جہاں ہماری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے مغرب کے دانشوروں کی سوچ شروع ہوتی ہے۔ رابرٹ گرین کی مشہور کتاب “طاقت کے اڑتالیس اصول” لوگوں میں بہت مقبول ہے، اس میں جو دانش ہے وہ کوئی نیا نہیں، ہماری اپنی مادری زبانوں میں بھی اس قسم کے دانش کا ذکر موجود ہے۔ اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ قوانین انہیں زندگی میں کامیابی کی منزل طے کروائیں گے لیکن کامیابی (رشتوں میں ہو یا کیریئر میں) اتنی سادی اور سیدھی نہیں کہ چند قوانین کو پڑھنے سے اور پھر انہیں فالو کرنے سے مل جائے۔
رابرٹ گرین انسانی نفسیات کو جانتا ہے، وہ نیوروسائنس (neuroscience) پر تحقیق کو پڑھتا ہے، اور کتاب لکھنے سے پہلے خوب تحقیق کرتا ہے(ایک اچھی کتاب لکھنے سے پہلے تحقیق کرنا بہت ضروری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ میں کتاب نہیں لکھتی کیونکہ مجھے ہمیشہ اپنی تحقیق کم لگتی ہے، آپ میں سے جو بھی کتاب لکھنے کا شوق رکھتا ہے وہ پہلے اعلیٰ پائے کی تحقیق بھی کرے، ایسا رابرٹ گرین کہتے ہیں)۔ رابرٹ کے بیان کردہ اصولوں کی باریکی (subtlety) کو پکڑنا بہت مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کو بلکل ویسے پڑھتے ہیں جیسے وہ قوانین ہیں کیونکہ عموماً انسان پیچیدگیوں اور گہرائی میں جانا پسند نہیں کرتے۔
منفی باتوں پر دھیان دینا ضروری ہے کیونکہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہاں پر اگر شیر یا سانپ سے خطرہ نہ سہی لیکن سانپ اور شیر نما انسانوں سے خطرہ ضرور ہے تبھی منفی باتوں پر بھی بات ہونی چاہیے لیکن ایک توازن میں کیونکہ اس بات کا چند کاروبار فائدہ اٹھا رہے ہیں تبھی ہمیں منفی اور مثبت میں توازن رکھنا ہے، میں بذات خود قنوطیت پسند (pessimist) ہوں لیکن جس طرح کا ماحول ہے آج کل مجھے اپنی ذہنی صحت کو نارمل کرنے کے لیے مثبت سوچ کی مشق کرنی پڑتی ہے۔ ہم جدید جنگل (modern jungle) میں رہ رہے ہیں، یہ ٹیکنالوجی والا جنگل ہے۔ لیکن کیا اس جنگل میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں کچھ خاص اصولوں کی لسٹ کی ضرورت ہے؟؟
جی ہاں ہمیں قدیم دانش کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں مختلف اصول و قوانین کے سنگ جس ایک اصول کی شدت سے ضرورت ہے وہ ہے “پانی کی مانند بنو” (be like water)، اور یہی رابرٹ کی کتاب کا آخری اصول ہے۔ اور چونکہ دنیا میں سب سے بڑا قانون “عدم یقینی” (uncertainty) کا ہے تو پھر کوئی بھی اصول ہر جگہ عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔ آپ سدھارت گوتم کے “حال میں رہنے” (present moment) والے فلسفے کو ایک مشق کی طرح کرتے ہوئے خود کو سکھا سکتے ہیں کہ کیسے اس جدید جنگل میں دوسروں کے “عمل” (actions) پر غور کرتے ہوئے آپ خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں…… لیکن..
کیا مسائل صرف لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں؟ آپ کی اپنی لالچ اور لاعلمی کا کیا؟ لاعلمی اور لالچ دونوں کی اکثر قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دوسروں سے پہلے خود کے جذبات اور خود کے عمل پر توجہ دیں۔
البتہ آپ کچھ بھی کرلیں پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا جو آپ کو تکلیف پہنچائے گا، کیونکہ اگر اڑتالیس سو قوانین بھی پڑھ لیں، نئے حالات اور نئے لوگوں سے ملتے وقت اکثر آپ کے پڑھے قوانین اور تجربات بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
اس کتاب کا ریویو دینے پر لوگوں نے باقاعدہ میرا شکریہ ادا کیا تھا اِن باکس میں آکر، کچھ لوگوں کو بہت جاننے کو ملا جن کو گھر، میڈیا اور معاشرے نے صرف مثبت باتوں کے متعلق آگاہ کیا تھا یا جو لاعلم تھے کہ طاقت کا یہ نظام کس طرح سے چلتا ہے۔ لیکن میں نے کتاب کے آخر میں “اندرونی طاقت” (inner power) کا ذکر کیا تھا جو اپنے اندر کی دنیا کے قوانین کو سمجھنے سے آتی ہے اور بیشک انہی قوانین پر ہمارا کسی حد تک اختیار ہے۔ باہر والے قوانین پر ہمارا اختیار اکثر و بیشتر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، فلسفہ، سائنس اور نفسیات کا علم آپ کو اندر کی دنیا میں جھانکنے میں مدد دیتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...