تنقید کیوں ہو رہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتہ کا دن مصروفیت میں گزرا، دفتر جانے میں بھی دیر ہوگئی، دوپہر کو میں نے سوچا کہ خاصے دنوں سے بالوں کی کٹنگ نہیں کرائی،لگے ہاتھوں وہ بھی نمٹا دی جائے۔ جس حجام یا باربر سے بال کٹواتا ہوں، اس کا اصرار ہے کہ وہ ہیئر سٹائلسٹ ہے ، اس لئے اسے باربر جیسے فرسودہ ناموں سے نہیں پکارنا چاہیے۔ خیر ہیئر سٹائلسٹ کی دکان یا سیلون پر پہنچا تو ٹی وی باآواز بلند چل رہا تھا اور میاں نواز شریف کا کوٹ مومن والے جلسہ پی ٹی وی پر براہ راست نشر ہو رہا تھا۔ عام طور پر ایسی دکانوںمیں پس پردہ موسیقی چلتی رہتی ہے، مگر لگتا ہے کہ سیاسی تقسیم ہر جگہ اثراندازہوئی ہے۔ وہاں کام کرنے والے ایک دو لڑکے ناک بھوں چڑھا کر تیکھی نظروں سے ٹی وی سکرین پر نظر ڈالتے اور پھر اس طرف پیٹھ کر کے کام میں مصروف ہوجاتے ۔ ممکن ہے وہ انصافین نوجوان ہوں یا پھر ویسے ہی میاں صاحب سے اختلاف ہو، بہرحال سیلون کا مالک بڑے جوش وخروش سے نہ صرف تقریر سن رہا تھا بلکہ مقررین پر ریشہ خطمی بھی ہوئے جا رہا تھا۔ بال کٹواتے ہوئے ہم بھی تقریریں سنتے رہے۔ پہلے مریم بی بی نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز مگر شائستہ لب ولہجے میں مسلم لیگ ن کے مخالفین کو بے بھاﺅ کی سنائیں، پھر میاں نواز شریف نے دھواں دھار تقریر کی۔ میاں صاحب کا گلا بیٹھا ہوا تھا، جب سے ان کے خلاف عدالتی فیصلہ آیا، ایک عجیب سے بیٹھی، بھینچی ہوئی آواز میں وہ عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ زیادہ تقریریں کرنے سے شائد ایسا ہوا یا پھر وہ بات کرتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں، جس سے لہجہ رندھ جاتا ہے۔ خیر میاں صاحب نے مجھے کیوں نکالا ، والے اپنے مخصوص بیانیہ کو آگے بڑھایا اور عدلیہ پر تیر برساتے رہے۔ جلسہ اچھا ہوا، اس لئے نواز شریف صاحب مسرور نظر آ رہے تھے، انہوں نے ایک بار کہہ دیا کہ لگتا ہے پورا کوٹ مومن جلسے
میں آ گیا ہے، بھائیو کسی کو گھر بھی چھوڑا ہے ؟ پھر مزید جذباتی ہوکر کہنے لگے کہ لگتا ہے سرگودھا کے تمام لوگ یہاں آ گئے ہیں، گھر پر کوئی نہیں۔ جلسے سیاستدانوں کو جذباتی کر دیتے ہیں، ورنہ میاں صاحب یہ کیسے بھول سکتے تھے کہ سرگودھا میں پندرہ بیس ہزار لوگ نہیں رہتے بلکہ لاکھوں کی آبادی والا شہر ہے۔ نواز شریف اپنی اکثر تقاریر میں یہ بات کہتے ہیں کہ مخالفین میرے اوپر اس لئے تنقید کرتے ہیں کہ میں ملک کی خدمت کرنا چاہ رہا ہوں ، یہ مجھے تعمیرسے روکنا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس جلسے میں بھی انہوں نے یہ کہا۔ میاں صاحب کی اس بات سے حیرت ہوتی ہے، انہیں کیا واقعی نہیں معلوم کہ ان پر تنقید کیوں ہوتی ہے اور ان کے سیاسی مخالف حلقے کے اعتراضات کیا ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ میاں نواز شریف کے اس قدر مخالف ہوں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی تنقید سے باز نہ آئیں، مگر ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جو معقول منطقی وجوہات کی بنا پر شریف برادران پر تنقید کرتا ہے۔ ان تین چار وجوہات پر بات کرتے ہیں۔
”سٹیٹس کو“کے علمبردار: میاں نواز شریف پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ وہ سٹیٹس کو (Status Quo)کے حامی ہیں۔ جن لوگوں کو اس اصطلاح کا آئیڈیا نہیں ، وہ یہ سمجھ لیں کہ ”سٹیٹس کو“ سے مراد ہے چیزوں کو جوں کا توں رکھنا، انہیں تبدیل نہ کرنا ۔دراصل ہر نظام جب چلنا شروع کرتا ہے تواس میں کچھ خامیاں نظر آتی ہیں، رفتہ رفتہ انہیں دور کرتے ہوئے نظام کو بہتر کیا جاتا ہے۔ یوں چند برسوں یا دو تین عشروں میں وہ نظام پہلے سے بہت بہتر پوزیشن میں آ جاتا ہے ۔ مغربی جمہوری نظام میں اسی انداز سے اصلاحات لائی جاتی رہیں اور آج وہاں صورتحال ہمارے مقابلے میں قابل رشک ہے۔ سٹیٹس کو کی حامی قوتیں البتہ نظام کو بہتر نہیں ہونے دیتیں، دراصل سسٹم کی کمزوریاں انہیں فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیںاور وہ اسی کمزور، وقت کے ساتھ گلتے سڑتے نظام کو باقی رہ کر طویل مدت تک موج کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان اس کی کلاسیکی مثال ہے۔ میاں نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں، سب سے بڑی جماعت کے سربرا ہ ہیں، بہت مضبوط سیاسی نیٹ ورک انہوں نے تشکیل دے رکھا ہے، مگر انہوں نے قومی سیاسی نظام میں اصلاحات لانے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی۔ ایک خاص لگے بندھے انداز سے وہ چل رہے ہیں، جن طریقوں سے تیس سال پہلے کامیابی حاصل کی، ابھی تک انہی پرانے فارمولوں کو آزماتے ہیں اورخواہش یہی لگتی ہے کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے۔ اس دوران ہمارا انتخابی نظام ناکام ہوچکا، الیکشن اخراجات بیس گنا زیادہ ہوگئے، آئین میں بیس لاکھ کی شرط ہے، مگر اسمبلی کا رکن بننے کے لئے دس پندرہ کروڑ لگانے لازمی ہوگئے۔ الیکشن اس قدر مہنگا ہونے سے نظریاتی سیاسی کارکن اورمڈل کلاس انتخابی سیاست سے باہر ہوگئے، مگر مسلم لیگ ن یا میاں نوازشریف صاحب کی کان پر کبھی جو ں تک نہیں رینگی۔ انہوں نے سیاسی میدان میں کارکنوں کی جگہ ٹھیکے داروں کو جگہ دی اور اپنے نیٹ ورک کو زیادہ طاقتوربنا دیا۔اسی طرح پارٹی میں جمہوریت لانے، بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی۔ یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ ن اگر اگلے تین الیکشن جیت کر پندرہ سال مسلسل برسراقتدار رہے ، تب بھی سیاسی نظام یوں ہی چلے گا، اس میں معمولی سی بہتری بھی نہیں آئے گی۔
سوشل سیکٹر کو نظرانداز کرنا: میاں نواز شریف اور ان کی دیکھا دیکھی ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کاملکی ترقی کے حوالے سے ایک خاص ویژن اور سوچ ہے، اس سے باہر نکلنے کی کبھی انہوں نے کوشش ہی نہیں کی۔ نواز شریف صاحب میگا سٹرکچر ز پسند کرتے ہیں۔ اپنے پہلے دور میں انہوں نے موٹر وے بنا ڈالی۔ بعد میں موقعہ ملنے پر پنجاب میں میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین جیسے مہنگے پراجیکٹس شروع ہوئے۔ مسلم لیگ ن کا یہ مخصوص سٹائل ہے کہ جگمگاتے ہوئے بڑے پراجیکٹ دکھا کر لوگوں کو مسخر کیا جائے، جبکہ سوشل سیکٹر جیسے صحت، تعلیم، صاف پانی، ماحولیات وغیرہ کو بالکل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ شریف برادران شائد یہ سمجھتے ہیں کہ ہسپتال اور سکول اچھے بنا دینے سے کوئی فائدہ نہیں ، البتہ دور سے نظرآنے والے بڑے پراجیکٹس، پل ، فلائی اوور، سڑکیں، بس سروس، ٹرین سروس وغیرہ سے نہ صرف مقامی ووٹرز متاثر ہوں گے بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی مداح بن جائیں گے۔انکی چونکہ حکمت عملی کامیاب ہے، اس لئے وہ اسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے کم ہی امکانات ہیں کہ وہ اسے بدل دیں۔ اس لئے جسے دلچسپی ہو کہ سوشل سیکٹر میں بہتری آئے،سرکاری سکول اور ہسپتال اس قدر بہتر ہوجائیں کہ ان کے بچے وہاں پڑھ اور علاج کرا سکیں، انہیں خود بخود مسلم لیگ ن کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔
یہی صورتحال پولیس جیسے اہم ترین محکمہ کی ہے۔ شریف خاندان نے ہمیشہ پولیس کو اپنے سیاسی اثرورسوخ کے لئے استعمال کیا اور کبھی کسی ایماندار، مضبوط افسرکو اس کا سربراہ نہیں بنایا۔جس پولیس افسر کے ان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں تھے ، مگر اس کی ساکھ اچھی تھی، اسے بھی پنجاب میں ذمہ داری سونپنے کے بجائے سندھ میں بھیجنے کی کوشش کرتے رہے۔ مقصد یہ تھا کہ کہیں غلطی سے کوئی ایماندار افسرپنجاب میں نہ لگ جائے۔میرٹ نام کی کوئی چیز ان کی ڈکشنری میں نہیں ملتی۔ گریڈ اٹھارہ کے افسر کو بیس، اکیس گریڈ کی ذمہ داری سونپ دی، تاکہ وہ ہمیشہ ہمارا مطیع بنا رہے۔ نقصا ن اس کا یہ ہوا کہ سرکاری افسران ریاست کے بجائے اس سیاسی خانوادے کے ساتھ جڑنے کو ترجیح دیتے رہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسی صورتحال نظر نہیں آتی۔ وہاں ہمیشہ ریاستی اداروں کو مضبوط بنایا جاتا ہے، سرکاری ملازمین کی وفاداری اپنے ملک سے ہوتی ہے، حکمران سے نہیں۔ آخری مسئلہ یہ ہے کہ شریف خاندان ملک میں سیاسی کلچر کے بجائے موروثی سیاست اور جانشینی کے کلچر کو پروموٹ کرتا ہے۔ جس کسی نے میاں نواز شریف کو لیڈرمانا، ان کے لئے کام کیا، اب اس کا فرض ہے کہ وہ مریم بی بی کی بھی اطاعت کرے ، جس نے شہباز شریف صاحب کو اپنا لیڈر مانا، اب وہ ان کے صاحبزاد ے کے آگے بھی سرجھکائے۔ سفید بالوں والے تجربہ کار لیڈر شہزادوں، شہزادیوںکے آگے سر جھکانے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ خوفناک سیاسی کلچر ہے، جس سے نجات پانے کے لئے مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جو لوگ نوے کے عشرے میں مسلم لیگ کے ساتھ تھے، آج ان میں سے بہت سے شریف خاندان کے مخالف ہیں۔ وجوہات کم وبیش وہی ہیں، جو اوپر لکھ دیں۔ اگر ان کا یہ سٹائل چلتا رہا توہرگزرتے دن کے ساتھ ان کی مخالفت بڑھے گی، کم نہیں ہوسکتی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔