اردو میں تقابلی ادب کا زیادہ چلن نہیں ہے۔ جامعات کے شعبہ اردو میں تقابلی ادب پر زیادہ توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ اس کو سرسری انداز میں لیا جاتا ہے۔اور نہ اس کو ایک علحیدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
تقابلی ادب ایک تعلیمی نصابی میدان ہے مگر ادب کے حوالے سے ایک موثر تحقیقی اور انتقادی پیمانہ بھی ہے۔ یہ وہ میدان ہے جو لسانی ، قومی ، جغرافیائی ، اور نظم و ضبط کی حدود میں ادب اور ثقافتی اظہار کے مطالعے سے بھی متعلق ہے۔ تقابلی ادب "بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے کی طرح ہی ایک کردار ادا کرتا ہے ، لیکن زبانوں اور فنکارانہ روایات کے ساتھ کام کرتا ہے ، تاکہ ثقافتوں کو 'اندر سے' سمجھا جائے اگرچہ اکثریہ مختلف زبانوں کے کاموں کے ساتھ مشق کیا جاتا ہے ، اگر تقابلی ادب بھی اسی زبان کے کاموں پر پیش کیا جاسکتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے عام طور پر مختلف زبانیں اور خاص طور پر ایک دوسرے کے اثرات کے دو یا دو سے زیادہ قومی ثقافتوں کے ادب کے باہمی تعلقات کا مطالعہ ہے۔ ادبی ، نظریاتی اور ثقافتی علوم میں اختراعی کاموں میں سب سے آگے کھڑے ہوئے ، تقابلی ادب انسانیت کے سب سے پُرجوش شعبے میں سے ایک ہے۔ نظم و ضبط کے طور پر اس میں غیر معمولی لسانی قابلیت ، نظریاتی علم اور اعلی دانشورانہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
تقابلی ادب کے مطالعہ تنقید ، تشریح و تفھیم اور تفاسیر میں قابل قدر اثاثہ ہے ہماری بڑھتی ہوئی عالمی دنیا جو اب ایک گاوں بن چکا ہے جس میں ادبی مطالعہ تقابل یا موازنے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جو اصل میں نئی سوچ کی شجر کاری بھی ہوتی ہے۔ اس کو اضافیت کے نظرئیے کے تقابلی مطالعوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ جہاں اہم سوچ، مضبوط تحریری مہارت، ہنر مندی، ثقافتی شعور، متنی باریکوں اور غیر ملکی زبان کی فہم کی ضروری تصور کی جاتی ہے.اس کے علاوہ ادبی اور تنقیدی متن یا نصوص میں معطیات اور مواد معمولی یا عمیق انداز سے موازنہ یا تقابل ادبی مطالعہ فراہم کرتا ہے۔ اردو میں شبلی نعمانی کی کتاب " موازنہ انیس و دبیر" اس کی بہترین مثال ہے۔ اردور میں عبد الرحمان بجنوری ، کلیم الدیں احمد ، امتیاز علی خان عرشی رام پوری کے نظریاتی تنقیدی اور فکری نظریات اردو میں بڑے معیاری نوعیت کے ہیں۔ اس حوالے سے عبد الستار دلوی کی کتاب "ادبی و لسانی تحقیق اور تقابلی ادب موازنہ" ایک عمدہ کتاب ہے۔ سارا عمر نے" چارلس ڈکنز اور شوکت صدیقی کے افسانوی ادب کا تقابلی مطالعہ" کیا ہے۔ کہکشاں پروین نے " منٹو اور بیدی: تقابلی مطالعہ" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ ۔۔۔۔" اُردو تراجمِ قرآن کا تقابلی مطالعہ " کے نام سے مجید اللہ قادری نے ایک بہترین کتاب لکھی ہے ۔ جس کے مندرجات یہ ہیں:
۱۔ پیش لفظ
۲۔ فن ترجمہ اور اس کے بنیادی اصول
۳۔ تفسیر و ترجمہ قرآن کے لئے شرائط
۴۔ مختصر تاریخ اردو ترجمہ قرآن
۵۔ چند معروف اردو مترجمین قرآن کا مختصر علمی تعارف
۶۔امام احمد رضا اور ترجمہ کنز الایمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تقابلی ادب اس کے برعکس ثقافت اور زندگی میں استعمال جو کیا سب سے زیادہ عام اقسام میں سے ہیں. "ہیومینٹیز کے طریقہ کار" کے لیے ان کے بعد کے اشاروں اور یاداشتوں میں بقول باختن متن صرف دوسرے سیاق و سباق کے ساتھ رابطے میں رہ سکتے ہیں انھون نے اس کی نشاندہی کی. انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت کے لئے ان کے شروع ہو رہا رابطے کا نقطہ تھا اور خیال کیا.کہ یہ تقابلی ادب کے اہم موضوع کے طور پر کام کرتا ہے. یہ تقابلی متن کی تفہیم کے سب سے اہم طریقہ کار ہے. جو مقابلے کے تخلیقی طریقہ کار کے حصے کے طور پر ایک علامتی معنی کو جنم دیتا ہے. انہوں symbolization اور استعارہ کے ساتھ منسلک ہیں.لسانی سوچ کے اہم محرکات میں سے ایک کے احاطہ کے طریقہ obschedistsiplinarny ہے اس حوالے سے مصنفین تقابلی مطالعے کہ ذکر کیا ہے. تقابل اصول وسیع پیمانے پر معاشرتی عمل کے مطالعہ میں استعمال کیا جاتا ہے. خاص طور پر، یہ تعلیمی، سماجی، سیاسی، بین الاقوامی قانونی اثرات کا تجزیہ میں استعمال کیا جاتا ہے مگر ادبی تقابلی ادب کے مطالعوں میں یہ نکات کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
*غیر ملکی زبان میں مہارت
**ثقافتی اختلافات اور تنوع کی ایک وسیع اور جدید ترین تفہیم
***وسیع النظر تناظر
**** تاریخ، بشری اور فلسفیانہ علوم سے آگاہی۔
****تجزیاتی اور تنقیدی زہن کا مالک ہونا
تقابلی ادب انسانی اظہار کے تمام طریقوں کا مطالعہ ہے: زبانی ، تحریری ، تصویری۔ جس میں فلم اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ تقابلی ادب کے بڑے حصے متعدد ثقافتوں اور شعبوں میں ماہر مالا مال ہوجاتے ہیں۔مغرب میں اساتذہ، طلبا، محققین، ناقدین ،ادبی نظریہ دان بصری میڈیا ، صنف اور جنسییت ، ادبی تاریخ ، نوآبادیات ، انسانی حقوق اور عالمی سنسرشپ ، پوسٹ کولونیل اورdiaspora اسٹڈیز ، ادبی نظریہ / تھیوری ، فلم ، اور ترجمے جیسے موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ۔۔۔ صنف ، ادوار ، تھیم ، زبان اور نظریہ جیسے عام طور پر ادبی علوم کی ترغیب دینے والے عناصر پر فوکس کرتے ہوئے تقابلی ادب بھی اس حد تک ان سوالات کی توسیع کرتا ہے جو بشریات ، آرٹ ہسٹری ، فلم اور میڈیا اسٹڈیز ، صنف اسٹڈیز جیسے دیگر مضامین سے وابستہ ہیں۔ تاریخ ، اور فلسفہ۔ نصابیات کو ادبی اور ثقافتی شکلوں ، موضوعات اور نقل و حرکت کی تاریخی اور نظریاتی تفہیم دونوں کے ساتھ فراہم کئے جاتے ہیں۔ بین الضابطہ تحقیق اور تدریسی شعبے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے تقابلی ادب ایک فکری اور فطری نکتہ ہوتا ہے۔ جس کے آس پاس جدید زبان اور ادبی علوم کی حدود کو تلاش کرنا بھی ہوتا ہے۔
**تقابلی ادب مختلف ثقافتوں ، قوموں اور انواع کے ادب کے مطالعے پر مرکوز ہے ، اور ادب اور ثقافتی اظہار کی دیگر اقسام کے مابین تعلقات کو تلاش کرتا ہے۔ تقابلی ادب ایسے سوالات کھڑے کرتا ہے جیسے ، معاشرے میں ادب کی کیا جگہ ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ ادب اور فن کو بنانے کی دوسری صورتوں کے سلسلے میں کس طرح تبدیل ہوتا ہے؟ ادب اقدار ، معاشرتی تحریکوں ، یا سیاسی سیاق و سباق میں کس طرح کی تشکیل اور اس کا جواب دیتا ہے؟
اگر آپ کو ادب سے دلچسپی ہے ، اور آپ انگریزی کے علاوہ کسی ایک زبان کی کمان بھی حاصل کرسکتے ہیں یا حاصل کرسکتے ہیں تو ، تقابلی ادب آپ کے لیے مطالعے کا مفید نصاب ہوگا۔ تقابلی ادب کے مطالعے کے انتخاب کے لئے دوسری ادبی روایات اور دوسری زبان میں جدید صلاحیتوں کا مرکوز مطالعہ ضروری ہے۔ تقابلی ادب کے طالب علم یا نقاد کی حیثیت سے متعدد ثقافتی سیاق و سباق ، تاریخی ادوار یا ادبی تحریکوں سے متن کی تعلیم حاصل کرنا ضراری ہے۔عموما ثقافتی ، لسانی ، اور قومی حدود میں تقابل ، ترجمہ اور ترسیل کے مزید پیچیدہ سوالات بھی شاملکئے جاتے ہیں۔ اور دیگر مضامین (جیسے دینی علوم ، عمرانیات، بشریات ،فلسفہ ، نسلی علوم وغیرہ ) اور فن اور ثقافتی کی دیگر اقسام کے سلسلے میں ادب کا مطالعہ کریں گے۔ پروڈکشن (جیسے ، فلم ، ڈیجیٹل کلچر ، کارکردگی)۔ مزید یہ کہ تقابلی ادب میں تاریخی اور عصری ادبی نظریہ اور تنقید کا مطالعہ بھی شامل ہے۔
تقابلی ادب' کی اصطلاح کی وضاحت کرنا مشکل ہے کیوں کہ اس کی ترقی ایک یا دو نہیں بلکہ کیثر جہت ہوتی ہے
*ایک ہی وقت میں مقابلے میں دو سے بھی زیادہ ادب۔ یہ اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے
* تقابلی مطالعہ کرنے والے شخص کو کثیر جہتی مشکل کام کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے
*تقابلی ادب کے پہلوں جیسے لسانی ، ثقافتی ، مذہبی ، معاشی ، معاشرتی
اور مختلف معاشروں کے تاریخی عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
*"تقابلی ادب" کی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔
*نام.یا اسم علامتی طور پر ، تقابلی ادب کی اصطلاح کسی بھی ادبی تخلیق یا نقد کو معنی دیتی ہے ۔
* جب کسی دوسرے ادبی کام یا کام کے ساتھ موازنہ یا تقابل کیا جائےتوتقابلی ادب کسی بھی دو یا اس سے زیادہ کے درمیان باہمی تعلقات کا مطالعہ بن جاتا ہے۔
* تقابلی مطالعہ کیلئے ہمیں ذرائع ، موضوعات ، خرافات ، فارم ، فنکارانہ حکمت عملی ،معاشرتی اور مذہبی تحریکوں اور رجحانات کو مدنظر رکھنالازمی ہو جاتا ہے۔
*اہم نقطہ نظر اور تفتیش سے پتہ چل جائے گا ، مماثلت اور مماثلت کے مختلف کاموں میں جونقاد، ایب یا محقق نے موازنہ اور مقصد کے لئے انجام دیئے ہوتے ہیں ۔
*جواز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اس کے نقطہ نظر کو غیر جانبدار اور غیر متعصبانہ ہونا چاہئے۔
*آخری اور حتمی سچائی تک پہنچنے کے لیے صرف اس کا خلوص اور مخلصانہ انداز ہی اسے سرخرو کرتا ہے۔
*ننگے سچ یا قدرتی نتائج کو سامنے رکھیں اور یہ واقعی تقابلی کا مقصد ہوتا ہے۔
ایک سال قبل مرکز برائے مطالعات عربی و افریقی جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی نے کیرالا یونیورسٹی کے اشتراک سے "تقابلی ادب:نظریہ و تطبیق " کے موضوع پر 22 اور 23 اگست 2020 کو"دو روزہ عالمی ویبنار کا انعقاد زوم پلیٹ فارم پر کیا۔ اس عالمی ویبنار میں ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب مصر، یمن، عرب امارات، الجیریا، نائجیریا ، انڈونیشیا و بنگلہ دیش غیرہ سے متعدد دانشوروں اور پروفیسروں نے حصہ لیا۔ ،