برس ہو گئے، قلم پکڑ کے نہیں دیکھا۔ کبھی تو بہر طور کسی شے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہوا یوں کہ محترمہ آنا سوورووا نے خالد احمد کے حوالے سے ببر شیر کے مختلف عربی ناموں سے متعلق ایک انگریزی شذرہ سوشل میڈیا پر آویزاں کیا۔ مجھے اچھا لگا اور میں نے شئیر کر دیا۔ ہمارے فیس بکی مہربان نجانے کیوں انگریزی زبان میں لکھی تحریروں اور شذروں پر کم ہی توجہ دیتے ہیں چنانچہ میں نے سوچا کہ یہ شذرہ اردو میں ترجمہ کرکے لگانا چاہیے۔ سہولت کے لیے بال پین تلاش کرکے اٹھا لیا۔ اب کاغذ کی ڈھنڈیا پڑی کیونکہ کی بورڈ کے استعمال کے سبب کاغذ مفقود ہو چکے ہیں۔ خیر چونکہ ہماری اہلیہ کا “ کنٹری ہاوس “ سیزن شروع ہونے کو ہے اور وہ اپنی نباتی پنیریوں سے متعلق بہت کچھ کاغذوں پر اتارتی رہتی ہیں چنانچہ انہوں نے کاغذ کی ایک کترن عنایت کر دی جس پر میں نے بال پوائنٹ سے ببر شیر کے مختلف نام لکھے اور شذرہ تیار کیا جو یوں تھا، “ عربی کی لغت کے مطابق: جب ببر شیر کچھار میں اگلی ٹانگیں پسارے بیٹھا ہو تو اسد جب اسد کچھار سے نکل کر چل دے تو ضرغام جب ضرغام چلتے ہوئے کسی چیز پر کڑی نگاہ ڈالے تو غضنفر جب غضنفر چلتے ہوئے دہاڑے تو ضیغم جب ضیغم شکار پر جھپٹے تو حمزہ جب حمزہ شکار کو دبوچ کے بے بس کر دے تو عباس جب عباس کیے گئے شکار کی تکہ بوٹی کر دے تو حیدر کہلائے۔
( ہم ان ناموں کی تقدیس کرتے نہیں تھکتے جب کہ انار خاں اور محبت گل پر ہنستے ہیں) “۔
میں پچھلے دو گھنٹوں سے کی بورڈ گود میں لیے، تکیے سے کمر لگائے، کچھ لکھنے کا سوچ کر بیٹھا تھا مگر ویب سائٹ “ ہم سب “ پر مشاہیر اور غیر مشاہیر کی تحریریں پڑھے جا رہا تھا۔ اتنا دلچسپ اور غیر دلچسپ ہر دو طرح کا مواد آنکھوں کے راستے دماغ گزیں ہو رہا ہو یا آنکھوں کے کناروں سے ہوا میں تحلیل ہوئے چلے جا رہا ہو تو ذہن میں لکھنے کا کیا موضوع ابھر سکتا ہے کیونکہ تحریریں تھیں ہی متنوع، غیر متنوع، ضروری، غیر ضروری، اہم اور غیر اہم موضوعات پر کہ اتنے میں عزیزی نصراللہ بلوچ نے ببر شیر کے ناموں سے متعلق شذرے پر اپنی رائے دی،“ پھاپھل اور رانجھنڑ جیسے دیسی ناموں کا مزہ ہی کچھ اور ہے“۔ میں نے جواب میں لکھا،“ اردو اسپیکنگ پھر پپیہا اور کوئل نام رکھ کے مزہ لے؟ پپیہا بھی پی ہو پی ہو کرنے والے کو کہتے ہیں اور کوئلے سی سیاہ کو کوئل ۔۔ یوں تو etymology چلتی جائے گی۔۔ مزہ آنا بھی تقدیس اور عقیدے کی ایک شکل لگتی ہے۔ کم از کم مجھے تو“۔ مگر مجھے کچھ لکھنے کو شہہ ملی تو عزیزی نصراللہ بلوچ کے اس جواب الجواب سے کہ: “ اپنے کلچر سے نکلا ہوا لفظ اپنے اندر جتنی معنی آفرینی رکھتا ہے وہ کوئی اور لفظ نہیں رکھتا۔ تقدیس اس میں پیدا ہوتی ہے یہ تقدیس سے پیدا نہیں ہوتا. ویسے بھی میرے خیال میں تقدیس سے پرہیز کی عادت کی خاطر مزہ تو مسخ نہیں کیا جا سکتاـ“
تقدیس کیا ہوتی ہے؟ کسی یقین سے پیدا ہوئی تعظیم جیسے اسد، حمزہ، عباس، حیدر ایسی شخصیات کے نام ہیں جن سے لوگوں کو عقیدت ہے۔ عقیدت عقیدہ سے پیدا ہونے والے حد درجہ احترام کے احساس اور اس کو عملی شکل دیے جانے کو کہتے ہیں۔ پھر ان سے عقیدت کسی یقین کے سبب ہے یعنی مذہب سے وابستہ ہونے والے اولیں افراد ہونے کے سبب چنانچہ ہم بیان کردہ ناموں سے ببر شیر مراد ہی نہیں لیں گے بلکہ بلند آواز میں حیدر کہتے ہوئے یہ جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے ہم میں وہی جرات اور غیض پیدا ہوگا جس کے سبب مدمقابل پر غالب آ کر اس کا قلع قمع کرنے پر تل جائیں گے۔ یوں تقدیس لطف میں ڈھل جائے گی۔ اس لطف کا اندازہ عام لوگ کر ہی نہیں سکتے ماسوائے ان پاکستانی فوجیوں کے جو حملہ کرتے وقت یہ نعرہ لگاتے ہیں۔
لطف کیا ہوتا ہے؟ لطف کیف آگینی کی ایک ایسی کیفیت، برسبیل تذکرہ اس لفظ کیفیت کو ہی دیکھ لیجیے، جس کا معانی تو کوئی خاص حالت ہے مگر اس میں کیف شامل ہے یعنی ایسی حالت جس میں کوئی گہرا جذبہ یا احساس ہو، ہوتی ہے جس میں دماغ کی تختی سے باقی تکدر چھٹ جاتے ہیں اور لطف لینے والا سرمستی میں ہو جاتا ہے جیسے بہت لذید شے کھاتے ہوئے کسی حسین چہرے کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اسی طرح حسین چہرے میں محو ہو کر لذیذ پکوان کھانے کی خواہش کا کوئی کام نہیں ہوتا۔
ایسے مادے جو کیف پیدا کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں یہی نا کہ دماغ پر اثر انداز ہونے والے جسم کے اندر پیدا ہوئے مخصوص کیمیائی مادوں کی مقدار کو کم یا زیادہ کر دیتے ہیں یا ان مادوں کے اثر پر اثر انداز ہو کر اسے گھٹا یا بڑھا دیتے ہیں جیسے الکحل دماغ کے اگلے حصے جسے فرنٹل لوب کہا جاتا ہے، میں درج ان بندشوں کی تختی کو ان بندشوں کو یاد کرانے والے مادے کے اثر سے عاری کر دیتی ہے چنانچہ شراب میں مخمور شخص ہر وہ حرکت کر گذرتا ہے جس سے اس کو لطف آئے چاہے دوسرے کے لیے وہ کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس حشیش، بھنگ وغیرہ ہیجان پیدا کرنے والے مادوں کو کم تاثیر کر دیتے ہیں اور انسان امن پسند، موسیقی سے لطف لینے والا اور خلیق ہو جاتا ہے۔ خلیق ہونا بھی لطف لینے کی شکل ہے کیونکہ اس طرح جس سے خلق برتا جائے وہ خلیق شخص کا احترام کرے گا جس کے سبب خلیق لطف اندوز ہوگا۔
اچھا ہم بات کر رہے تھے تقدیس اور لطف کے تعلق کے علاوہ ان دونوں کیفیتوں کے تضاد کی بھی۔ جس شخص میں ایقان کی بجائے استدلال کا رجحان ہو وہ تقدیس سے گریزاں ہوتا ہے چنانچہ تقدیس سے وابستہ اشیاء، افراد، مقامات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے وہ صوفیانہ استدلال کو محسوس کرتے ہوئے تقدیس کی بجائے تعظیم اور کسی حد تک لطف سے بہرہ ور ہوتا ہے، یا ممکن ہے نہ بھی ہو تب بھی اسے صوفی اور اس کا کلام دونوں اچھے لگتے ہوں۔ اس صورت میں درحقیقت اس پر اس ماحول کا اثر ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا ہو، پلا بڑھا ہو یا جہاں کے معاملات سے متعلق اسے دلچسپی ہو۔ مثال کے طور پر میں نے غیر ہندو روسی افراد کو ماسکو میں ہرے راما ہرے کرشنا مندر میں مورتی کے سامنے چہرے کے بل لیٹ کر اظہار عقیدت کرکے ایک خاص کیفیت میں جاتے دیکھا ہے جو شاید لطف کی ہی شکل ہوتی ہو۔
یوں نصراللہ بلوچ کی بات درست ہے کہ لطف لینے کی خاطر تقدیس سے گریزاں ہونے کی کیا ضرورت ہے مگر میرا موقف بھی اپنی جگہ غلط نہیں کہ تقدیس اور لطف دونوں کیفیات ہی خالصتا“ ذاتی معاملات ہیں۔ جب ان دونوں کو عمومی کیا جاتا ہے وہ ایک کیفیت کو رواج دینے سے ممکن ہوتا ہے یعنی یہ حالت اکتسابی ہے ، جبلتی نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“