السلام علیکم دوستو ! اس خاک سار کو لوگ الحاج چودھری محمد نعمت اللہ آنسو کے نام سے جانتے ہیں۔ یوں تو خاک سار کا ذاتی پرنٹنگ پریس کا کام ہے لیکن ادب و سخن سے محبت ادبی حلقوں تک کھینچ کر لے آئی ۔ آج یہاں خاک سار کی اپنی پہچان ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ادبی حلقوں میں ان پرانے ادیبوں کی اجارہ داری ختم ہو۔ یہ لوگ نئے لکھنے والوں کا حق مارتے ہیں اور انھیں اوپر نہیں آنے دیتے۔ اگر کوئی نیا لکھنے والا اچھا لکھ بھی لے تو ایسی تنقیص کرتے ہیں کہ وہ اپنا قلم ہی توڑ لیتا ہے۔ جس پر خاک سار خون کے آنسو روتا ہے۔لہذا اِس سلسلے میں اس فقیر نے ایک ادبی گروپ کی بنیاد رکھی ہے اور ایک افسانوی میلہ منعقد کیا ہے تاکہ نئے چہرے سامنے آئیں اور اردو ادب دامن نئے ہیروں اور تتلیوں سے بھر جائے ۔ اس میلے کی تفصیل یوں ہے کہ ہم آپ سے شرکت کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں لیں گے لیکن فرسٹ پرائز آپ کو ایک لاکھ روپے ملے گا۔ سیکنڈ پرائز 75 ہزار روپے اور تھرڈ پرائز 50 ہزار روپے اور صرف اتنا ہی نہیں؛ پہلے 30 افسانہ نگاروں کو تحفے میں شیلڈز اور کتب دی جائیں گی۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ہم نے سوچا ہے کہ اس میلے کو منفرد بنایا جائے اس لیے بہترین نقاد کو بھی ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ آپ سے درخواست ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اپنے افسانہ نگار دوستوں کو اس گروپ میں مدعوکریں ۔ میرا مقصد ادب کی ترویج ہے۔ نوٹ ؛ تحریر بھیجنے کی آخری تاریخ یکم دسمبر ہے۔
فیس بک پر یہ اشتہار اردو والوں میں یوں پھیلا جیسے جنگل میں آگ۔ کیونکہ آنسو صاحب نے اشتہار سپونسرڈ کرتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کو ٹارگٹ کیا تھا۔
یکم دسمبر سے پہلے آنسو صاحب کے پاس تقریبا 400 تحریریں موصول ہو چکی تھیں اور مزید موصول ہو رہی تھیں۔ انھوں نے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا اور مقررہ تاریخ پر گروپ میں ایک دن میں دو افسانے پوسٹ کرنا شروع کردیے۔ وہ اپنے ایونٹ میں نوجوانوں کی تحریروں کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ انھوں نے اپنے گروپ کے کوور فوٹو کے لیے بہترین گرافکس میں تجریدی تصویر پر یہ عبارت درج کروائی تھی:
" تنقید نہیں اصلاح " لہذا نقادوں کو بھی زیادہ سخت جملے استعمال کرنے سے منع کِیا گیا تھا۔ میلہ اپنے عروج پر تھا۔ ایک ماہ تک یہ ایونٹ جاری رہا ۔ اس طرح مہینے کے اختتام تک کل 62 افسانے شائع کردیے گئے ۔ آنسو صاحب کے خوب چرچے ہورہے تھے کہ انھوں نے بڑی کامیابی سے ایونٹ مکمل کیا اور ایونٹ کے درمیان ایک دو بار ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے لیکن آنسو صاحب نے اپنی کمال مہارت اور بذلہ گفتاری سے معاملات کو سلجھادیا تھا۔ انھوں نے انعامات کی ایک ہفتے بعد منادی کی اور کہا جنوری کے اختتام تک سب کو ان کی شیلڈز، کتابیں اور نقدی پہنچ جائے گی۔
لیکن جنوری کا مہینہ گزر جانے کے باوجود کسی کو ایک روپیہ بھی نہ ملا۔ وقت کی مثال بھی ایک گداگر کی سی ہے۔ جسے اہمیت نہ دو تو خود بہ خود گزر جاتا ہے۔ اگلے سال ان سب نوجوان افسانہ نگاروں کے قدموں تلے سے زمین ہی نکل گئی جب انھوں نے فیس بک پر ایک پبلشر کا اشتہار دیکھا جو کتاب بیچ رہا تھا جس کی فہرست میں اُن نوجوانوں کے افسانے ہی شامل تھے لیکن مصنف کا نام " الحاج چودھری محمد نعمت اللہ آنسو " تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“