’’چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے؟‘‘
ان پڑھ دکاندار نے ان پڑھ بیوی سے پوچھا
’’ہاں! چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے!! میں ایک باورچی خانے میں سب بہوؤں کومقید کرکے انہیں مجبور نہیں کرنا چاہتی کہ انہیں اپنے لئے الگ الگ مکان ڈھونڈنے پڑیں۔ میں پہلے دن ہی انہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ اس گھر میں یہ تمہارے کمرے ہیں اور یہ تمہارا باورچی خانہ جی چاہے تو گوشت پکاؤ اور جی چاہے تو چٹنی کیساتھ کھاؤ۔ خوش رہو یا جھگڑے کرو‘ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں!
ان پڑھ شوہر کو ان پڑھ بیوی کی بات سمجھ آگئی لیکن ہمارے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کویہ نکتہ ماضی میں سمجھ آیا نہ اب آرہا ہے! پہلے انہوں نے ون یونٹ کا بت تراشا اور عددی اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کو مصنوعی برابری کے مکروہ جال میں پھانسا‘ پھر فوج کوان پر مسلط کرکے عساکر پاکستان کو بدنام کیا اور اب ایک طرف پشتو بولنے والوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہزارہ میں قتل وغارت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے! مشہور امریکی مورخ باربرا ٹک مین نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف
MARCH-OF- FOLLIES
میں یہی تو کہا ہے کہ حکومتیں عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں۔ لیکن فرد اپنا فیصلہ ہمیشہ عقل مندی کی بنیاد پر کرتا ہے خواہ وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو۔ باربرا ٹک مین کے خیال میں عقل مندی کی تعریف یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تین باتوں کو بنیاد بنایا جائے۔ اول‘ ماضی کا تجربہ دوم ماضی کی بنیاد پر مستقبل میں پیش آنیوالے حالات کا اندازہ اور سوم‘ کامن سینس‘ افسوس! ہمارے سیاستدانوں نے مشرقی پاکستان کے حادثے سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ الگ ہو گئے۔ اسکے بعد دوسروں کو غدار کہنے کا اور سازش کرنے کا وطیرہ تبدیل ہو جانا چاہئے تھا لیکن اب بھی وہی رویے ہیں۔ ہم سے زیادہ عقل مند تو بھارتی پالیسی ساز نکلے۔ بھارتی پنجاب جو پاکستان پنجاب کی نسبت پہلے ہی بہت چھوٹا تھا۔ تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہندی اور پنجابی بولنے والوں کا اکٹھا گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی پارلیمنٹ نے ستمبر 1965ء میں ’’سردار حکم سنگھ پارلیمان کمیٹی‘‘ کی تشکیل دی۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں تو ان سفارشات کو سردخانے میں ڈالنے کی کسی نے کوشش نہ کی۔ سفارشات کیمطابق بھارتی حکومت نے جسٹس جے سی شاہ کی سربراہی میں ’’شاہ کمیشن‘‘ تشکیل دیا۔ کمیشن نے مئی 1966ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ نے تجویز کیا کہ حصار‘ ماہندر گڑھ‘ گڑگاؤں‘ رہتک اور کرنال کے اضلاع کو باہم ملا کر ’’ہریانہ‘‘ کا نیا صوبہ وجود میں لایا جائے کچھ اور ضلعوں سے چند تحصیلیں بھی شامل کی گئیں۔ چنانچہ ’’پنجاب تشکیل نو بل طے پا گئے۔ جلوس نکالے گئے نہ گولی چلی‘ الزامات لگے نہ جوابی الزامات‘ یہاں تک کہ مرکز کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں نشستوں کی تعداد کا مرحلہ آیا تو وہ بھی بات چیت اور افہام و تفہیم سے طے پا گیا۔ پھر اسی انداز میں جنوری 1971ء میں ایک اور صوبہ ہماحل پردیش معرض وجود میں لایا گیا۔ اس بار بھی پنجاب کے علاقے کاٹ کر نئے صوبے کو دئیے گئے‘ کسی کی غیرت کا آبگینہ ٹوٹا نہ کسی کو احساس شکست ہوا نہ کسی نے بھنگڑے ڈالے۔ نہ لڈیاں ڈالی گئیں اور نہ انکوجن کے صوبے نہیں بنے تھے‘ مشتعل کیا گیا۔
نئے صوبے بننے چاہیں اس لئے کہ عوام کو انتظامی نکتہ نظر سے آسانیاں بہم پہنچیں اس لئے نہیں کہ زبان پر فخر کیا جائے یا نسل پر تکبر کیا جائے۔ جو زبان پر فخر کرتا ہے یا نسل کی وجہ سے برتری کا اظہار کرتا ہے۔ وہ نہ صرف جاہل ہے بلکہ احمق بھی ہے۔ اس میں اس کا تو کوئی کمال ہی نہیں۔ اگر کوئی اپنی نسل بدل کر دوسری نسل اختیار کر لے۔ یا ولدیت بدل لے یا مادری زبان بدل لے‘ تب تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہ کسب کمال خود کیا ہے اور یہ میرا اپنا فیصلہ ہے۔ جس زبان یا نسل پر اسکا کوئی اختیار ہی نہیں‘ اس پر بھنگڑے ڈالنے میں کیا منطق ہے؟
بات ہو رہی تھی صوبوں کی تشکیل انتظامی نکتہ نظر سے کرنے کی۔ اگر ہزارہ کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پشاور جانا ان کیلئے اس گرانی اور بدامنی کے زمانے میں مشکلات میں اضافے کا سبب ہے اور ایبٹ آباد کو انتظامی مرکز قرار دینے سے انکے شب و روز میں سہولت پیدا ہو سکتی ہے۔ تو ہزارے کا صوبہ ضرور بننا چاہئے۔ اسی طرح پنجاب کے جو علاقے لاہور سے دور ہیں‘ جیسے اٹک‘ میانوالی اور بہاولپور‘ وہاں بھی نظم و نسق کے نکتہ نظر سے نئے صوبے ضرور بننے چاہیں۔ لیکن اگر نئے صوبوں کے مطالبوں کے پیچھے دوسرے عزائم ہوں اور نسل‘ زبان اور علاقائیت کا فروغ مقصود ہو تو پھر یہ مطالبات صحت کی نہیں بیماری کی علامت ہیں اور غریب علاقوں پر وہاں کی اپر کلاس کی حاکمیت کو دوام بخشنے کی سازش ہے۔ آج دنیا ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ لوگ نقل مکانی کرکے دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں تاکہ انکی آئندہ نسلیں بہتر تعلیم حاصل کر سکیںاور زیادہ مہذب معاشروں میں سانس لے سکیں۔ ایسے میں پختون ہوں یا ہزارہ یا سرائیکی‘ انہیں اپنے اپنے خول میں بند کر دینا ان سے دشمنی کے مترادف ہے۔ کاش! اسفند یارولی صاحب اس بات کی فکر کرتے کہ وزیرستان اور سوات کے پختون تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انتہا پسندوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ پختونوں کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے تاکہ وہ واپس آکر سماجی انقلاب لاتے۔ اس نسلی تفاخر کا کیا فائدہ جوغربت افلاس اور جہالت کا سدباب نہیں کر سکتی‘ آج اگر وزیرستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھاہوتا تو کوئی انتہا پسند مذہب کے نام پر غریب پختونوں کا استحصال نہ کر سکتا۔ لیکن خواتین‘ ملک اور سیاسی پارٹیوں کے ’’مالک‘‘ کب چاہتے ہیں کہ عام پختون ترقی کرے اور پھر انہیں للکارے۔ بالائی طبقے کی بقا اسی میں ہے کہ وہ غریبوں کو اس افیون میںمبتلا کر دیں کہ تم پختون ہو یا تم ہزارہ ہو یا تم مری ہو یا بگٹی ہو اور پھر ان پر حکومت کرتے رہیں۔ انہیں جھوٹا یا سچا ثابت کرنے کیلئے جلتے کوئلوں پر چلاتے رہیں اور سیاسی پارٹیوں پر اپنے خاندان کی اجارہ داری مستحکم کرتے رہیں۔ وزیراعلیٰ بھی اسی خاندان سے ہو اور پارٹی کی سربراہی بھی وراثت کا حصہ ہو۔
نئے صوبوں کا مطالبہ تنی ہوئی رسّی ہے۔اس پر چلنے والے ہوشیار رہیں ۔کہیں کسی آمر کی باقیات اپنا اُلو نہ سیدھا کر لے۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_04_01_archive.html
“