سوشلزم کے خاتمے کے بعد اکثر مارکسسٹ، سوشلسٹ، کامریڈز نے اس جدوجہد سے راہیں جدا کرلیں کوئی خود کو لبرل، سیکولر کی اصطلاحات میں پناہ گزین کرنے لگا تو کوئی صوفیت میں منہ چھپانے لگا وہ وقت آگیا جب سوشلزم، کمیونزم ناکام قرار دیا جاچکا. تو اب کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا تھا جو بائیں بازو کی قیادت بخوبی نبھاتا نظر آتا اسی دور میں تنویر گوندل نے ڈاکٹر لال خان بن کر اس نظریے سے غلط ابہامات کو بیخ کنی اور پاکستان میں سوشل ازم کی جدوجہد کا آغاز کیا.
ڈاکٹر لال خان کی ولادت 1956 عیسوی میں پنجاب کی سرزمین پر ہوئی. آپ نے اپنی تعلیم کے دوران ہی لال خان کا روپ دھار لیا. آپ اس وقت جامعہ کے طالب علم تھے جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر مارشل لاء لگایا گیا تب آپ کھل کر سامنے آئے اور اپنی جدوجہد کا آغاز کیا. ایک سال کی قید و بند کی صعوبت سے بھی فیض یاب ہوئے. دوران احتجاج زخمی بھی ہوئے. آپ کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا گیا. اس دوران آپ کو نیدرلینڈ کی سوشلسٹ ریاست نے سیاسی پناہ دی اور وہیں سے آپ نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی. بعدازاں 1988 عیسوی کو آپ وطن واپس لوٹے. میڈیکل کی فیلڈ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد انقلابی سیاست میں قدم دھر لئے.
ڈاکٹر لال خان کے نزدیک انقلاب جغرافیائی حدود کو سبوتاژ کردیتا ہے اور سماج کی کوک سے ابھر کر نیچے سے اوپر بدل کر رکھ دیتے ہیں جھنجھوڑ دیتے ہیں نہ ریاستیں رہتی ہیں نہ فوج رہتی ہے. آپ کہتے ہیں تھے کہ انقلاب کوئی حکومتی تبدیلی نہیں ہوتی,انقلاب کوئی افتخار چوہدری کا فلم نہیں ہوتا,
انقلاب کوی پاوار نہیں ہوتی,انقلاب کوی تبدیلی کا نام نہیں,انقلاب کوی عہدے کا نام نہیں ہے. انقلاب تاریخ بدلتے ہیں انقلاب سوچ بدلتے ہے انقلاب معیار بدلتے ہے نفسیات بدلتے ہیں نظریات بدلتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جغرافیائی حدود بدلتے ہے. انقلاب آئے گا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان رہے گا نہیں بلکہ سوشلسٹ فیڈریشن ہوگی. یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں انقلاب آئے اور ہندوستان، افغانستان نہ بدلیں.
ڈاکٹر لال خان نے اکثر جگہوں پر اس بیانیے کی وضاحت جو اکثر احباب غلط فہمی میں پیش کرتے ہیں کہ سوویت یونین ٹوٹنے سے سوشلزم ناکام ہو گیا. آپ نے اکثر فورمز پر اس مدعا کو اٹھایا کہ لینن، ٹراؤٹسکی نے اپنی تصانیف میں اس امر کے متعلق پہلے سے آگہی دے رکھی تھی.
آپ کے نزدیک تقسیمِ برصغیر درست نہیں تھی. پانچ ہزار سال سے مشترکہ ثقافت، سوسائٹی اور تاریخ کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ وہ اس تقسیم سے مسخ نہیں ہوسکتی. آپ سوشلسٹ فیڈریشن کے حق میں تھے جو جغرافیائی حدود کو سبوتاژ کردے. اسی طرح آپ کشمیر کے مسئلے پر بھی کشمیر کے لئے علیحدہ، خود مختار وطن حاصل کرنا چاہتے تھے. اس سلسلے میں آپ نے ایک کانگریس میں یہ موقف پیش کیا تھا.
آپ نے لکھا تھا کہ’’سیاست اور ریاست کے انتشار کی طرح بے ہنگم تعمیرات کا انتشار بھی اس نظام کے موضوعی بحران کی پیداوار ہے۔ جب تک اِس منافع خوری کے نظام اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ کسی شعبے کا ارتقا منصوبہ بندی، ترتیب اور تہذیب کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔ منڈی اور منافع سے پاک منصوبہ بندی کے تحت جب تک پیداوار انسانی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتی‘ یہ معاشرہ کبھی سنور نہیں سکتا، تہذیب اور تمدن کو کبھی جلا نہیں بخشی جا سکتی، انسانی رشتے کبھی مخلص نہیں ہو سکتے اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال سماج اور سہل اجتماعی زندگی کا حصول صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت اور معاشرت سے ہی ممکن ہے۔“
اسی طرح آپ کہتے تھے کہ
” آج کے سامراجی حکمران تو اُن حکمرانوں کی قدروں اور میعار سے بھی گر گئے ہیں جو لنکن اور چرچل جیسے سامراجی حکمرانوں کے تھے۔ اِن حکمرانوں کی شخصیت ، سیاست ، فکر اور اخلاقیات اپنے پُرکھوں اور اپنی حکمران میراث کا بھی مذاق اڑا رھے ہیں ۔ سوال یہ نہیں کہ ماضی کے سرمایہ دارانہ حکمران کوئی بہتر یا مخلص یا خدا نخواستہ عظیم تھے۔ وہ بھی انتہائی ظالم اور سفاک تھے۔ آج کے حکمران بھی ظالم اور سفاک ہیں۔ سوال یہ ھے کہ ان کی سفاکی اور بربریت میں ان کی کمزوری، بے بسی اور لاچارگی ظاہر ہوتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ان کا یہ زوال کوئی حادثاتی یا شخصیاتی نہیں ھے۔ ان کی شخصیت کا یہ جھوٹ ، کھوکھلا پن ، مصنوعیت ، منافقت ، بُزدلی ، کمزوری اور ظالمانہ روش بنیادی طور پر اس پورے نظامِ زر کی مفلوج اور بیمار کیفیت کی غمازی کرتی ھے جس میں داخل ہو کر وہ نسلِ انسانی کو اپنی موت کے چنگل میں جکڑ کر ان کو اذیتوں اور بربادیوں کا شکار کر رہا ھے ۔کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اس قدر مفلوج اور متروک ہو چکا ھے کہ ان حکمرانوں کا ہر اقدام ، ہر پالیسی ، ہر حربہ اور ہر مہم کا نا کام و نا مراد ہونا لازم ھو کر رہ گیا ھے ۔۔۔ ”
آپ دی سٹرگل کے قائدین میں سے تھے اور اس کے ساتھ جڑے رہے. آپ ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر بھی رہے.
آپ کی بہت سی تصانیف بھی منظر عام پر آئیں. جن میں پارٹیشن کین اٹ بی ڈن؟، لبنان اسرائیل وار، پاکستان ادرز سٹوری قابلِ ذکر ہیں. آپ سرطان کے موذی مرض سے جدوجہد کرتے ہوئے فروری 2020 داغِ مفارقت دے گئے.