محلے سے گزرتی چند نوجوان دوشیزه پر گہری نظر ڈال کر بظاہر پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان تنقید کے سخت الفاظ کی بارش کر رہے تھے کہ اچانک قریبی گھر سے بزرگ باہر نکلے۔
کہنے لگے بیٹا اول قصور تو ہمارا ہے کہ ہم اپنی آنکھ اور دماغ کو درست سمت نہیں دے رہے۔
اگر اچانک نظر پڑ ہی گئی ہے تو آپ کے دل و دماغ میں بےحیائی والے الفاظ اور جملے کیوں آئے؟ کیا یہ جملے استعمال ہونے سے پہلے ایک بار بھی نہ سوچا کہ اگر خدانخواستہ یہی نازیبا جملے آپکی بہن،بیٹی یا بہو کے بارے میں کوئی کہہ دے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتے ہیں:وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ (انعام: 151) ’’بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ، خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی۔‘‘
اب یہ سب سن کر نوجوان آگ بگولہ ہوگیا کہ کوئی میرے گھر والوں کے خلاف کیوں بولے گا۔ ہم تو اتنے نیک ہیں کہ اب تک ہمارے گھر کی کوئی شکایت محلے میں نہیں آئی۔
بزرگ نے جواب دیا: بیٹا میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ یا آپکا گھرانہ برا ہے۔ بلکہ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہمارے محلے ، معاشرے یا قوم و ملک کی کوئی بھی بیٹی بری نہیں ہے۔ آپ انکی طرف نگاہ نہ اٹھائیں اور اپنا دل پاک رکھیں۔ آپس میں بیٹھ کر ان کے خلاف منفی خدشہ ظاہر نہ کریں کہ وہ کسی غلط فعل میں مبتلا ہونگی۔ کیونکہ سننے والے اسے سچ سمجھ کر افواہ پھیلا دیتے ہیں جو کہ کئی زندگیاں اسی افواہ کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں۔
جانتے ہو "قرآن پاک" میں افواہ پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی بار بار ہمیں بتائی گئی کہ عہد نبویﷺ میں منافقین افواہ پھیلاتے تھے جس سے اسلام کے پیروکاروں کو نقصان پہنچتا تھا۔
درج بالا مختصر واقعہ سے ہم بہت سارا مفہوم سمجھ سکتے ہیں۔ آج ہماری سوچ اور نظر اس قدر تنگ ہوچکی ہے کہ اپنا احتساب کرنے کی بجائے دوسروں کا "اعمال نامہ" بتاتے ہیں۔
سوشل میڈیا سمیت گلی کوچوں ، محلوں غرض ہر جگہ ہماری خواتین پر کے خلاف کئی نوجوان خرافات بکتے نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا خواتین خودبخود بگڑ جاتی ہیں یا راہ راست کی پٹڑی سے وہ خود اتر جاتی ہیں۔ نہیں نہیں بلکہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے اپنے ناپاک ارادے مکمل کرنے کے لیے عورتوں کو استعمال کرتا ہے۔
جسے شیطان سے تشبیہ دی تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ شیطان گناہ کی طرف مائل کرتا ہے اور کچھ ناپاک مرد بھی۔
اسلام سے قبل خواتین سے متعلق جو بھی نظریات یا روایات تھیں انہیں حضور اقدس ﷺ نے مکمل تبدیل کر دیا۔ نبی پاکﷺ نے کی تعلیمات نے ہم مرد حضرات کی ذمہ داری لگائی کہ ہم ہر اعتبار سے اپنے سماج کی خواتین کی ناموس کا تحفظ یقینی بنائیں۔
یعنی اول گھریلو تربیت اس قدر مضبوط ہو کہ ہمیں اپنی بہن ، بیٹی پر مکمل بھروسہ رہے۔ دوئم معاشرے کے نوجوان مرد کی اتنی اچھی تربیت کریں کہ وہ خواتین کو دیکھتے ہی اپنی نگاہ جھکا لے۔ ان کا راستہ چھوڑ دیں۔ نامحرم کی موجودگی میں اپنی نگاہ اور زبان پر قابو رکھیں۔ اپنی نقل و حرکت اس قدر قابو میں رکھیں سماج کی کسی بیٹی کو اذیت نہ پہنچے۔
اب جہاں کوئی یہ کہے کہ ہر عمل میں مرد حضرات کا قصور نہیں ہے تو ان اتنا کہیں کہ بیٹی کی پیدائش سے لے کر موت تک تمام سہولیات اور تحفظات دینا مرد کا فرض ہے۔
خدا کی قسم وہ مومن بیٹیاں بھی تو جو اللہ اور نبی پاکﷺ کی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہیں۔ انکی تربیت بھی اسی مرد نے ہی کی ہے۔ ان تحفظ بھی اسی مرد نے ہی دیا ہے پھر ان کو کسی قسم ملازمت کسی نامحرم سامنے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
آج خواتین کسی غلط راہ پر ہیں تو وہ صرف اور صرف ان مرد حضرات کی کوتاہیوں کی بدولت۔ جو اپنی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ ہزاروں دلائل اور بہانے کرکے خود کو نیک اور عورت کو بدکار ثابت کر دیتے ہیں۔
معاشرے میں موجود غلیظ خیالات کے حامل افراد کو ہم مرد زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ پھر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر لحاظ سے معاشرے کی ہر بیٹی کو تحفظ دیں۔ ناپاک تعلقات جوڑ کر انکی عزت و ناموس اچھالنے سے گریز کریں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ کریم ذات قبر اور میدان محشر میں ہمارا حساب ضرور لے گا۔
ہمیں بار بار اللہ کے حکم کو ذہن یاد کرنا اور اس عمل کرنے کے لیے خود پر سختی کرنی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...