طنز و مزاح ، اودھ پنچ اور سوشل میڈیا
( دیوارِفیس بک کے فورم ' بزم یاران اردو ادب ' کی کتاب ' نقش پاے یوسفی ' پر تبصرہ )
برقی فورم بزم یاران اردو ادب نے جب اپریل 2016ء میں خاکہ نگاری کے حوالے سے اسے ’مشتاق احمد یوسفی‘ کے نام سے نتھی کرتے ہوئے خاکہ نگاری کا اِیونٹ منعقد کرانے کا اعلان کیا تھا تو مجھے پہلا خیال یہ آیا تھا کہ یوسفی ہی کیوں ؟ ان کی تحاریر میں خاکہ نگاری آٹے میں نمک کے برابر ہے ہاں ان کی ظرافت نگاری اپنی جگہ مسلم ہے ۔ خاکہ نگاری میں اور بھی کئی نام اہم ہیں پھر کہیں مجھے یہ نظر آیا کہ بزم یاران اردو ادب نے ان کی کتاب ’ چراغ تلے ‘ کے ’ پہلا پتھر‘ کو اپنے تیئں’ ظرافتی خاکہ نگاری‘ کے حوالے سے نصابی حیثیت بناتے ہوئے اپنے اس اِیونٹ کو ’ نقش پائے یوسفی ‘ کا نام دیا اور لکھنے والوں کو دعوت دی ۔ شاید اس کی وجہ ان کا تاحال حیات ہونا ہو کیونکہ دیگر تو مر مرا گئے ورنہ ظریف خاکہ نگاری میں بڑے نام تو اور بھی ہیں ۔
میں اس اِیونٹ میں شامل تحاریر پر نظر ڈالتا رہا اور بار بار میرا خیال ’ اودھ پنچ ‘ کی طرف جاتا رہا جسے عمومی طور ہر اردو زبان کا پہلا اخبار/ پہلا جریدہ مانا جاتا ہے جس کا مقصد بظاہر ’ ظرافت نگاری ‘ کو بڑھاوا دینا تھا ( یاد رہے کہ برصغیر میں پہلا مزاحیہ ہفت روزہ ’ پرچہ ‘ رامپور سے ’ مذاق‘ کے نام سے1855 ء میں نکلا تھا ۔ اسے منشی محمد حسین نے لکھنوٗ سے 1877 ء میں جاری کیا تھا جن کا درپردہ مقصد سر سید تحریک پر رد عمل کا اظہار اور ان کی سرکردگی میں مغرب کی مداح سرائی کو ہدف بنا کر ٹھٹھہ کرنا تھا ۔ سیاست میں منشی محمد حسین ' کانگریسی ' تھے لیکن ادب میں ' لکھنوٗی تھے ۔ یہ ’ پنچ‘ تواتر سے 36 برس نکلا ، 1934 ء میں پھر نکلا بند ہوا ، پھر نکل کر ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا لیکن اس نے صحافت میں مزاح نگاری کو ایسی ہوا دی کہ برصغیر بھر میں درجنوں ایسے ’ پرچے‘ نکل آئے جن میں سے چار تو لاہور سے نکلتے تھے اور تو اور سیالکوٹ جیسے چھوٹے شہر سے بھی دو نکلتے تھے لیکن ان کی عمر کچھ زیادہ نہ ہوتی تھی ۔ جس کے پاس کاٹھ کا پریس اور چار پتھر ہوتے تھے وہ اخبار نکال لیتا تھا ۔ ایک پتھر بھی ٹوٹتا تو اخبار بند ، پتھر نہ بھی ٹوٹتا ، پریس کی چُول ہلنے پر بھی نکالنے والے کو اسے بند کرنا پڑتا تھا ۔ ’ اودھ پنچ ‘ کے علاوہ دو اخبار اور اہم رہے ؛ ایک ریاض خیرآبادی کا ’ فتنہ و عطر فتنہ‘ جو1885 ء میں ’ فتنہ‘ ( جوریاض الاخبارکا سولہ صفحات کا ضمیمہ ہوا کرتا تھا ) میں ’ عطر فتنہ ‘ کے نام سے مزید سولہ صفحات شامل کرکے وجود میں آیا تھا ۔ یہ کچھ تعطل کے ساتھ 1911 ء تک نکلتا رہا ۔ پوسٹ کارڈ سائز کے صفحات والا یہ ’ ظرافت نگاری ‘ سے بھرپور رسالہ اپنے وقت کا ’ فتنہ ‘ تھا جو ذاتیات سے ہٹ کرخاکہ نگاری میں خوب پگڑی اچھالا کرتا تھا ۔ دوسرا شوکت تھانوی (1904ء تا 1963ء ) کی ادارت میں ’ سرپنچ ‘ کا اجراء تھا جوانہوں نے 1931 ء میں کیا تھا ۔ شوکت تھانوی کو ’ بسیار نویس‘ کہا جاتا ہے ہر طرح کی نثر لکھی اور شاعری بھی کی ۔ ساٹھ برس عمر تو نہ پائی لیکن ساٹھ کتابیں ضرور شائع ہوئیں ایک فلم ’ گلنار‘ بھی ان کے نام سے جڑی ہوئی ہے ۔’ شیش محل ‘ ان کے لکھے 113 مزاحیہ شخصی خاکوں پر مبنی کتاب کا نام ہے ۔ جب شوکت تھانوی نے یہ ’ پرچہ ‘ نکالا تھا تو یوسفی صاحب شاید نو دس برس کے ہوں گے اور ان کی پہلی کتاب ’ چراغ تلے‘ کہیں 1961 ء میں ہی سامنے آ ئی تھی ۔ وہ شوکت تھانوی کی طرح زود نویس نہیں ہیں کم لکھا لیکن اچھا لکھا اسی کارن چار کتابیں ہی سامنے آ پائیں ۔ پانچویں یعنی ’ شام شعر یاراں ‘ کو وہ خود اس طرح ’ own ‘ نہیں کرتے جس طرح پہلی چار کو اپنی تخلیق و تالیف مانتے ہیں ۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ اردو ادب میں سجاد علی انصاری ، فرحت اللہ بیگ ، مُلا رموزی ، خواجہ حسن نظامی ، پطرس بخاری ، عظیم بیگ چغتائی کچھ ایسے نام ہیں جن کے بغیر ظرافت نگاری نامکمل ہے اور امتیاز علی تاج کا ’ چچا چھکن ‘ کیسے بھلایا جا سکتا ہے ۔ طنز و مزاح میں تنوع کے حوالے سے ’ حاجی لق لق ‘ جیسے قد آور کالم نگار کا نام تو آج کی نسل کو معلوم بھی نہ ہو گا ۔ اور آگے آئیں تو شفیق الرحمان ، ابن انشاء ، کرنل محمد خان اور ابراہیم جلیس کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے ۔ محمد خالد اخترکے ’ چچا عبدالباقی‘ میں آپ ’ چچا چھکن‘ اور ’ قاضی جی‘ ( شوکت تھانوی کا ریڈیائی کردار) کا تسلسل دیکھ سکتے ہیں ویسے ہی جیسے مشتاق احمد یوسفی پر پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کی چھاپ نمایاں ہے گو وہ اپنے اسلوب نگر کے بادشاہ ہیں اور متضاد الفاظ کے ملاپ سے اچھا مزاح تخلیق کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا پیراگراف لکھنے کا مقصد صرف یہ یاد دہانی کرانا تھا کہ مشتاق احمد یوسفی کو ’ Isolation ‘ میں نہ دیکھا جائے ، وہ ’ ظرافت ‘ نامی اس بڑے پریوار کا حصہ ہیں جس میں پشت در پشت کئی مزاح نگار موجود ہیں۔ 1921 ء میں ان کی پیدائش سے لگ بھگ پچاس سال قبل اردو میں ظرافت نگاری در آئی تھی اور ظریف خاکہ نگاری کے مختلف النوع تجربات ہوتے چلے آئے تھے ۔ایسے میں ’ پہلا پتھر‘ کو اپنے تیئں’ ظرافتی خاکہ نگاری‘ کے حوالے سے نصابی حیثیت بناتے ہوئے اپنے اس اِیونٹ کو محدود کرنا مناسب نہ تھا ۔ اپریل / مئی 2016 ء میں جب یہ اِیونٹ منعقد کروایا گیا تو وہ 95 برس کے تھے اور 2014 ء میں چھپی اپنی تحاریر مبنی کتاب ’ شام شعر یاراں ‘ پر بارہا برہم بھی رہے تھے ( یاد رہے کہ اس کتاب کی تالیف انہوں نے خود نہیں کی تھی اور اس کے منظر عام پر آنے پر تنازع بھی کھڑا ہوا تھا ) اور ظرافت کا ’ لحاف‘ جو کبھی نفاست سے دُھنکی روئی سے بنایا جاتا تھا اب نت نئے ’ Comferters ‘ کی صورتیں اختیار کر چکا تھا ، ایسے میں ’یوسفی شناسی‘ اپنی جگہ شاید بعد میں ایک اِیونٹ بن سکتی تھی اگر پہلے’ ظریف خاکہ نگاری شناسی‘ پر ایک عمومی اِیونٹ منعقد کروا لیا جاتا تو بہتر ہوتا ۔
بزم یاران اردو ادب کا اِیونٹ 32 روز جاری رہا اور اس میں 38 تحاریر پیش ہوئیں جن میں سے 222 کا انتخاب ’ خاکہ نگاری ؛ نقش پائے یوسفی، بنام عہدیوسفی ‘ نامی کتاب کی شکل میں میرے سامنے ہے ۔ اس میں منتخب تحاریر کے علاوہ ناصر خاں ناصر ، امریکہ کا ’ پس و پیش لفظ ‘ اور طارق حبیب ، استاد اردو سرگودھا یونیورسٹی کا تبصرہ نما مضمون ’ انداز زلیخائی ‘ بھی شامل ہے ۔ لکھنے والوں کے تعارفی صفحات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں زیادہ تعداد نوآموز لکھاریوں کی ہیں جن میں سے بیشتر وہ ہیں جنہوں نے برقی ادبی فورمز پر ہی اپنی تحاریر کو اُجلا کیا ہے ۔ یہ انتخاب کیسا ہے ؟ اس بارے میں طارق حبیب خود اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ؛
۔ ۔ ۔ یوسفی کے خاکہ نگاری کے وصف کے زیر اثر لکھی گئی خاکہ نما تحریریں ساخت میں بہت حد تک یکسانیت کے باوجود اپنی اپنی جگہ انفرادی حیثیت کی حامل بھی ہیں ۔ ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی بات ، کوئی نہ کوئی جملہ ایسا ضرور ہے جو قاری کو بے اختیار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔
ان کا یہ تبصرہ مجھے ڈاکٹر سلیم اختر ، جو کالج میں کچھ عرصہ میرے اردو کے استاد بھی رہے، کی یاد دلاتا ہے ۔ ان کا ایک جملہ یہاں پیش کرتا ہوں جو انہوں نے ایک نثر نگار کے بارے میں لکھا ہوا ہے ؛
’ ۔ ۔ ۔ ۔‘ خشک اور روکھی پھیکی نثر لکھتے تھے جس میں کہیں کہیں طنز اور مزاح کے جگنو اپنی چمک دکھا جاتے ہیں اور بس ۔ ۔ ۔ ۔
طارق حبیب اور ڈاکٹر سلیم اخترکا لکھا یہاں پیش کرکے میں بین السطور کیا کہہ رہا ہوں آپ خود سمجھ سکتے ہیں ۔ طارق حبیب آگے کہیں ’ یوسفی شناسی‘ کے تناظر میں اسے کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ میں اسے ’ ناکامی‘ گردانتا ہوں ۔ یہ ایک عمدہ کامیابی بن سکتی تھی بشرطیکہ اسے پابندِ ’ پہلا پتھر‘ نہ کیا جاتا بہرحال اس فورم کی پہلی کاوش اور اس کے نتیجے میں لکھی گئی 38 تحاریر اور ان کے انتخاب پر مبنی کتاب کا شائع کرنا سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے اشتراک کی ایک منفرد کوشش ہے جس کی داد اس فورم کی انتظامیہ کو نہ دینا زیادتی ہو گی ۔
172 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اچھے کاغذ پر چھپائی ، مضبوط جلد اور اچھے سرورق کے ساتھ V4 پبلیکیشنز نے 6 کورٹ سٹریٹ ، لاہور ، پاکستان سے برقی ادبی فورم ’ بزم یاران اُردو ادب ‘ کے لئے شائع کی ہے . کتاب کی اشاعت کے لئے ڈیجیٹل امیجنگ کے ذریعے پلیٹ میکنگ کا سہارا لیا گیا ہے جو آج کے دور کی جدید ترین تکنیک ہے لیکن یہ ' ہائی ریزولیوشن ' تکینک ہے ، کم ریزولیوشن کی تصاویر کے ساتھ اردو ٹیکسٹ کی کورل یا اسی طرح کی سافٹ وئیر میں ' ڈیجیٹل امیج ' کی تیاری میں ٹیکسٹ کے کئی الفاظ یا تو انتہائی مدہم ہو گئے ہیں یا مِٹ گئے ہیں ۔ ابھی ڈیجیٹل امیجنگ سے براہ راست پلیٹ میکنگ اور اس سے چھپائی کے تال میل میں خاصا وقت لگے گا ، دوسرے یہ پراسس مہنگا بھی ہے ۔ مروجہ طریقہ اشاعت اپنا کر کتاب کی قیمت کم کی جا سکتی تھی ۔ کتاب کی قیمت 350/- پاکستانی روپے ہے ۔ سرورق کس نے بنایا ہے اس کا ذکر کتاب میں نہیں ہے ، شنید ہے کہ یہ پبلشر طارق عزیز کا بنایا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ضمیمہ:
دوست اور خودکشی
میری اک دوست ہے جو خودکشی کرنا چاہتی ہے ۔ دل کی کمزور ہے مختلف حیلوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنی خواہش کو ٹال لیتی رہی ہے ۔ آج کل بہت دکھی ہے ۔ زندگی میں مرد تو کئی آئے لیکن شادی پانچ بار کی جو ہربار ناکام رہی ۔ آخری بھی کچھ ماہ ہی چل پائی ۔ اس حوالے سے خود کو الزبتھ ٹیلر سے ملاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے رچرڈ برٹن کے ساتھ دو بار شادی کے علاوہ چھ اور مردوں سے شادی کی تھی ، میں نے تو ابھی پانچ تک گنتی پوری کی ہے اور اپنے کسی سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح بھی نہیں کیا ہے ۔ بانجھ ہے سو اولاد نہیں اس لئے مزید شادیاں کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ۔ چونکہ بچے پیدا نہیں کئے اس لئے کہتی ہے کہ میرا تو کچھ بھی نہیں بگڑا ۔ ایک بچی گود لی تھی ، پال پوس کر بڑا کیا اور بیاہ دی ۔ اس کی شادی کے دنوں میں ہی اپنا پانچواں بیاہ رچایا اس لئے بچی کا گھر بھی صحیح طور پر بس نہیں پایا ۔ پا نچویں شوہر کی پہلی بیوی کا گلٹ (guilt) بھی ہے کہ اس پہ سوتن بن بیٹھی ۔ ہمیشہ سے شاہ خرچ رہی ہے ۔ خاوندوں ، یار دوستوں اور بنکوں سے اتنا قرضہ لے رکھا ہے کہ عمر بیت جائے پر اتر نہ پائے ۔ قرضے کا کچھ پیسہ آگے انویسٹ کر رکھا ہے جہاں سے منافع آنا تو کیا، اصل بھی ڈوبنے کو ہے ۔ اسی لئے تو دُکھی ہے اور بہ مائل خودکشی ہے ۔ پہلے خاوند نے جب سوتن لا بٹھائی تھی تو بھی خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن جنہیں نیند کی گولیاں سمجھا تھا وہ اسپرین کی گولیاں نکلیں ، ویسے ڈاکٹروں نے احتیاط کے طور پر معدہ صاف کر دیا تھا ۔ مجھ سے خودکشی کا ذکر کیا اور مختلف آپشنز (options) پر غور کرتی رہی ۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے مشورہ دیا کہ فلوبئیر کے ناول’ مادام بواری‘ کی ہیروین’ ایمابواری‘ کی ہی پیروی کر لو۔ بولی وہ تو قصے کہانی کی بات ہے ، دوسرے آرسینک کھا کر میں خودکشی کا رومانس ختم نہیں کرنا چاہتی ۔ کچھ اصل لوگوں کے بارے میں اور کچھ دوسرے طریقے بتاﺅ چنانچہ کچھ اصل احوال ِ خودکشی اکٹھے کئے ہیں کہ شاید ان میں سے اسے کوئی طریقہ پسند آ جائے اور یہ جان کر اس کا حوصلہ بلند ہو کہ کتنے ہی بڑے بڑے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ قدم اٹھا یا ہوا ہے سو ڈرنے کی کوئی بات نہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔