خلافت عباسیہ کے دارالحکومت بغداد نے دنیا بھر میں ایک خاص شہرت حاصل کی ۔علم و حکمت اور فن تعمیر کے اعتبار سے بغداد کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ منگول جنرل مونکو خان نے بغداد پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں ایک بہت بڑی فوج تشکیل دی ۔اس فوج کی کمان ہلاکو خان نے کی اور اس فوج میں چینی کمانڈرز سمیت مسیحی افواج کا بڑا دستہ شامل تھا ۔نومبر 1257 میں منگول فوج نے بغداد کی طرف کوچ کیا اوربغداد پہنچ کر ہلاکو نے خلیفہ معتصم سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا جس کو خلیفہ نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ منگول فوج کے چینی دستے نے 29 جنوری 1258 کو بغداد کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرہ سخت ہوا اور جب امان کی صورت نظر نا آئی تو ایک دن بغداد کی فصیل کا دروازہ کھلا اور کچھ لوگ باہر آئے اور ہلاکو سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
یہ بغداد کے عمائدین کا وفد تھا ان کو ہلاکو کے خیمے کی طرف لےجایا گیا۔ ہلاکو نے وفد کو ملاقات کے لیئے خیمے کے اندر بلا لیا۔گفتگو شروع ہوئی اور عمائدین کافی دیر گفتگو کرتے رہے۔ ہلاکو نے ترجمان سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں تو ترجمان نے کہا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بغداد کی چابیاں دینے کو تیار ہیں مگر ہمیں کچھ باتوں پر آپ کی اخلاقی ضمانت چاہیے تو ہلاکو نے پوچھا کہ وہ کیا ہےتو انہوں نے کہا کہ فوج بغداد میں لوٹ مار نہیں کرئے گی اور قتل عام بھی نہیں کرئے گی۔ منگول فوج طے شدہ اصول وضوابط اور اخلاقیات کے ساتھ شہر میں داخل ہوگی۔ اس پر ہلاکو خان نے تاریخی جواب دیا کہ طاقت کے اپنے اصول وضوابط اور اخلاقیات ہوتی ہیں۔اور اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ طاقت نے بغداد کا جو حشر کیا ۔کئی روز تک دجلہ کا پانی عالموں اور فلسفیوں کے خون سے رنگین رہا۔
منگولوں کا عہد اپنےاختتام کو پہنچا تو طاقت کا پلڑا ترکوں کا بھاری ہوگیا اور اس کے بعد دنیا سلطنت عثمانیہ کی بے پناہ طاقت کے سامنے سرنگوں رہی ۔بے خوفی اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے ترکوں کے سامنے کوئی نا ٹھہر سکا اور یوں چرواہے دنیا کے ایک بہت بڑے خطے کے رہنما بن گئے ۔مگر جب یہ طاقت دوسروں کے ہاتھ میں پہنچی تو سلطنت عثمانیہ کے اتنے ٹکڑے ہوئے کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی تھی ۔اب یہ طاقت برٹش ایمپائر کے پاس تھی ۔تاج برطانیہ کا عظیم اقتدار ایک ایسے خطہ ارضی پر قائم ہوا جو اتنا وسیع وعریض تھا کہ کہتے ہیں کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔مگر دوسری جنگ عظم اس عظیم ایمپائر کو لے ڈوبی اور برٹش ایمپائر کے اتنے حصے ہوئے کہ لوگ سلطنت عثمانیہ کے زوال کو بھول گئے ۔
منگولوں سے لے کر تاج برطانیہ کے عہد تک سات صدیوں میں بارہا جغرافیے تبدیل ہوئے اور اس تبدیلی کا محرک طاقت تھی یہ طاقت تھی جس نے اتنے بڑے بڑے ایمپائر بنائے اور یہی طاقت ہی تھی جس نے ان ایمپائر کو دھول چٹا دی ۔دجلہ کے خوں رنگ پانی سے لے کر روسی فوج کے آخری فوجی کے دریائے آمو کو پار کرنے تک کا بنیادی محرک طاقت ہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب وزیر خارجہ بھٹو نے ہندوستانی جارحیت پر اپنی طالبعلم بیٹی بے نظیر بھٹو سے تجزیہ کرنے کو کہا تو بے نظیر بھٹو کے مطابق بھارت یو این او چارٹر کی خلاف ورزی کرکے دنیا میں اکیلا ہورہا ہے اور پاکستان کو اس کیس میں اخلاقی برتری حاصل ہے اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی جواب دیا کہ مجھے خوشی ہےکہ تم سیاست کی طاقت کو سمجھ گئی ہو مگر تمہیں طاقت کی سیاست کو سمجھنے میں مزید کچھ وقت لگےگا۔
یہ طاقت ہی ہے کہ جمہوریت اور انسانیت کا راگ الاپتی دنیا کو مقبوضہ کشمیر کے انسانوں کی حالت نظر نہیں آتی نا ہی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والےمظالم نظر آتےہیں۔کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر امریکہ بہادر عراق پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں عراقی مار دئیے اور دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے دو دہائیوں تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اب طاقت اس کے پاس ہے۔ طے ہوگیا کہ طاقت کے اپنے اصول و ضوابط، عزائم ، مقاصد اور اخلاقیات ہوتی ہے۔ من پسند نتائج کےحصول کےلیےطاقت کا استعمال جائز تصور ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہو یا علاقائی اسٹیبلشمنٹ ہو ایک ہی اصول پرکام کرتی ہیں۔زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار کا حصول اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا اب ان دو مقاصد کے لیے لاکھوں لوگوں کی قربانی بھی دینی پڑ جائےتو دریغ نہیں کرتے۔مذہب ، قومیت ، اور لسانیت کے نام پر تقسیم معاشرے ، معاشی طورپر بدحال ان طاقت وروں کی آسان شکار گاہیں ہیں۔ حقیقت میں ہم جیسے لوگ تو ان طاقتور ہاتھوں کی انگلیوں سے بندھے ہوئے دھاگوں کےساتھ لٹکی ہوئی وہ پتلیاں ہیں جو اس وقت تک حرکت میں رہتی ہیں جب تک یہ ہاتھ حرکت کرتے ہیں۔اس وقت یہ ہاتھ حرکت میں ہیں تو ہم بھی ناچ رہے ہیں مگر ستم یہ کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری ہر حرکت ہماری منشا اور ہمارے ارادے سے ہورہی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے بالکل نہیں ہے
طاقتوروں کا کھیل جاری ہے۔ اوکس کے بعد کھیل دلچسپ ہوتا جارہا ہے۔زمینی اور سمندری ناکہ بندی شروع ہوگئی ہے۔انڈو پیسفک پر طاقتوروں کی نظریں جم گئی ہیں ۔ابھرتی ہوئی طاقت چین پہلے سے موجود سپر پاور کو چیلنج کررہی ہے۔ زیادہ طاقت کے حصول کی خاطر نئے بلاک اور اتحاد بننا شروع ہوگئے ہیں۔دنیا بھر میں اور خاص طورپر چین کے اطراف میں طاقتوروں کی سیاست جلد نقطہ عروج کو پہنچ جائے گی۔خدانخواستہ مگر لگ یہی رہا ہےکہ ہاتھیوں کی لڑائی ہمارے کھیتوں میں ہوگی اگر ایسا ہوا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے اس پر غور وفکر ہوگا مگر فی الوقت سوال یہ ہے کہ طاقت کے اس کھیل میں ہمارا کردار کیا ہوگا اور دوسرا سوال یہ کہ ہمارے کردار کا تعین ہم خود کریں گے یا پھر یہ طاقتور کریں گے ۔آخری سوال یہ کہ اگر ہم اپنےکردار کا تعین خود کریں گے تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا اور ہمارے کردار کا تعین یہ طاقتیں کریں گی تو بھی ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟
تحریر: ملک سراج احمد