جب پو پھٹی اور مشرقی افق پر آسمان اور زمین کے سیاہ پیرہن کو تیز دھار نارنجی لکیر نے کاٹا تو اس وقت وہ کھیتوں کی لمبی سیر سے واپس آ چکا تھا۔ گھر میں زندگی دھیرے دھیرے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی۔ سلیپر گھسیٹنے کی آواز، تانبے کی بالٹی میں بھینس کے دودھ کی ایک ایک دھار گرنے کی چھن چھن، پھر صحن میں لگے نیم کے درخت پر پرندوں کی چہکار، یہ ساری آوازیں مل کر زندگی کا گیت گا رہی تھیں۔ اس نے بھرپور ناشتہ کیا، تازہ گرم روٹی، مکھن دہی اور لسی کے ساتھ ۔ دوپہر اور رات بھی اس کی مطمعن اور مصروف گزری۔ دن کا زیادہ حصہ اس نے گھر سے باہر گزارا، مختلف کام نپٹاتے، دوستوں سے ملتے ملاتے، ہنسی مذاق کرتے۔ شام کو گھر میں وہ پوتے پوتیوں کو دیکھ دیکھ کر اور اپنے بچوں کے بچپن کو یاد کرکے خوش ہوتا رہا ۔ اس کی بہو کا پھرتیلا جسم بالکل اس کی بیوی کی تنی ہوئی جوانی جیسا تھا۔ رات دیر تک وہ تاروں کی ٹھنڈک میں اپنی بیوی سے باتیں کرتا رہا، پھر انھی باتوں کے بیچ کہیں اس کی آنکھ لگ گئی۔
۔۔۔۔۔
دوسرے دن محلے والوں نے مل جل کر اس کی تدفین کا انتظام کیا۔ وہ دیر تک اس کی سال ہا سال کی تنہا ویران زندگی پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...