ہندو مذہب کی کتاب بھگود گیتا (Bhagavad Gita) میں ایک سین ہے۔ جس میں مہابھارت (Mahabharata) کے میدان میں شہزادہ ارجن (Arjuna) اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کھڑا ہے، سامنے موجود مخالف گروپ پر نظر ڈالتا ہے تو اپنے خونی رشتوں، دوستوں اور عزیزواقارب کو اپنی مخالفت میں پاتا ہے۔ انہیں دیکھ کر ارجن جذباتی ہوجاتا ہے، پریشانی اور اضطراب میں پوچھتا ہے کہ کیا اچھائی ہے اور کیا برائی ہے؟
اس سب کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ اور کیا میری زندگی کا یہی مقصد ہے؟ کرشنا، ارجن کے اضطراب کو دیکھ کر جواب دیتا ہے، اس کائنات میں ہر شے (ہر مخلوق) کا ایک منفرد “دھرما” (Dharma) ہوتا ہے، ایک راستہ جس پر اسے چلنا ہوتا ہے اور اسکے فرائض، جو اسے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اگر راستہ معلوم ہوتو چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو تم ہر شک اور شبہ سے آزاد اپنے سفر سے لطف اندوز ہوسکو گے۔
اور اگر اپنے دھرما یعنی راستے سے ہٹ کر کسی اور کے بتائے رستے پر چلو گے تو کائنات کے بنائے ہوئے توازن کو خراب کردو گے اور کبھی بھی سکون اور مسرت محسوس نہیں کر سکو گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہارا راستہ کیسا ہے اور کیا ہے بس تمہیں اس پر چلنا ہے۔ ایک دھوبن جو اپنے راستے(یعنی اپنے کام سے) سے واقف ہے اور اس پر گامزن ہے اس شہزادے سے ہر لحاظ سے برتر ہے جو بھٹک چکا ہے اور اپنے فرائض کو انجام دینے سے بھاگتا ہے۔
کرشنا کا جواب سن کر ارجن اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ تلوار اٹھاتا ہے، اپنے خونی رشتوں اور دوستوں کے سر قلم کرتا، ان کی لاشوں پر سے گزر کر “جیت” اور “طاقت” کا تاج اپنے سر پر سجاتا ہے، شہزادہ ارجن، یودھا ارجن کہلاتا ہے اور ہندو مذہب کا ہیرو بن جاتا ہے۔ ایسے ہی حالات کا سامنا حضرت محمدﷺ کو بھی رہا ہوگا۔
جب انکی مخالفت میں سب سے زیادہ پیش پیش انکے اپنے خونی رشتے تھے، لیکن محمدﷺ کو فرائض انجام دینے تھے، حق کی آواز بلند کرنی تھی، جذبات سے بالاتر ہوکر فیصلے لینے تھے۔ بیشک “طاقت” کا کھیل خطرناک اور خون خرابے سے لت پت رہا ہے اور اس کھیل میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں ایسا کہتے ہیں کتاب “فورٹی ایٹ لاز آف پاور” کے لکھاری رابرٹ گرین۔
نظام کوئی بھی ہو یا انسان کوئی بھی ہو، تہہ میں پاور کا حصول ہی ہوتا ہے، پاور اپنے آپ میں”غیر جانبدار” (neutral) ہوتی ہے، اچھائی ہو یا برائی، دونوں کو خود کو منوانے کے لیے “طاقت” کی ضرورت ہوتی ہے۔ رابرٹ گرین نے قدیم چائنہ اور باقی مختلف ادوار سے دانش (wisdom) کو اکھٹا کرکے پاور کے اڑتالیس اصول پر مبنی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب پر مختلف جگہوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔
مجھ جیسی عام اور اوسط درجے کی عورت کو اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور میں آپ سب کے ساتھ یہ اصول کیوں شیئر کررہی ہوں؟ مجھے اس کتاب کا ریویو دینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کتاب میرے نظریات سے میل نہیں کھاتی، میں زندگی کو اس کتاب میں بیان کردہ اصولوں کی نظر سے ہرگز نہیں دیکھتی، لیکن وہ زندگی ہی کیا، جس میں آپ مخالف نظریات کو پڑھ کے اپنے، صبر کو نہ آزمائیں۔
مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ کبھی کبھار ہمیں معاملات کا دوسرا رخ دیکھنا اور تلخ، البتہ حقیقت تلخ یا شیریں نہیں ہوتی وہ بس حقیقت ہوتی ہے۔ باتوں کو بھی پڑھنا اور سننا چاہیے۔ وہ سب سننا چاہیے جسے سن کر ہمارے حوصلے پست ہوتے ہوں، کیونکہ حقیقت جیسی ہے وہ ویسی ہے اور ہمارے سامنے کھڑی ہے، لیکن مسئلہ حقیقت میں نہیں بلکہ ہماری توقعات میں ہوتا ہے۔
مسئلہ ہمارے دماغ کے بنائے خیالی پلاؤ میں ہوتا ہے، جو حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ یہ کتاب بیشک سو فیصد حقیقت پر مبنی نہ ہو، لیکن یہ کتاب پڑھ کر ہمیں کسی حد تک اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ، دنیا کیسی ہے، نہ کہ، دنیا کیسی ہونی چاہیے۔ رابرٹ گرین کو اس کتاب کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے، لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس سے شر اور شیطانیت پھیلا رہے ہیں۔
لیکن رابرٹ کہتے ہیں کہ جو حسین اور متوازن دنیا اکثر مثبت کتابوں میں دکھائی جاتی ہے، وہ انہیں زندگی کے ساٹھ سالوں میں کبھی دیکھنے کو نہ ملی۔ رابرٹ نے ہر قسم کی جاب کی ہے، یہاں تک کہ مزدوری (construction worker) بھی کی ہے اور بقول رابرٹ کے کہ لوگ ہمارے معاشرے، لوگوں اور دنیا میں چل رہے نظام کی اصلیت (منفی رخ) پر بات نہیں کرتے۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ یہ کتاب لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ کس طرح حکمران، مشہور شخصیات، رہنما/پیشوا، دفتر، روزمرہ زندگی حتیٰ کہ گھروں میں بھی انسان دوسرے انسانوں کو کنٹرول اور ہنر مندی سے استعمال (manipulate) کرتے ہیں۔ ایک اور بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں بہت خوبصورتی سے تاریخ سے نہایت ضروری اور متنوع (diverse) معلومات لے کر شائع کی گئی ہیں۔
جنکا کسی ایک کتاب میں ملنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، مغربی فلسفہ، خاص کر نطشے کے فلسفے اور میکیاویلی کے نظریے کو مدِ نظر رکھ کر لکھا گیا ہے، اس کتاب کا مواد، اور قدیم ہندو، قدیم چائنیز، سن سو کی کتاب، دا آرٹ آف وار، ابراہیمی مذاہب، اسلام، یہودیت، عیسائیت، سے لیے گئے قول اور فرضی قصے (fables) اس کتاب کو مزید مرغوب (interesting) بناتے ہیں، اور یہی وجہ کہ مجھے یہ کتاب بہت پسند آئی۔
کیونکہ تاریخ کے اتنے اہم اور سبق آموز واقعات کا ایک ہی کتاب میں ملنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات کتاب کے متعلق یہ ہے کہ ہر اصول کا الٹ اور اس کے استعمال کی زیادتی کے نقصان بھی بتائے ہیں جسے جاننے کے لیے آپ کو کتاب کا مطالع کرنا ہوگا۔ میں بس سرسری طور پر بیان کروں گی آپ کے تجسس (curiosity) کو چنگاری دینے کے لیے۔ آئیے ان اصولوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
بہت سے لوگوں نے یہ کتاب یقیناً پڑھی ہوگی، کیونکہ اس قسم کا مواد انسانوں کو بہت پرکشش لگتا ہے۔
****
قوانین فہرست
1- پاور کا پہلا اصول اپنے آقاؤں کی چاپلوسی ہے، اپنے سے اوپر والوں کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو، کبھی اپنے ٹیلنٹ کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا، اپنے مالک کو محسوس کرواؤ کہ اس سے بہتر کوئی نہیں پھر دیکھیں کیسے آپ طاقت کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔
2- پاور کے کھیل میں کوئی دوست نہیں ہوتا، اور دوست زیادہ آسانی سے نقصان پہنچا سکتا ہے، اس لیے اگر دوستی کرنی ہی ہے تو کسی پرانے دشمن کی جانب ہاتھ بڑھاؤ، اگر کوئی دشمن نہیں تو دشمن بناؤ۔
3- چہرے پر مکھوٹا لگانا سیکھو، کبھی کسی کام کے پیچھے کی نیت نہیں جاننے دو کسی کو، لوگوں کو غلط سگنل دے کر گمراہ کرو، انہیں جتنی دیر اندھیرے میں رکھ سکو رکھو۔
4- ضرورت سے بھی کم بولو۔ لوگ جتنا زیادہ بولتے ہیں وہ اتنا ہی اپنے متعلق دوسروں کو معلومات دیتے ہیں، کم بولنا ہمیں دشمن کی نظر میں پراسرار اور بارعب بناتا ہے۔ زیادہ بولنا بیوقوف کی نشانی ہے۔
5- انسان کی ساکھ کا پاور میں بہت اکم کردار ہے، اپنی ساکھ مضبوط بناؤ اور مخالف پارٹی کی ساکھ کو توڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔
6- اپنی جانب توجہ مبذول کرواؤ۔ جھوٹا اور بڑا امیج بناؤ، لوگوں کو محسوس کرواؤ کہ تم پراسرار ہو، اور خود پر کئی رنگ چڑھاؤ۔
7- اپنے دانش اور عقل کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے ٹیلنٹ کا فائدہ اٹھاؤ، لیکن کریڈٹ صرف خود کو دو، جب دوسروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے، نام کمانے کے لیے تو خود کیوں کام کرنا۔
8- جب آپ زبردستی کسی سے کوئی کام کرواتے ہیں تو وہ شخص آپ کے کنٹرول میں نہیں، بلکہ آپ اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ ایسا جال بچھائیں کہ مچھلیاں خود پھنسیں، جب آفر ناقابل یقین طور پر بہترین ہوگی تو لوگوں کو انکی لالچ آپ تک لائے گی اور پھر کھیل آپ کے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں جس پہ چاہیں حملہ کریں۔
9- وہ بادل بنیں جو برستے ہوں گرجتے نہیں۔ وقتی جیت آپ کی انا کو کچھ دیر کا سکون دے سکتی ہے۔ لیکن آپ کے لیے خواہ مخواہ عداوتوں کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے دوسروں کو اپنے نظریے پر اپنے عمل کے ذریعے لے کر آئیں، خالی الفاظ کی جنگیں جیت کر آپ اپنے مخالفین کو مزید کینہ روی پر مجبور کر سکتے ہیں۔
10- خوش نصیبی اور خوش لوگوں کا ساتھ اپنائیں۔ یاد رکھیے کہ جذبات میں بیماری کی سی طاقت ہوتی ہے، ایک کے جذبات دوسرے کو کسی بیماری کی طرح لگ جاتے ہیں۔ اگر ٹوٹے ہوئے لوگوں کا ساتھ اپنائیں گے تو انکی نحوست کا شکار خود ہوجائیں گے۔ خوش اور کھلے دل والوں کی صحبت کا اچھا اثر ہوتا ہے۔
11- طاقت کا سب سے اہم اصول ہے دوسروں کو خود پر منحصر رکھنا۔ جتنا لوگ آپ پر منحصر (dependent) ہونگے اتنا ہی آپ طاقتور ہونگے۔ لوگوں کو انکی ضروریات، ترقی اور خوشی کے لیے اپنا غلام بنا کر رکھیں انہیں بتائیں کہ وہ آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں پھر آپ کو طاقت کے چھن جانے کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔
12- بہت ہی چنندہ حربے جن کے ذریعے آپ مظلوموں کو اپنی ایمانداری اور فراخ دلی کا احساس دلاتے ہیں تو اس سے لوگ آپ پر شک و شبہات کم کردیتے ہیں اور اب آپ اپنی ایمانداری اور سخاوت کی ڈھال کا استعمال کرکے کارستانیاں (manipulation) کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔
13- جب بھی مدد طلب کرنے جائیں تو سامنے والے کو اپنے کیے پرانے احسانات نہ یاد دلائیں، کیونکہ لوگ اپنا فائدہ دیکھ کر قدم بڑھاتے ہیں، احسانات یاد کرکے نہیں، بلکہ اس کو اس مدد میں اسکا فائدہ دکھائیں وہ اپنا فائدہ دیکھ کر آپ کی مدد کے لیے یا آپ کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے راضی ہوجائے گا۔
14- اپنے مخالفین کی معلومات اور انکے چالوں کی خبر ہونا ایک بہت ہی نازک معاملہ ہوتا ہے، کسی کے ذہن میں کیا چل رہا ہے ہم نہیں جان سکتے، اس لیے ہم بہت ہی قدیم ہتھیار “جاسوسی” کا استعمال کرسکتے ہیں، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بہت پر خطر ہوتا ہے۔ آپ دوست کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کی معلومات زیادہ بہتر طور پر اکھٹی کرسکتے ہیں۔
کسی سے اسکی ذاتی معلومات لینا ایک بہت بڑا فن (art) ہے، ایسے سوالات جو دوسروں کو شک میں بھی مبتلا نہ کریں اور آپ سب جان بھی لیں۔
15- موسیٰ سے لے کر آج تک کے حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ دشمن چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہوجائے اسے چھوڑنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا کیونکہ وہ کبھی بھی چنگاری کی مانند بھڑک سکتا ہے۔ تاریخ میں بہت سے حکمرانوں نے یہ بات بہت ٹھوکریں کھانے کے بعد سیکھی، اس لیے طاقت کے حصول کے لیے واجب ہے کہ مخالفین کے جسم ہی نہیں بلکہ انکی روح تک کچل دو۔ ادھر نرمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں، کوئی نشان تک باقی نہ رہے۔
16- اگر مارکیٹ میں کوئی پراڈکٹ بہت زیادہ پائی جاتی ہو اسکی قدر و قیمت کم ہوجاتی ہے۔ اگر آپ وہ انسان ہیں جو ہر تقریباً ہر جگہ اور ہر وقت پائے جاتے ہیں تو لوگ آپ کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیتے ہیں، یاد رکھیے قلیل المقداریت (scarcity) میں بہت طاقت ہے۔ ایک مضبوط ساکھ بنا کر لوگوں کی نظر سے کچھ عرصے کے لیے اوجھل ہونا آپ کی طاقت اور قدر میں اضافہ کرتا ہے۔
17- وہ ہوائیں جن کے رخ کا کوئی اندازہ نہ لگا سکے اکثر ہمیں خوف و ہراس میں رکھتی ہیں۔ طاقت کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے غیر متوقعیت (unpredictability) کا سہارا لینا ضروری ہے۔ جسکی فطرت اور حکمت عملی(strategy) معلوم ہو اسکو کنٹرول کرنا آسان رہتا ہے۔ وہ انسان جس کے اگلے قدم یا جس کے مزاج کا اندازہ لگانا مشکل ہو مخالفین اور لوگوں کو نہ صرف تھکاوٹ بلکہ خوف کا شکار بھی رکھتا ہے، اور سب سے بڑھ کر دلچسپ بناتا ہے۔
18- مخالفین ہر طرف اور ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن ان سے بچنے کے لیے چار دیواری یا علیحدگی کا سہارا لینا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ خود کو بچانے کے لیے قلعے کی دیواریں استعمال کرنے سے بہتر ہے اپنے مخالفین سے بچنے کے لیے عوام کو ڈھال کی طرح استعمال کیا جائے، یہاں عمران خان کی مثال بہتر بیٹھتی ہے، ان کی ڈھال ان کے کارکن ہیں، وہ عوام میں زیادہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔
اور جو حکمران قلعوں میں خود کو قید کر لیں وہ عوام کی تنقید کا شکار بنتے ہیں۔ اپنی ضرورت کے حساب سے گھلنا ملنا ضروری ہے۔ کیونکہ قلعہ کی دیواروں میں بیٹھا انسان آسان شکار ہوتا ہے۔
19- دنیا میں بہت سے قسم کے لوگ ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپکا واسطہ کس قسم کے انسان سے پڑا ہے اس اصول کو تفصیل سے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ آپ کی معمولی سی بات کو یوں دل پر لے لیتے ہیں کہ اپنی پوری زندگی آپ سے بدلہ لینے میں وقف کردیتے ہیں۔ آپ کی حکمت عملی سب پر ایک طرح سے کام نہیں کرتی، کچھ لوگوں کو کچھ باتیں بہت ناگوار گزرتی ہیں۔
اس لیے اپنا شکار اور مخالف بہت سوچ سمجھ کر چنیں، کہیں کسی ایسے انسان سے دشمنی مول کہ لیں، جو آپ کی انرجی اور وقت دونوں برباد کردے۔
20- عہد صرف اپنی ذات سے کرو، کسی وجہ یا انسان سے نہیں۔ بیوقوف جلد بازی اور جذبات میں کسی ایک جانب جھک جاتے ہیں، پاور کے حصول کے لیے اپنی آزادی (independence) کو برقرار رکھو، اور دوسروں کو غیرجانبدار ہوکر ایک دوسرے کے خلاف لڑتا دیکھو، اس اصول کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
*لوگوں کو یہ احساس دلانا کہ وہ آپ پر اختیار رکھتے ہیں، آپکی پاور کو کمزور کردیتا ہے، جب انہیں احساس ہو کہ آپ پر انکا اختیار نہیں تو وہ آپ کو جیتنے کے لیے جان لگا دیں گے اور انکی یہی ناکامی آپ کی طاقت کو ہوا دے گی، مخالفین/لوگوں کو امید کا دامن دیں لیکن اطمینان نہیں۔
*لوگ/مخالفین آپ کو اپنی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں گھسیٹیں گے، لیکن ان لڑائیوں کا حصہ بننا بیوقوفی ہے، غیر جانبدار رہنا بہترین عمل ہے، خود لوگوں کے درمیان جنگ چھیڑ کر ان کی مدد اور صلاح کروانے پر آپ اپنی پاور بڑھا اور اپنا امیج اچھا کرسکتے ہیں۔
21- کوئی بھی بیوقوف نہیں دکھنا چاہتا، ذہین فطین دکھنا سب کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار کچھ مقاصد بیوقوف اور سادہ مزاج نظر آکر حاصل کیے جاتے ہیں۔ جب آپ دوسروں کو محسوس کروائیں کہ وہ آپ سے زیادہ ذہین ہیں تو انہیں آپکا خوف نہیں رہتا اور وہ کبھی آپ کے چھپے ارادے نہیں پہچان سکتے، کیونکہ آپ کی بیوقوفی انہیں پرسکون کردیتی ہے۔
22- جب آپ کمزور ہوں تو طاقتور کے آگے ہتھیار ڈال دینا سب سے بہترین ہتھیار ہوتا ہے۔ کمزور اور ناتواں انسان اگر لڑے گا تو ہارے گا، اور اپنے مخالفین کو ہار کر جیت کا مزہ چکھانے سے بہتر ہے کہ ان کے آگے ہار (surrender) مان لی جائے، ہار مان لینا آپ کو وقت دیتا ہے، اپنی انرجی دوبارہ بڑھانے کی ہمت دیتا ہے، اس لیے ہار مان لینے کو طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
23- شدت (intensity) حاوی ہونے کی طاقت رکھتی ہے، وسعت(extensity) پر۔ اس قانون سے سب واقف ہیں کہ کیسے کسی ایک جگہ اپنی انرجی لگانا معیار (quality) کو فروغ دیتا ہے۔ اپنا دھیان (concentration) ایک جگہ پر لگانا ضروری ہے، کیونکہ اگر تیر ایک ہی ہے اور موقع بھی ایک لیکن دھیان نہیں تو نشانہ چوک سکتا ہے، لیکن اگر دھیان ایسا کہ تیر اور ذہن ایک ہو جائیں تو ایک ہی وار میں مخالف کے دل کو چیرتا ہوا جاسکتا ہے۔
24- اس دور میں درباری سیاست تو نہیں، لیکن کسی بھی جگہ پاور کے حصول کے لیے قدیم درباری سیاست سے کافی کچھ سیکھا جاسکتا ہے، اس اصول تفصیل میں پڑھنا ضروری ہے، اس میں انسانی رویوں کو کافی وضاحت میں بیان کیا ہے۔ دور چاہے کوئی بھی ہو لیکن جعلُسازی، خوشامد اور دوسروں پر اپنی طاقت کی دھاک بیٹھانا اور وہ بھی دلآویز، خوش وضع اور غیر واضح طور پر، ایک بہت بڑا فن ہے۔ جس پر مہارت حاصل کرکے آپ ماڈرن دربار میں طاقت کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں گے۔
25- معاشرے کی بنائی ہوئی شبیہ (image) کو خود پر نہ تھوپنے دو، یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ فن ہونا چاہیے اپنی شناخت کو توڑنے اور پھر نئی شناخت (identity) کو بنانے کا، جیسا کہ فطرت کو بھی پرانی چیزیں توڑ کر اس سے نئی بنانا اچھا لگتا ہے۔ رابرٹ کہتے ہیں کہ ڈرامے میں بہت طاقت ہوتی ہے اور اسکا استعمال کرکے آپ شاندار (larger-than-life) شبیہ بنا سکتے ہیں۔
بلکل ویسے جیسے بظاہر انسانیت پرست دکھنے والے ہالی وڈ اسٹار غریب ممالک میں جاکر ہمدردی کے ذریعے اپنا امیج بناتے ہیں، یہاں انجلینا جولی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جن کی گردش کرتی تصاویر انکو انسانیت کا پیکر بتاتی ہیں۔
26- یہ اصول دو حصوں میں تقسیم ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، لیکن اپنی اچھی اور صاف ستھری ساکھ بنانے کے لیے انہیں دوسروں پر ڈالنا یا دوسروں کو اسکا ذمہ دار ٹھہرانا طاقت کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی، قربانی کا بکرا (scapegoat) چاہیے ہوتا ہے، آپ کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا ہونا چاہیے، جس پر آپ سب کچھ ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں۔ یہ طریقہ انسانوں کی تاریخ جتنا پرانا ہے۔
٭ وہ کام جو خطرناک ہیں یا جس سے آپ کی شبیہ (image) خراب ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے کسی اور کا استعمال کریں (cat-paw)۔ یوں آپ اپنے خطرناک مقاصد پورے کرکے بھی کسی کی نظر میں نہیں آئیں گے اور یوں آپ کا ایک اچھا امیج برقرار رہے گا۔
27- کارل ساگن کا قول ہے، میں یقین نہیں کرنا چاہتا، میں جاننا چاہتا ہوں، لیکن وہ کارل ساگن تھا، اس لیے ایسا کہتا تھا، البتہ عام عوام صرف، یقین کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے عوام کو نئے عقیدے دو جس پر وہ یقین کرسکیں، ایسے الفاظ کو چناؤ کرو جو غیر واضح لیکن وعدوں (promises) سے بھرے ہوئے ہوں، الفاظ وہ جو جذبات جگائیں، منطقی سوچ نہیں۔
نئے اور مزیدار قسم کے نظریات جو کسی فرقے کی سی طاقت رکھتے ہوں اور لوگ اس فرقے کے مقصد کو بچانے کے لیے آپ کے لیے قربانیاں دیں۔ ایسا عمران خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی فالوئنگ کسی فرقے کو فالو کرنے کے مانند ہے، بیشک یہ بہت بڑا فن ہے اور عمران خان باقی حکمرانوں سے زیادہ سمجھتا ہے پاور کے کھیل کو یہاں سیاست نہیں، بلکہ چارمنگ لیڈر کی بات ہورہی ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے وقت پاکستانی حکمرانوں میں واحد عمران خان کی مثال ہی ذہن میں آئی، باقیوں میں چکما دینے والا اور چارمنگ نارساسسٹ لیڈر والی بات ہی نہیں، بہت ہی لو-پروفائل (low-profile) سیاستدان ہیں سارے، صرف سیاستدان ہی نہیں، بلکہ باقی کے حکومتی اداروں میں بھی عمران خان کے مقابلے کا نارساسسٹ ایلفا میل (alpha male)اور چارمنگ لیڈر نہیں دکھتا۔
28- رابرٹ گرین کہتے ہیں، جو بھی فیصلہ ہوبےخوف و خطر ہوکر لو، ذرا سا شک شبہ یا کمزور دکھنا طاقت کے حصول میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انسان بہادر اور فیصلہ کن لوگوں کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں، کمزور اور بزدلی ہمیں پرکشش نہیں لگتی۔ بہادری اور اعتماد میں طاقت ہے۔
29- ایسی منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ جس میں آپ انجام کو نظر انداز نہ کریں، کیونکہ جس کھیل کو آپ رچنے جارہے ہیں۔ اس میں بازی کبھی بھی آپ کے خلاف پلٹ سکتی ہے، اس لیے ہونے والے نقصانات (consequences) اور درپیش آنے والے مسائل کو مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ کب انجام آپ کے بنائے منصوبے کے مطابق نہیں ڈھل رہا اور کب آپ نے رکنا ہے اور حالات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا۔
30- میری ایک دوست کہتی ہیں کہ وہ جب بھی کسی خاتون سے ان کے بنائے ہوئے سالن کی ترکیب (recipe) پوچھتی ہیں تو آگے سے ایک ہی جواب آتا ہے، کچھ خاص نہیں بس جو مصالحے بھی کچن میں موجود ہوں اسی میں سالن بنالیتی ہوں، پتہ نہیں کیسے اتنا لذیذ بن جاتا ہے، یہی والا اصول رابرٹ گرین بھی اپنانے کو کہتے ہیں جس میں آپ اپنی کوششوں کو اور اپنی کامیابی کے راز اور ترکیبیں چھپا کر اس طرح سے محسوس کرواتے ہیں۔
جیسے یہ سب آپ کی شخصیت اور قابلیت کا جادو ہے، وہ عظیم انسان ہیں۔ آپ جو بنا کوشش کے بھی اپنی ذہانت اور قابلیت سے کامیابی کے قلعے فتح کیے بیٹھا ہے۔ گھریلو خواتین اور ان کے پاور گیمز کو کبھی ہلکا نہیں لیجیے گا۔
31- یہ والا اصول بہت پرانا ہے، یہ آج بھی قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا، اور وہ یہ کہ، آپ کے پاس انتخاب کا حق موجود ہے، رابرٹ کہتے ہیں کہ لوگوں کو انتخاب کا اختیار اس طرح سے دو کہ انہیں لگے کہ ان کے پاس انتخاب کا حق موجود ہے۔ لیکن درحقیقت سارے انتخاب آپ کے تیار کردہ ہیں اور آپ کے حق میں ہیں۔ جن پر آپ نے مختلف رنگ چڑھا دیئے ہیں اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں، اب کی بار والی، تبدیلی یا، انقلاب، بظاہر لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ نظام انکا انتخاب ہے۔ ان کی زندگیاں بدل دے گا۔
32- یہ والا اصول ہم سب کا پسندیدہ ہے، فینٹسی میں رہنا ہم سب کو پسند ہے، جسے فینٹسی پسند ہے اسے فینٹسی کا منجن بیچتے رہو۔ حقیقت کڑوی ہوتی ہے اور اکثر لوگوں کے سامنے بیان کی جائے تو انکی جانب سے غصہ اور مخالفت ملتی ہے۔ اس لیے لوگوں کو رومانوی دنیا میں رہنے دو اور انکی دکھتی رگوں پر پاؤں رکھ کر اپنی طاقت بڑھاتے رہو۔
33- کمزوری ہم سب کی ہوتی ہے، عدم تحفظ اور لت کا شکار سب ہوتے ہیں، بس ان کمزوریوں کو پکڑ کر فائدہ اٹھانا ہے۔
34- جس طرح آپ اپنے متعلق سوچتے ہیں، لوگ عموماً آپ سے اسی طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔ اگر آپ لاشعوری طور پر اپنی ذات پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں تو لوگ بھی لاشعوری طور پر ایسے سگنل محسوس کرکے آپ کے ساتھ ویسا رویہ ہی رکھتے ہیں۔ رابرٹ کہہ رہے ہیں کہ خود پر اور اپنی طاقت پر بادشاہوں والا کانفیڈنس ہونا چاہیے آپ میں۔
35- صحیح وقت صحیح فیصلہ صحیح انسان، اس ملاپ کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جلد بازی نقصان دے سکتی ہے۔ جلد بازی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا خود پر کوئی اختیار نہیں۔ وقت کی دھارا دیکھنا ایک فن ہے اور اس پر کمال حاصل کرنا طاقت کے حصول کا اصول
36- “انگور کھٹے ہیں” کا رویہ آپ کو فائدہ دے سکتا ہے۔ جب کوئی چیز آپ حاصل نہ کرسکیں تو اسے حقیر قرار دے کر دھتکار دیں، زیادہ تر لوگ اسی اصول کا سہارا لیتے ہیں۔ جب انہیں وہ نہیں ملتا جو چاہیے ہوتا ہے۔ جو نہیں مل سکتا اس میں کم دلچسپی دکھائیں اور یوں آپ برتر نظر آئیں گے، اور جس کے پاس (آپ کا مخالف) وہ چیز موجود ہے وہ اسکی اہمیت نہیں جان سکے گا۔
رابرٹ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ بندہ باہر سے تو اداکاری کرلے لیکن زخمی دل کا کیا کرے۔
37- عام لوگ سرسری شان و شوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں، چونکہ انسان ایک بصری (visual) مخلوق ہے، جو نظر آتا ہے۔ جب وہ عالی شان ہو تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے لوگ۔ جب لوگ آپ کی چکا چوند میں کھو جائیں تو وہ آپ کے اصلی مقاصد پر دھیان نہیں دے پاتے۔
38- اگر آپ وقت کی نزاکت کا خیال نہ رکھتے ہوئے اپنے خیالات اور نظریات کا ہر جگہ پرچار کرتے پائے جائیں گے تو صرف نقصان اٹھائیں گے، اگر آپ حق بات بھی کر رہے ہیں تو لوگ سمجھیں گے کہ آپ محض توجہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اور یوں آپ کو کڑی تنقید کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اپنے حقیقی نظریات یا خیالات صرف ان سے شیئر کریں، جو آپ کی طرح سوچتے ہوں اور سننے کی ہمت رکھتے ہوں۔
39- غصہ یا جذبات کا اظہار عموماً نقصان دیتا ہے، لیکن اگر آپ اپنے مخالفین کو غصہ دلا کر خود پرسکون رہنے کا فن جانتے ہیں تو آپ یقیناً فائدے میں ہیں۔ اپنے مخالفین کے جذبات کو ہوا دیں اور پھر خاموشی سے بیٹھ کر تماشا دیکھیں۔
40- مفت یا بلا معاوضہ کچھ بھی لینا آپ کو احسان، شکرگزاری اور شرمندگی کے احساس میں ڈال دیتا ہے۔ قیمت ادا کرنا سیکھیں، چیزوں کی قیمت ادا کرنا آپ کو بیکار کے جذبات کے بوجھ تلے دبنے سے بچاتا ہے۔ پیسوں کے معاملے میں کنجوسی آپ کی طاقت کو کم کرتی ہے، سخاوت اور کھلے دل والوں کو طاقت مقناطیس کی طرح کھینچتی ہے، یہ بہت بہترین اصول ہے اور میرا پسندیدہ بھی۔
41- اپنی شناخت خود بنانا بہت ضروری ہے، کسی اور کی کامیابی یا وراثت میں ملنے والا نام اکثر الجھن میں ڈال دیتا ہے، آپ کی ساری انرجی اپنے آباء و اجداد کے بنائے معیار کو پورا کرنے یا اس سے آگے نکلنے میں نکل جاتی ہے، بیشک اپنی الگ شناخت بنانا ہمت کا کام ہے۔
42- جاپانی کہاوت ہے کہ وہ انسان جو گروپ میں کھلبلی مچائے اسے خاموش کروانا بہت ضروری ہوتا ہے(a nail that sticks out gets hammered down)، یہی اصول رابرٹ گرین بھی اپنانے کو کہتے ہیں کہ وہ ایک انسان جو آپ اور آپ کی طاقت کے بیچ آرہا ہے، اسے کیل کی مانند ٹھوکنا بہت ضروری ہے، کھلبلی مچانے والے کو خاموش کروانا ضروری ہے۔
43- کنٹرول اور اشتعال سے زیادہ دیر آپ طاقت کا ساتھ نہیں حاصل کر سکیں گے، لوگوں کے دل و دماغ کو فتح کرنا ضروری ہے۔ انکی نفسیات اور جذبات کے ساتھ کھیلنا بہت ضروری اور فائدہ مند رہتا ہے۔ جب پیار سے قتل ہوسکتا ہے تو نفرت کا ہتھیار کیوں استعمال کرنا۔
44- اس اصول میں، مرر ایفیکٹ (mirror effect) کو استعمال کرنے کا کہا ہے، اپنے اور مخالفین کے درمیان شیشے کے سے اثر کو بنا کر آپ ان کی نقل کرتے ہیں، یہ نقل نہ صرف انہیں آپ کی اصلی حکمت عملی جاننے سے روکتی ہے بلکہ انہیں غصہ بھی دلا سکتی ہے۔ جیسے ہم کسی کو اکثر چڑانے کے لیے اس کی باتوں کو دہراتے ہیں، اس کے علاوہ شیشے والے اس اثر سے آپ مخالفین کو احساس دلاتے ہیں کہ آپ بھی ان کی طرح سوچتے ہیں۔
انکا عکس ہیں۔ اکثر دوسروں کو آئینہ دکھا کر آپ انکی بنائی ہوئی چالوں کا ذائقہ انہیں بھی چکھا سکتے ہیں۔
45- انسان ایک ایسی مخلوق ہے، جو اچانک تبدیلیوں کو پسند نہیں کرتی، اگر آپ کسی جگہ اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو پرانے طریقوں میں یک دم بدلاؤ نہ لائیں، یک دم بدلاؤ انسانوں کے لیے ٹروما کی مانند ہوتا ہے، ایسی تبدیلی جو آپ کے طاقت کے حصول کے لیے ضروری ہے، اسے بہت آہستہ سے لایا جائے۔
46- زیادہ کامیابی اور پرفیکشن آپ کو دوسروں کی نظر میں نمایاں بناتا ہے اور پھر بہت ممکن ہے کہ وہ لوگ جو آپ کی طرح کامیاب اور خوش نصیب نہیں وہ آپ سے حسد کرنے لگ جائیں، پرفیکٹ دکھ کر خواہ مخواہ کی توجہ اور حاسد انسانوں کو اپنی جانب متوجہ نہ کروائیں، آپ کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔
47- بہترین امریکی ناول نگار کرٹ وانک اور مشہور ناول، catch-22 کے لکھاری جوزف ہیلر کے درمیان ایک ارب پتی بزنس مین کی پارٹی میں ایک مشہور گفتگو کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے، جس میں کرٹ کہتا ہے “تمہیں معلوم ہے جوزف اس ارب پتی آدمی نے پچھلے ایک ہفتے میں اتنا منافع بنایا ہے، جو تم ساری زندگی بھی اپنے ناول سے نہیں بنا سکتے” جوزف جواب دیتا ہے “تمہیں معلوم ہے کہ کرٹ کہ میرے پاس ایسا کیا ہے۔
جو اس ارب پتی کے پاس نہیں؟ کرٹ کہتا ہے “کیا” جوزف جواب دیتا ہے “مجھے معلوم ہے کہ میری حد کیا ہے، میں جانتا ہوں کہ میرے لیے کتنا کافی (enough) ہے، لیکن یہ ارب پتی یہ نہیں جانتا” رابرٹ بھی اس قانون میں کہتے ہیں کہ جیت کے بعد کب رکنا ہے اور اب تھم جانا ہے، کتنا کافی ہے، یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے، جسے اپنی حد نہیں پتہ وہ جیت کو بھی ہار میں بدل سکتا ہے۔
48- مجرد (formless) ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ اصول نہیں ہوتا آخر میں تو میں اس کتاب کا ریویو کبھی نہیں دیتی، یہ آخری اصول ہی اس کتاب کی خوبصورتی ہے۔ رابرٹ اپنے انٹرویو میں یہی کہتا ہے کہ اڑتالیسواں اصول یہی ہے کہ پچھلے سارے اصول پھاڑ کر پھینک دو۔ یہ اصول ہمیں ٹاؤازم کے فلسفے کی جانب لے کر جاتا ہے، جس میں لاؤ سو کہتا ہے کہ پانی کی مانند بنو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...