اگر آپ کا واسطہ درختوں سے ذرا گہرا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ درخت شخصیت رکھتے ہیں۔ نہیں نہیں، انسانوں جیسی نہیں لیکن ہر کوئی اپنی ہی الگ خاصیتیں رکھتا ہے۔ بالکل ایک ہی نوع کے، ساتھ ساتھ کھڑے دو درخت، ایک ہی ماحول میں ہونے کے باوجود ایک سے نہیں ہوتے۔ جس طرح جینیاتی فرق کی وجہ سے دو انسانوں میں فرق ہوتا ہے، دو جانور کبھی بالکل ایک سے نہیں ہوتے، زندگی کا پروگرام نباتات کے لئے بھی ویسا ہی ہے۔ اپتے جھڑنے کے ٹائم ٹیبل سے لے کر بڑھنے اور پھل دینے تک ۔۔۔ ہر درخت منفرد ہے۔ زندگی کی اپنے سے بہت ہی مختلف قسم ہونے کی وجہ سے عام طور پر ہم اس چیز کی آسانی سے پہچان نہیں کر پاتے۔ یہ کہانی ایک ایسے درخت کی جو اپنے میں زیادہ منفرد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیوں پہلے جب وہ پیدا ہوا تو درختوں کے جھنڈ میں بس ایک اور اضافہ تھا۔ طنیرے بربر زبان میں صحرا کو کہا جاتا ہے۔ آج کا وسطی نائیجر صحارا ہے، ایک بہت بڑا صحرا۔ اس کی پیدائش کے وقت یہ ایسا نہیں تھا۔ کیکر کے درختوں کی آبادی دور دور تک پھیلی تھی۔ موسم بدلنے کے ساتھ ہر طرح کا سبزہ ساتھ چھوڑتا گیا۔ درخت مرتے گئے۔ جگہ ویران ہوتی گئی۔ خشک صحرا سب کچھ ہڑپ کرتا گیا۔ یہاں تک کہ ایک ہی درخت بچ گیا۔ اس قدر تنہا کہ اس سے کسی بھی سمت چار سو کلومیٹر کے فاصلے تک کوئی اور درخت نہیں بچا تھا۔ یہ دنیا کا تنہا ترین درخت تھا۔ توارگ خانہ بدوشوں کے گزرتے قافلے اس کو نہیں چھیڑتے تھے۔ یہ راہنمائی کا نشان بن گیا۔ لق و دق صحرا میں اس کو دور سے دیکھا جا سکتا تھا۔ سال دہائیں بنے، دہائیاں صدی۔
یورپی آئے، انہوں نے نقشے بنائے۔ 1930 کی دہائی میں بنے ملٹری نقشوں میں اس کو ایک لینڈمارک کی حیثیت حاصل تھی۔ مِشل لیسورڈ جنہوں نے 1939 میں اس درخت کو دیکھا، لکھتے ہیں۔
“جب تک اس درخت کو خود دیکھ نہ لیں، آپ یقین نہیں کر سکیں گے کہ یہ کیسا نظارہ ہے۔ اس کا راز کیا ہے؟ یہ کیسے کھڑا ہے؟ یہاں سے اونٹوں کے قافلے گزرتے ہیں۔ بھٹکے ہوئے اونٹ اس کے کانٹے اور پتے کیوں نہیں کھا چکے؟ توارگ نمک کے کاروان لے کر جاتے ہیں، اس کی شاخیں کٹ کر ان کی چائے بنانے کے لئے کیوں استعمال نہیں ہو گئیں؟ اس لئے کہ کی اس کی عزت کی جاتی ہے۔ یہ زندہ روشنی کا مینار ہے۔ آگادیز سے بلما تک ہر ششماہی میں جانے والوں کی راہنمائی کرنے والا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر سڑک بن گئی۔ درخت کے قریب کنویں کے لئے کھدائی کی گئی تو پتا لگا اس کی جڑیں پانی کی تلاش میں ایک سو اٹھارہ فٹ گہرائی تک پھیلی ہوئی ملیں۔ کسی بارہ منزلہ عمارت جتنی۔ اونٹوں کی جگہ گاڑیوں نے لے لی۔ تیز رفتار ٹریفک اس کے قریب سے بھاگنے لگی۔ ایک روز اسے کسی لاری نے ٹکر مار دی۔ اس کو شدید نقصان پہنچا۔ یہاں سے گزرنے والے فرانسیسی ایتھنولوجسٹ ہینری لیہوٹے لکھتے ہیں۔
“جب میرا پچیس سال پہلے یہاں سے گزر ہوا تھا تو یہ ایک سبز درخت تھا جس میں چھوٹے زرد پھول آتے تھے۔ اس کا تنا دو الگ بڑی شاخوں میں بٹا ہوا تھا۔ اب ایک رہ گئی تھی۔ زمین سے ایک میٹر اوپر سے ٹوٹ چکا تھا۔ اس درخت کے ساتھ کسی نے کیا کر دیا تھا؟ یہ وہ درخت تھا جس کو کوئی خانہ بدوش ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ ان کے لئے یہ مقدس تھا۔ اتنی کھلی جگہ ہونے کے باوجود یہ ایک مشین کا نشانہ بن گیا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخمی درخت نے پھر بھی ہمت ہارنے سے انکار کر دیا۔ یہ کھڑا رہا۔ زندہ رہا۔ سال گزرتے رہے۔ اس نے اپنی کچھ مرمت کر لی۔ کانٹے اور پتے اگتے رہے۔ اور پھر۔۔۔ 1973 میں لیبیا سے تعلق رکھنے والے ایک نشے میں دھت ڈرائیور کا ٹرک بے قابو ہو گیا اور اس درخت سے ٹکرا گیا۔ اسے جڑ سے ہی الگ کر کے گرا دیا۔ صدیوں تک ہر قسم کے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے والا یہ کیکر اس ٹرک کی ٹکر سے اپنی زندگی ہار گیا۔ 8 نومبر 1973 کو مُردہ درخت کو نیامے شہر میں نائیجر نیشنل میوزیم منتقل کر دیا گیا، جہاں پر آج بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔
آج اس کی جگہ پر اس کی یاد میں ایک دھات کا سٹرکچر لگا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت شخصیت رکھتے ہیں۔ طنیرے کے اس درخت کی شخصیت کی خاص بات اس کا غیرمعمولی طور پر سخت جان ہونا تھی۔ سینکڑوں کلومیٹر دور تک ہر قسم کے درخت کے مر جانے کے باوجود اس نے بالکل تنہا ہی ایک صدی کاٹ لی تھی۔ صحارا سے لڑائی میں کھڑے مقابلہ کرنے کے سبب گزرنے والے قافلوں کی اتنی عزت حاصل کر لی تھی کہ کوئی اسے نہیں چھیڑتا تھا۔
ایک بے قابو ٹرک جس نے اتنے بڑے بیابان صحرا میں صرف اسی سے آ کر ٹکرایا تھا۔۔۔ طنیرے کا کیکر آخر میں اس سے بازی ہار گیا۔
ساتھ لگی پہلی تصویر اس درخت کی جو 1939 میں لی گئی تھی۔
دوسری تصویر اس درخت کی اس کی موت سے چند سال پہلے۔ لاری کے حادثے نے آدھا درخت توڑ دیا تھا۔
اس درخت کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Tree_of_T%C3%A9n%C3%A9r%C3%A9