امریکہ سے آنے والے دو مرد اور ایک خاتون پر مشتمل گروپ کو عراقی کردستان اور ایران کی سرحد پر کوہ پیمائی کے دوران ایرانی بارڈر سیکورٹی نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ خاتون اور مردوں کو الگ کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارہ شورد کے حصے میں قیدِ تنہائی آئی۔ دن میں آدھ گھنٹے کے دو وقفوں کے علاوہ روزانہ تئیس گھنٹے کی تنہائی۔ یہ عالمی واقعہ بنا۔ سلطانِ عمان نے انکی رہائی کی قیمت ادا کی اور چودہ ماہ بعد سارہ رہا ہوئیں۔ عراقی پناہ گزینوں کو تعلیم دینے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کا رخ کرنے والی سارہ کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ ان پر اس دوران صرف ایک ہی تشدد ہوا تھا اور وہ لمبی تنہائی کا تھا۔
“قیدِ تنہائی کے ابتدائی ہفتوں اور مہینوں میں آپ کی حالت کسی جانور جیسی ہو جاتی ہے۔ ایک پنجرے میں بند جانور۔ دن کے گھنٹے اس میں ٹہلتے گزرتے ہیں۔ یہ جانور جیسی حالت پھر کسی پودے جیسی حالت میں بدل جاتی ہے۔ دماغ سست ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سوچیں دہرائی جانے لگتی ہیں۔ دماغ اپنا مخالف بننا شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے سے لڑنا شروع کر دیتا ہے۔ تکلیف کا منبع بن جاتا ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو اذیت کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ میں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو جیسے دوبارہ جیتی تھی۔ پھر اپنی یادیں بھی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اپنی ہی کہانیاں اپنے آپ کو کتنی بار بتائیں۔ اس حالت تک پہنچتے زیادہ وقت نہیں لگتا۔”
سارہ کی تنہائی گہرا نفسیاتی تشدد تھا۔ دماغ تکلیف سے گزر رہا تھا۔ قیدِ تنہائی دنیا کی اکثر جگہوں پر اب ممنوع ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ لمبے عرصے کی تنہائی ہمارے سب سے قیمتی اثاثے کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتی ہے۔ یہ اثاثہ دوسروں کے ساتھ رابطہ ہے۔ اس رابطے کے بند ہو جانے کے بعد سارہ بہت بار ہیلوسینیشن کے کیفیت میں داخل ہو جایا کرتی تھیں۔
“دن کے کسی وقت میں سورج کی کرنیں کمرے میں آنا شروع کر دیتی تھیں۔ میری کھڑکی سے، ترچھا زاویہ بناتے ہوئے اندر پہنچتی تھیں۔ میرے کمرے میں مٹی کے چھوٹے ذرے روشن ہو جاتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ مٹی کے ذرے نہیں ہیں بلکہ اس زمین پر انسان ہیں۔ زندگی سے بھرپور۔ ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں، ٹکرا کر اچھل رہے ہیں۔ مل کر کوئی کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں خود ان کا بھی حصہ نہیں۔ ایک دیوار کے ساتھ ایک کونے میں تنہا ہوں۔ زندگی کے دریا سے الگ ہو چکی ہوں۔”
ستمبر 2010 کو سارہ کو چھوڑ دیا گیا۔ چار سو دس روز کی اس قید کی خراشیں ان کے ذہن پر گہری ہیں۔
مارٹن ہیدیگر، جو ایک فلسفی ہیں، ان کے مطابق ہم محض ایک فرد نہیں بلکہ اس دنیا کے ایک فرد ہیں۔ یعنی فرد باقی سب چیزوں سے کٹ کر ایک ویکیوم میں برقرار نہیں رہتا۔
سائنسدان اور ڈاکٹر تنہائی کے اثرات کا مشاہدہ کر چکے تھے لیکن اس کو براہِ راست کیسے
پڑھا جائے اس پر نومی آئزن برگر نے ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ فرض کیجئے کہ آپ دو اور افراد ک ساتھ ایک گیند کو ایک دوسرے کی طرف اچھال کر کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ دیر بعد دو افراد گیند کو بس ایک دوسرے کی طرف اچھالنا شروع کر دیں اور آپ کو نظرانداز کر دیں، تو کیا ہو گا؟
آئزن برگ نے یہ تجربہ کمپیوٹر گیم کے ذریعے کیا۔ اس میں سے ایک کردار کو رضاکار کنٹرول کر رہا تھا۔ رضاکار کا خیال تھا کہ باقی دو کرداروں کو کوئی اور انسان کنٹرول کر رہا ہے لیکن ان کے پیچھے کمپیوٹر پروگرام تھا۔ ایک دوسرے کی طرف گیند پھینکتے پھینکتے ان پروگرامز نے اس رضاکار کو گیند دینا کم کر دیا اور پھر چھوڑ کر آپس میں کھیلنا شروع کر دیا۔ اس طرح معمولی سی چیز پر نظرانداز کئے جانے پر دماغ پر اس کا کیا اثر ہوا؟ اس کو فنکشنل ایم آر آئی کے ذریعے دیکھا گیا۔ الگ کر دئے جانے کے اتنے معمولی سے احساس سے دماغ کے وہ حصے ایکٹو ہوئے جو اس وقت ہوتے ہیں جب ہم تکلیف میں ہوتے ہیں۔
نظرانداز کر دئے جانا، گروہ سے نکال دئے جانا، ریجکیٹ ہو جانا، تنہا رہ جانا۔ یہ ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ محاورے میں نہیں، اصل میں۔ تنہائی مار دیتی ہے اور اذیت دے کر مارتی ہے۔ یہ آج کی ایک بڑھتی ہوئی وبا ہے۔
یہ ہماری اپنی، خاندانوں کی اور تہذیب و ثقافت کے پیچھے کی، ایک بڑی کہانی ہے۔