نہیں! ہر گز نہیں!
نہیں! حضور! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ہمیں تنی ہوئی رسّی پر چلنا ہو گا! ہمیں جذبات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ(تھیلے) ہر طرف اُڑتے پھرتے ہیں! شمالی علاقہ جات کا حُسن اِس گندگی کی وجہ سے زائل ہو رہا ہے۔ ہم ان تھیلوں کو، اِن اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز کو کام میں لائیں، ہم اپنے بے مہار، برافروختہ، جذبات کو اِن تھیلوں میں بند کر دیں اور تھیلے بند کمروں میں پھینک دیں۔ نہیں! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ایران کی طرف نہ عربوں کی طرف! پاکستان اگر قلعہ ہے تو اِس قلعے کی ہر صورت میں، ہر حال میں، حفاظت کرنا ہو گی! ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ کینیڈا کی طرح، سوئٹزر لینڈ کی طرح اور مسقط(عمان) کی طرح!
اس میں کیا شک ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے۔ ایران کبھی بھی وہ ماں نہیں بنی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی ہے۔ اس نے کبھی ہمارے منہ میں گھی شکر نہیں ڈالا۔ سارے گلے شکوے بجا ہیں۔ مگر یہ وقت گلوں، شکووں کا نہیں! یہ وقت زمینی حقیقتوں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ہے۔
پاکستان ترکی کا دوست ہے۔ اس دوستی کی جڑیں گہری ہیں۔ ترکی شاید ان ایک دو ملکوں میں سے ہے جہاں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ترکی اس وقت سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔ شیخ نمرالنمر کو پھانسی دینے پر ترکی نے برملا کہا ہے کہ یہ جزیرہ نمائے عرب کا اندرونی معاملہ ہے۔ مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے ترکی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے! مت بھولیے کہ ترکی اور ایران کا جھگڑا آج کا نہیں۔ اس کی تفصیل یہ کالم نگار اپنے کالم ’’پرانے شکاری نیا جال‘‘ کے عنوان سے بیان کر چکا جو اٹھارہ دسمبر 2015ء کو روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔
سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے۔ ہمارے حکمرانوں پر اپنی سرزمین تنگ ہوتی ہے تو وہ سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ سعودی عرب ہمارا دوسرا گھر ہے۔ ہمارا دوسرا وطن ہے۔ اُس سرزمین پر خدا کا وہ گھر ہے جو ہمارا پاسبان ہے اور جس کے ہم پاسبان ہیں۔ اُس دیارِ خوش آثار میں وہ سبزگنبد ہے جس کے تصور ہی سے ہماری آنکھیں وفورِ عقیدت میں بند ہونے لگتی ہیں۔ مدینتہ النبی کے گلی کوچوں میں ہمارے نبی اقدسؐ کے قدم پڑے۔ امام مالکؒ جیسے کتنے ہی بطلِ جلیل، زمین کا نمک، مدینہ کی گلیوں میں ننگے پیر چلتے رہے تا کہ بے ادبی نہ ہو۔ اُس سرزمین جنت نشان میں خدا کے اُس محبوب کی مبارک قبر ہے جس کی خاطرپندرہ صدیوں سے قافلے، زمین کے ہر گوشے سے، مدینہ کا رُخ کیے ہوئے ہیں اور قیامت تک جتنے مسلمان پیدا ہوں گے، اُس مبارک قبر کی طرف گامزن رہیں گے۔ حجازِ مقدس کا کیا ہی کہنا! درخت اُس کے آسمانی ہیں۔ چٹانیں اس کی سنہری ہیں۔ مٹی اس کی ہمارے لیے سرمہ ہے۔ کنکر اس کے ہمارے لیے ہیرے ہیں۔ زمزم اس کا ہمارے لیے آبِ حیات ہے۔ کھجور اس کی ہمارے لیے بہشتی میوہ ہے۔ پرندے اس کے ہمارے لیے ہما ہیں۔ وہاں حاضر ہونے کی آرزو ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ ہم تو وہاں مرنا اور دفن ہونا اپنے لیے کامرانی اور ظفریابی سمجھتے ہیں۔ وہاں مقام ابراہیم ہے۔ صفا اور مروہ ہے۔ حجرِ اسود ہے جو ہمارے لیے سنگ نہیں، سنگِ میل ہے۔ ملتزم ہے جس سے ہم چمٹ چمٹ جاتے ہیں! مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے جزیرہ نمائے عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے۔ مت بھولیے کہ عربوں اور ایرانیوں کا جھگڑا آج کا نہیں! یاد رکھیے کہ عجم سے، عرب ساری غیر عرب دنیا مراد لیتے ہیں مگر خاص طور پر ایران، ذہن میں رکھیے کہ ایرانی دربار تھا جہاں مٹی کے ٹوکرے عرب ایلچیوں کے سروں پر رکھے گئے اور واپس بھیجے گئے۔ عربوں
نے ایران فتح کیا۔ یہ فتح ایران کے ذہن پر نہیں، دل پر نقش ہے! بنوامیہ کی سلطنت کے خلاف بغاوت کا پودا ایران کی سرزمین میں بویا گیا۔ وہیں اسے پانی دیا گیا، وہیں یہ تناور درخت بنا۔ پھر عباسی سلطنت آئی جسے برامکہ نے مضبوط کیا۔ کون برامکہ؟ جو بلخ کے آتش پرستوں میں سے تھے! مگر ہم! اللہ کے بندو! ہم عرب ہیں نہ ایرانی۔ نہ ترک! ہم پاکستانی ہیں۔ ہم نے اپنا گھر دیکھنا ہے۔ کھیل کود میدان میں اکٹھی، مگر ڈیرہ اپنا اپنا۔
ہمیں اپنے جغرافیائی محلِ وقوع پر غور کرنا ہو گا۔ مشرق میں بھارت ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں نہ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات قابلِ رشک ہیں۔ ایران کی سرحدیں مغربی سمت ہم سے گلے مل رہی ہیں! ہم اگر غیر جانب دار، مکمل غیر جانب دار نہ رہے تو ہمارے لیے بھارت اور ایران چکی کے دو پاٹ بن سکتے ہیں۔ ہم سینڈوچ ہو کر رہ جائیں گے۔ ہماری سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں نہ کسی عرب ملک سے۔ ہماری آبادی پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہم پہلے ہی عقیدوں، زبانوں، نسلوں اور قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونکے کھڑے ہیں! ہم عرب اور ایران
کے اِس تنازعہ سے دور نہ رہے تو بکھر کر رہ جائیں گے۔ ہمیں ہر پاکستانی کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ایران ہماری ایک آنکھ ہے تو عرب دوسری آنکھ۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ مودی نے یو اے ای کو سفارتی محاذ پر اپنی جیب میں ڈالا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ کل بھارت ایران اتحاد ہمارے سینے پر مونگ دلنا شروع کر دے۔ خدانخواستہ، اللہ نہ کرے، ایسا ہوا تو ترکی کچھ کر سکے گا نہ مشرق وسطیٰ والے دوست! زبانی جمع خرچ ضرور کریں گے مگر اوکھلی میں سر تو پاکستانیوں کا ہو گا۔
سلطنتِ عثمانیہ کا اپنا ماضی ہے۔ عربوں کا اپنا ماضی ہے۔ پاکستان کا اپنا ماضی ہے! ہمایوں پر سُور کے افغانوں نے زمین تنگ کی تو وہ ایران گیا۔ شاہ طہماسپ نے اس کی پذیرائی کی۔ محل میں رکھا۔ خدام دیئے۔ سواریاں مہیا کیں۔ پھر اپنی فوج کے جوان دیئے جنہوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھے اور کابل اور پھر آگرہ اور دہلی واپس دلوانے میں معاونت کی۔ درست کہ شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو مسلک تبدیل کرنے کا کہا مگر ہمایوں نے انکار کر دیا۔ تو کیا پھر ایرانیوں نے اس کے باوجود مدد نہیں کی؟ اڑھائی تین سو سال تک ایران اور مغل سلطنت کی گاڑھی چھنتی رہی! اتنا قریبی ثقافتی، تجارتی اور معاشرتی ربط ایران کا کسی اور ملک سے نہیں رہا۔ صائب تبریزی سے لے کر، نظیری نیشاپوری تک، طالب آملی سے لے کر درجنوں نہیں، سینکڑوں اہلِ علم تک سب ایران سے چلے اور دہلی آ کر دم لیا۔ ان میں جرنیل بھی تھے اور تاجر بھی۔ رشتے ہوئے۔ برادریاں تشکیل ہوئیں۔ پھر مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا۔ حیدر آباد اور لکھنؤ سامنے آئے۔ ایران سے آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ حیدر آباد میں ایرانی گلی آج بھی موجود ہے اور آباد ہے۔ فارسی زبان و ادب پر ہمارا ملکیتی حق ہے۔ ایرانیوں نے، ہمارے ساتھ ثقافت کے میدان میں وہ سلوک نہیں کیا جو عرب کرتے ہیں۔ کسی مجلس میں پاکستانی کہہ اٹھے کہ ہم نے سپین فتح کیا تھا۔ عرب اُٹھ کر اُن کے پاس آئے اور کہا تم نے نہیں، ہم عربوں نے فتح کیا تھا! ایرانیوں نے ہمارے خسرو سے لے کر ہمارے بیدل تک، ہمارے غالب سے لے کر ہمارے اقبال تک سب کو تسلیم کیا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ نصابوں میں شامل کیا۔ ایرانیوں کی تیار کردہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ خسرو بھی موجود ہے، بیدل بھی، فیضی بھی اور اقبال لاہوری بھی! اقبال لاہوری پر وہ جان چھڑکتے ہیں!
قندھار ایک عرصہ تک ایران کے صفویوں اور ہندوستان کے مغلوں کے درمیان باعثِ نزاع رہا۔ 1605ء میں اکبر کی آنکھ بند ہوئی۔ ہرات کے ایرانی گورنر حسین خان نے قندھار پر چڑھائی کر دی۔ شاہ عباس نے جہانگیر کو خط لکھا اور حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ قندھار مغلوں کے پاس ہی رہا۔ 1622ء میں ایرانیوں نے قندھار پر حملہ کیا۔ جہانگیر نے شاہ جہان کو حکم دیا کہ جا کر دفاع کرے۔ شہزادے نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ اس کی نظر جانشینی پر تھی۔ قندھار چلا گیا مگر جہانگیر نے اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا۔ ایلچی بھیجا۔ ایرانیوں کا قبضہ تسلیم کیا اور تعلقات معمول کے رکھے!
تاریخ قصہ گوئی نہیں! سبق ہے جو سیکھنا ہو گا! ہمارا ماضی ترکوں اور عربوں کا ماضی نہیں۔ ہمارا اپنا ہے اور مختلف ہے۔
یہ تنی ہوئی رسّی ہے جس پر ہمیں چلنا ہے۔ غیر جانب داری کے ساتھ! ہم آبگینہ ہیں۔ جسے پہلے ہی ٹھیس لگ چکی ہے، مزید برداشت نہیں کر پائیں گے! دوسروں کا نہیں، اپنا گھر دیکھیے! معاملات حساس ہیں! پلڑے کو کسی ایک طرف نہ جھکنے دیجیے ؎
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“