::: "تنقید کی شجر کاری کا اضافیت کا نظریہ " :::
ابھی تک اردو تنقیدی نظرئے میں " شجر کاری کے اضافیت " (Genetic Relativity) بھنک نہیں پڑی۔ جو متن کی ساختیاتی خوکاریت سے منسلک ہے۔ جس میں متنی دستاویزات کو وضاحتی اصولوں اور اس کی اقسامیت کے حوالے سے ایک شجر کار نقشے کو ترتیب دے کر ایک مخصوض جدول کی مدد سے ادبی متن کی تشریح ، تفھیم اور تجزیات کیا جاتا ہے۔ جس میں تاریخی پڑاو کی اقسامیت کا انسلاک مصنف کی فکری اور تخلیقی فطانت ، ہنر مندی یا اس کے سقمیات کا مطالعہ اور تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔ جو ایک قسم کا وظائف کا مخاطبہ بن جاتا ہے۔ اور کسی نشان بندی کے بغیر متن اور تخلیق میں پوشیدہ لمحات ، دستاویزات، حرکیات اور جمود کو ایک دستاویز کی شکل میں بیاں کرتا ہے۔ جس کو تحدیدت میں مقید کرکے تمام عناصر کو مرکوز طور پر ایک جنیانی عمل کی ساخت کو مصنف کے عمل میں چھپی ہوئی " عادات "، ایجاد کی نشاندھی کی جاتی ہے۔جو متن کے مجازی مراحل ہوتے ہیں۔ اور متن کے " مقدمات" کو ایک دوسرے سے منسلک بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ تدوینی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جہاں پر متواتر جنیاتی کاروائیاں اضافیت کے وظائفیت کو پریشان بھی کرتی ہے۔ اور اس کے لیے دوجہتی جدول بنائے جاتے ہیں۔جو اپنے طور پر علامت تو ہوتے ہیں اور متنی مناجہیات کا پیمانہ کے طور پر بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ عموما کامیاب نہیں ہوپاتا ۔ خاص کر ناول میں اس کی تشریحات تاریخی شجرکاری کرنے کے بعد بھی تشریح نہیں کر پاتی اور عمومی اقسام بندی بھی اسے جھیل نہیں پاتی اور یہ دعوی نہیں کرتا کہ یہ ایک مجازی ڈھانچے کے خلاصے کا ماڈل فراھم نہیں کرتا۔ بس " شجر کاری کے اضافیت" کے نظرئیے میں یہ بات اھم ہوتی ہے کہ یہ ادب کے نظرئیے میں بیانیہ کے کئی نظریاتی ماڈل تشکیل دیتے ہیں جس میں اہل قاری اور نقد نگار اپنی تیز فہمی کے سبب بہت کچھ تسخیر کرلیتا ہے۔ جس میں ادبی اور فکری متن سائنسی اورتفھیماتی طور پر منقسم ہوجاتا ہے جس میں انسانی تجربات کے تمام وطائف شامل ہوتے ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔