بت پرستوں کے مذاہب میں فوق البشر قوتوں کی رضا جوئی یا استالیت ہے۔ جن کے متعلق یہ باور کیا جاتا ہے کہ فطرت اور انسانی حیات ان کی دست قدرت میں ہیں اور وہی ان کی راہ معین کرتی ہیں۔ اس طرح ایک طرف ان فوق البشر قوتوں اپر اعتماد اور دوسرا انہیں راضی خوشی کرنے کی کوشش ان دونوں میں اولیت اعتماد کو حاصل ہے۔ کیوں کہ کسی برتر ہستی کی رضا جوئی سے اس پر اعتماد لازمی ہے۔
چوں کہ قدیم مذاہب کا تار پور مادرائی ہستیوں پر اعتماد نیز ان کی رضا جوئی سے بنا ہے۔ اس لئے یہ مفروضہ بھی اہم ہے کہ فطرت کے آئین میں رد و بدل ممکن ہے اور ہم اپنے مقاصد کے لیے ان مقتدد ہستیوں کو فطرت جن کے قبضے میں ہے اور وہ واقعات کا رخ موڑ کی قدرت رکھتے ہیں اور ہر شخص قدرت نہیں رکھتا ہے کہ وہ ان برتر ہستیوں سے ربط رکھ سکے۔ لیکن جنہیں ان ہستیوں سے کام لینے کی قدرت ہوتی ہے وہ مناسب رسوم اور جنتر منتر کے ذریعے انہیں مناسکتے ہیں اور بڑے سے بڑے دیوتاؤں کو اپنی مرضی پر چلا سکتا ہے۔
یہ مذاہب جو اپنی فوق البشر قوتوں کی رضا جوئی سے عبارت ہیں اور کسی ہستی کی رضا جوئی اور استمالیت کی کوشش اس بات کی دلیل ہے، کہ وہ ایک شعوری اور شخصی عامل کی حثیت رکھتی ہے۔ اگر اس دلچسپیوں، فطری تقاضوں اور جذبات سے فائدہ اٹھانے کی معقول کوشش کی جائے تو وہ راہ پر آسکتی ہیں۔ یعنی ان کی رضا جوئی کے بجائے انہیں اپنے تابع کیا جائے اور ان پر اپنا زور چلایا جائے۔ کیوں کہ شخصی موجودات خواہ انسان ہوں کہ دیوتا انجام کار انہی غیر شخصی قوتوں کے تابع ہوتی ہیں جو عالم کی تمام اشیاء نظم و ضبط قائم رکھتی ہیں جسے ان ہستیوں سے کا لینا آتا ہے اور وہ مناسب رسوم و جنتر منتر کے ذریعے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہندؤں کی تری مورتی یا تثلث جو برھما (خالق) وشنو (حیات و بقا کا دیوتا) اور شیو (تخریب و فنا اور حیات نو کا دیوتا) پر مشتمل ہے آج بھی جادوگروں کے تابع چلی آرہی ہے۔ جو اپنے منتروں کے ذریعے ان پر تسلط جماکر انہیں احکامت کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ ہندؤں کا مقولہ ہے کہ کائنات دیوتاؤں کے تابع ہے، دیوتا منتروں کے تابع اور منتر برہمنوں کے تابع اس لئے برہمن ہمارے دیوتا ہیں۔
جب تقدس کی حامل شخصیت اپنی فسوں سازی سے برتر ہستیوں (دیوتاؤں) کو اپنے قبضہ میں کر لیتی ہے تو انہیں ربانی تقدس ہوجاتا ہے اور وہ بھی برتر ہستی ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب انسان خدا کے روپ میں جنم لیتا ہے۔ جس کثرت سے ہندوستان نے انسانی خدا پیدا کئے ہیں وہ شاید ہی کسی اور ملک نے پیدا کئے ہوں گے۔ بقول جارج فریزر کے برصغیر میں گوسی سے لے کر بادشاہ تک کوئی ایسا طبقہ ایسا نہیں ہے جس میں ربویت کی ارزانی نہ ہوئی ہو۔ جن میں ملکہ وکٹوریا، جنرل نکل سین جیسی ہستیاں شامل ہیں اور مغل بادشاہ بھی شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے برصغیر میں اسلام قبول کرنے والے بھی فوق البشتر یا برتر قوتوں اور ان کی رضا جوئی کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان مقتدد ہستیوں کو فطرت اور واقعات کا رخ موڑ نے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہی سبب پیروں اور مزاروں کی اہمیت برقرار ہے اور تسلیم کیا جاتا ہے کہ ان کے قبصے میں فطرت ہے جسے موڑ کر جسے واقعات کو موڑنے پر پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ گویا صنم کدہ ڈھے گیا مگر بت دلوں میں آویزاں رہے اور اگرچہ انہوں نے مذہب اور مذہب کی ظاہری پابندی اور اس کے اصولوں کا زبانی اقرار ضرور کرلیا لیکن ان کے ذہنوں پر ماضی کے افکار اور توہمات کے پردے بدستور پڑے رہے اور ان توہمات کو مذہب ممنوع قرار تو دے سکتا ہے لیکن وہ ان کے ذہن اور مزاج میں رچھ بسے ہوئے ہیں اور تو مذہب ان کی بیچ کنی نہیں کرسکتا ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے بعد بھی ان ذہنوں اور خیالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور اسی کو جزو ایمان بنایا ہوا ہے کہ یہ تقدس کی حامل شخصیت اپنی فسوں سازی سے فطرت اور قدرت کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے یا ڈھالنے پر قادر ہیں اور اسی عقیدے نے ان شخیصات کو ربانی تقدس بخشا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں میں جو توقیر و احترام پیروں و مزاروں کی ہوتی ہے۔ وہ یہی تقدس ربانی ہوتا ہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ ہستیاں جو ربانی تقدس کے حامل ہیں اور ان کے قبضے میں فطرت عالم اور واقعات کو موڑنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اس لیے لوگ ان کی رضا جوئی کو اپنی بقاء و ترقی کا سبب سمجھتے ہوئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ وہ ربانی تقدس کی حامل شخصیات جو کہ مذہبی تقدس یا ملکوتی تقدس کی مالک بھی ہیں اور ان سے بہت سی مادرائی قوتیں منسوب کی جاتی ہیں اور اس طبقہ کے ربانی تقدس کے پیش نظر ان کے کوتا بینی یا کوتا ذہنیت نے ایسی داستانیں تخلیق کی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ برتر ہستیاں اس کی رضا کے تابع یا قدرت میں ہوتی ہیں۔ یہی سبب ہے یہاں کے لوگوں میں سیّد یا مذہبی طبقہ کا وہی درجہ ہے جو ہندؤں میں رشی، مہنتوں اور برہمنوں کا ہے۔ کیوں کہ یہی طبقہ ہے جو ان پرتر ہستیوں کی نمائندگی کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مہربان ہوجائیں تو ہر مشکل دور ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ فطرت اور قدرت ان کے تابع میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان سے مسلسل تعویزوں، گنڈوں اور دعاؤں کی التجا کی جاتی ہے۔