یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب دنیا بھر میں شخصی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور بڑی سلطنتیں چلانے کا نظام بادشاہت کا تھا۔ آج یہ نظام دنیا بھر میں بڑی حد تک ختم ہو چکا۔ وراثتی بادشاہت اب خال خال ممالک میں ہے اور ان میں بھی زیادہ جگہ علامتی طور پر۔ آج بات ان میں سب سے طاقتور سربراہ کی، جو برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ہیں۔
برطانیہ کو بادشاہت سے جمہوریت تک آتے وقت لگا۔ میگنا کارٹا سے لے کر سترہویں صدی کا شاندار انقلاب اور پھر 1928 تک تمام لوگوں کا حق رائے دہی۔ ونڈسر کی بادشاہت علامتی رہ گئی لیکن اگر ملکہ اپنی طاقت استعمال کرنا چاہیں تو قانون کے مطابق ملکہ کے کیا اختیارات ہیں؟ بہت سے۔
ملکہ کو ٹیکس دینے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ملکہ اپنے بارے میں اچھا تاثر قائم رکھنے کے لئے رضاکارانہ طور پر ٹیکس دیتی ہیں۔ ان کو پاسپورٹ یا لائسنس جیسی چیزوں کی ضرورت نہیں۔ (ملکہ کو ڈرائیونگ کا شوق ہے اور ایک مشہور واقعہ اس وقت ہوا جب انہوں نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو گاڑی کی سیر کروائی تھی)، لیکن ان کے پاس موجود طاقت کی کچھ تفصیل برطانوی حکومت نے پہلی بار 2003 میں شائع کی۔ قانون کے مطابق برطانوی حکومت ملکہ کا وقت بچانے کے لئے ان کی طرف سے کاروبارِ حکومت سنبھالے ہوئے ہے۔
برطانیہ میں کسی بھی شخص کا پاسپورٹ جاری کرنے یا منسوخ کرنے کا اختیار ملکہ کو ہے۔ ملکہ کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ کا اعلان کر سکتی ہیں اور اس کے لئے پارلیمنٹ کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ملکہ برطانیہ میں کسی بھی قانون سے بالاتر ہیں۔ دوسرے ممالک میں ان کو سربراہِ مملکت ہونے کی وجہ سے ڈپلومیٹک تحفظ حاصل ہے، جس کا مطلب یہ کہ ملکہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی جرم کر سکتی ہیں۔ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ بھی ان پر لاگو نہیں ہوتا یعنی ان کو کچھ بھی بتانے کی قانونی لحاظ سے ضرورت نہیں۔
تکنیکی لحاظ سے برطانیہ میں رہنے والے برطانیہ کے شہری نہیں ہیں بلکہ تاجِ برطانیہ کی رعایا ہیں۔ ملکہ کسی کو بھی گرفتار کروا سکتی ہیں۔ کسی کی جائیداد ضبط کر سکتی ہیں۔ برطانیہ کے قریب کی تمام سمندری زمین ملکہ کی ملکیت ہے۔ ان میں چلنے والے کسی بھی بحری جہاز کو کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہیں۔ اگر کوئی وہیل یا ڈولفن خشکی پر آ جائے تو اس پر حق ملکہ کا ہو گا۔ دریائے ٹیمز کے تمام پرندے بھی ملکہ کی ملکییت ہیں۔
ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے کسی پر کوئی بھی تشدد کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہین۔ اپنی مرضی کا وزیرِاعظم بنا سکتی ہیں، خواہ عوام جس کو بھی ووٹ دے۔ اگر پارلیمنٹ پسند نہ آئے تو پارلیمنٹ توڑ سکتی ہیں اور دوبارہ انتخاب کروا سکتی ہیں اور اگر بالکل ہی پسند نہ آئے تو فوجی حکومت لے کر آ سکتی ہیں کیونکہ قانونی طور پر فوجی کمانڈر انچیف ہیں اور افواجِ برطانیہ کے سربراہان ان کے ماتحت ہیں۔ ہر افسر، فوجی، ملاح اور پائلٹ صرف تاجِ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے (برطانیہ سے وفاداری کا نہیں)۔ چونکہ فوج ان کے پاس ہے تو اگر ان کا دل کرے تو فرانس پر نیوکلئیر حملہ کرنا ہو یا شمالی کوریا سے جنگی اتحاد، ان کو یہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے ممالک سے جنگ و امن رکھنے کا ان کو مکمل اختیار ہے۔
تکنیکی طور پر ملکہ نئے قوانین تو نہیں بنا سکتیں لیکن پارلیمنٹ سے منظوری کے بادوجود ان کے دستخط کے بغیر کوئی قانون نہیں بنتا اور اگر کسی ایسے قانون کا ذکر آ جائے جس میں تاجِ برطانیہ سے متعلق کوئی بھ ذکر ہو تو ان کی منظوری کے بغیر اس پر پارلیمنٹ میں بات بھی نہیں ہو سکتی۔ (اس اختیار کا استعمال ملکہ نے ۱۹۹۹ میں کیا تھا جب جنگی اعلان کی طاقت پارلیمنٹ کو دینے کی بات کی گئی تھی)۔
ملکہ کی طاقت نہ صرف سیاسی ہے بلکہ مذہبی بھی۔ ملکہ برطانیہ کے چرچ کی سربراہ بھی ہیں۔ آرچ بشپ نامزد کرنے سے لے کر چرچ کے انتظامی امور میں بھی ان کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ (ملکہ کے اختیارات صرف اپنے ملک تک محدود نہیں۔ کامن ویلتھ کے کئی دوسرے ممالک تک ہیں۔ مثلا، یہ آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کو بھی برطرف کر سکتی ہیں۔)
اگرچہ ملکہ کو یہ تمام اختیارات حاصل ہیں لیکن وہ اپنی رعایا کی رائے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ سیاسی معاملات میں اپنی رائے اپنے تک رکھتی ہیں۔ جہاں پر یورپ سمیت دنیا بھر سے بادشاہتیں ختم ہو گئیں، وہاں پر برطانیہ میں قائم رہنے کی وجہ ملکہ کی خاموشی ہے۔ یہ اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ طاقتور نہیں۔ ان کی طاقت ان کی عزت کی وجہ سے ہے اور برطانیہ کی سرحدوں سے باہر تک ہے اور اختیارات کی نہیں اثر کی ہے۔۔ بی بی سی نے ان کو دنیا کی طاقتور ترین خاتوں کا ٹائٹل دیا۔ پرائیویٹ ملاقاتوں میں ملکہ حکومت کے سربراہوں کے کان کھینچ سکتی ہیں۔ وزیرِ اعظم کے کان میں کہا گیا ایک لفظ، کبھی سر کا ہلا دینا، کبھی نرم سا کوئی جملہ حکومت پر بالواسطہ طریقے سے اثر ڈالتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ملکہ کے پاس بہت سے اختیارات ہیں اور ان کو پارلیمنٹ بھی نہیں چھین سکتی لیکن اس کا استعمال صرف ضرورت کے وقت کسی کو کوئی مشورہ دے کر کرتی ہیں۔ اگر یہ لکیر پار کرتیں، رائے عامہ کا احترام نہ کرتیں، حکومت میں مداخلت کرتیں تو شاید ونڈسر میں بادشاہت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
ملکہ کے اختیارات کی یہ نامکمل فہرست اس وقت کی ہے جب ان کو کم کیا جا چکا۔ دنیا بھر میں ہر جگہ پر بادشاہوں کے پاس اتنے یا اس سے زیادہ اختیارات رہے ہیں اور بادشاہ ان کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ ملکہ کے اختیارات کی یہ نامکمل فہرست ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا سیاسی لحاظ سے کس قدر بدل چکی ہے۔ وہ جو کبھی عام سمجھا جاتا ہے، اب دلچسپ کہانی رہ گیا ہے۔