تنہائی کے سو سال گبریل گارشیا مارکیز
میری بدقسمتی یہ ہے کہ مجھے ہمیشہ کسی رائٹرکا اور اس کے کام کا تبھی پتہ چلا جب وہ اللہ کو پیارا ہو گی(ااور خوش قسمتی یہ کہ بہرحال پتہ چل جاتا ہے) اور اگلے روز اخبارات نے خاص فیچرز لکھے اور ہماری مجموعی قوم بھی اسی لت میں مبتلا ہے کہ جیتے جی کسی کی قدر نہیں کرنی مر جاے تو سب گناہ معاف۔
18 اپریل 2014 ء کو گبریل گارشیا مارکیز نے و فات پائی تو نام کے ساتھ نوبل پرائز پڑھ کر تجسس ہو خیر تنہائی کے سو سال خریدی یہی ناول ان کو نوبل تک لے گیا۔
گبریل گارشیا مارکیز بیسویں صدی کے ایک اہم مصنف ہیں۔ گبریل گارشیا کا تعلق کولمبیا سے تھا۔ آپ ایک مشہور ناول نگار، افسانہ نگار، اور صحافی تھے “ون ہنڈرڈ ائرز آف سولیٹیوڈ” جس کا اردو ترجمہ “تنہائی کے سو سال” کے عنوان سے نعیم کلاسرا صاحب نے پیش کیا ہے، ادبی دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ناول ہے۔ اس ناول کو نقادوں کی بہت توجہ حاصل ہوئی ہے اور اسے ادب کا شاہکار ناول قرار دیا گیا ہے۔ اس ناول کا دنیا کی سینتیس ذبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اس کے قارئین دنیا کے ہر گوشے میں پائے جاتے ہیں۔
تنہائی کے سو سال، حقیقت اور تخیل کا اچھا ملاپ ہے، حقیقت اور تخیل آپس میں اس طرح یکجا ہیں کہ کہانی پڑھتے ہوئے تخیلاتی باتیں بھی حقیقت جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے ایک موقع پہ کرنل ارلیانو بوئندا کے سترہ بیٹوں کا ذکر ہے جو تمام کے تمام ایک ہی دن پیدا ہوئے، اسی طرح اگوانے بچے بھی غیر فطری ہیں لیکن گبریل کا قلم انہیں اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ حقیقت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ سو سال کے عرصے میں “ماکوندو” بستی، قصبہ، اور قصبے سے بڑھ کے شہر کے مندارج طے کرتی ہے۔ شہر میں ریل کی آمد تک تبدیلی کی بےشمار حیرتوں سے گزرتی ہے اور بالآخر تنہائی میں مبتلا ہو کے مر جاتی ہے۔ تین چار نسلوں میں ہی اس وراثت کو جو اگوانوں سے شروع ہوئی تھی، ایک بڑی دیمک اپنے بل کی طرف گھسیٹ کے لے جاتی ہے۔ کہانی کے اختتام پہ خاندان کے آخری سپوت پہ یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تنہائی کا یہ عذاب کسی ایک فرد کا نہیں، کسی ایک خاندان یا نسل کا بھی نہیں بلکہ نئے اور پرانے وقت کی دہلیز پہ پوری انسانی تہذیب کا ہے جسے دوبارہ بسنے کا موقع نہیں ملتا۔ ناول پڑھنے کے دوران اور خصوصاً انجام کی جانب بڑھتے ہوئے تنہائی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔
تنہائی کے سو سال گرچہ ایک شاہکار ناول ہے تاہم ایک عام قاری کے لئے گبریل گارشیا کے لکھنے کا انداز الجھن پیدا کر سکتا ہے۔ ناول میں بوئندا خاندان کی سات نسلوں کا بیان پیش کیا گیا ہے۔ ان کرداروں کے نام بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ کہانی ایک تسلسل کے ساتھ چلتی ہے تاہم کرداروں کے ناموں کی مماثلت قاری کو بھٹکا سکتے ہیں۔ یہ ناول مکمل تسلی اور حاضر دماغی کے ساتھ پڑھنے والا ناول ہے۔ تاہم ایک دفعہ قاری گارشیا کے انداز سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو کہانی اس کے ذہن کے کینوس پہ پھسلتی جاتی ہے اور وہ اردگرد کی دنیا سے بےخبر ماکوندو کی دنیا میں مگن ہو جاتا ہے جہاں گارشیا اسے لے گیا ہے۔
مارکیز صاحب نے ایک انوکھا جہان پیش کیا ہے ایسا لگتا ہے کوئی کیمرہ لگا ہے اور اس نے سب کچھ فلما دیا ہے کوئی بناوٹ نہیں کوئی کرداروں کے ساتھ ردوبدل نہیں جو جیسا کوئی معاشرہ ہے ویسا یہ پیش کر دینا بلاشبہ انہی جیسے مصنفین کا کارنامہ ہے
حاصل سبق
جب قوموں کے پاس کرنے کو مثبت سرگرمیاں باقی نا رہ جائیں جب تعلیم ادب فنون لطیفہ کی کمی ہو جائے تو منفی سرگرمیاں (منشیات، جنسیات اور جنگ) پیدا ہو جاتی ہیں یہ ناول قوموں کی کہانی ہے ناول کا شاندار ترجمہ روف کلاسرا صاحب کے بڑے بھائی نے تنہائی کے سو سال کے نام سے کیا ہے۔ جڑے رہیں ادب و فن کے ساتھ امید کی نئی کرن تک۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔