لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف شخص ہوتا ہے۔ نہ اُسے اُبکائیاں آتی ہیں، نہ معدے کے نام نہاد مسائل کی وجہ سے تھوکتا ہے، نہ برقع پوش کولہوں کے قریب سے ہو کر گزرنے کی کوشش کرتا ہے، نہ اُسے سرِ راہ شلوار کا نالہ کمر سے پیچھے کی طرف کھینچ کر سڑک کنارے پیشاب کرنے کا خیال آتا ہے۔ وہ قانون کی اطاعت کرتا ہے، کیمروں سے ڈرتا ہے، زنانہ جسموں کی عزت کرنے کے لیے بہن بیٹی کے تصور کو استعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔
البتہ جب اُسے کسی اور معاشرے میں اپنے جیسے کچھ دیگر لوگ مل جائیں تو جھٹ سے اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہوموپاکیئن کو اپنی ہم ماخذ مخلوق بگاڑتی ہے۔ معاشرے میں تنوع نام کی کوئی چیز نہیں۔ اعوان صاحب، شیخ صاحب، میجر صاحب، میاں صاحب، رانا صاحب وغیرہ سب ایک دوسرے کی نحوستوں کو تقویت دیتے ہیں، سب ایک جیسے ہیں۔ عمرانیوں کا ذکر ہی کیا کرنا۔
جنھیں 1985ء سے لے کر 1995ء تک کا لاہور یاد ہے، اُنھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ صرف ایک مال روڈ پر ہی کتنا تنوع موجود تھا۔ گرجا گھروں میں آزادی سے آتے جاتے تھے، کبھی کبھار کوئی پادری اور راہبہ بھی دکھائی پڑ جاتا، سڑک پر کوئی آئرش سیاحوں کا ٹولہ پیدل چل رہا ہوتا، کہیں کوئی فرانسیسی سیاح سائیکل چلا رہے ہوتے۔ نہر کے پُل سے کچھ آگے انٹرنیشنل ہوٹل تھا جس کے باہر غیر ملکی سیاحوں کی بسیں کھڑی ہوتیں۔ پینوراما کے قریب ایران کا کلچرل سنٹر تھا جو دھماکوں سے اڑا دیا دیا۔ ضیاالحقی کے باوجود ابھی تنوع سانس لے رہا تھا اور بے نظیر نے سٹوڈنٹس کی سرپرستی اختیار نہیں کی تھی۔
کہیں کہیں تنوع کے کچھ چراغ ٹمٹماتے تھے۔ ہم صفانوالہ چوک کے قریب گوردوارے میں بھی ایک دوبار گئے۔ کالج کی قدیم عمارت میں ایک ہندو مندر تھا۔ ابھی نیون سائن میں مقدس حروف لکھنے کا مقابلہ نہیں شروع ہوا تھا۔ لیکن پھر ایک سیلاب آ گیا۔ ہم ایٹمی قومی بنے اور ایٹمی دہی بھلوں اور ایٹمی حلیم سے لے کر دھماکے دار سیل اور دھماکے دار آفر تک سب کچھ بدل گیا۔ ہم نے مکمل اور exclusive ہوموپاکیئن بننے کا تہیہ کر لیا۔ اور اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم امید کہیں نہیں ڈھونڈ پاتے اور ناامیدی کی باتوں سے چڑتے ہیں۔
لیکن معاشروں پر ایسا برا وقت آتا رہتا ہے۔ لیکن وہ تنوع لا کر، رنگا رنگی پیدا کر کے، کچھ نہ کچھ منصوبے بنا کر اُسے ٹالنے یا جلدی گزرنے کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی حمدیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ہماری مناجات تک دو نمبر ہو گئی ہیں۔
کوئی زیئس کیسے سماعت کرے؟ ایک ہی جیسی جھک جھک اُسے بھی پسند نہیں۔ وہ بھی تنوع چاہتا ہے۔
یاسر جواد