تانگے کو فوت ہوئے دو دہائیاں ہونے کو ہیں۔بچوں کے سامنے جب تانگے کا نام لیا جاتا ہے تو وہ حیرت زدہ ہو کر اس کی تفصیلات طلب کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے تانگہ صرف تصویروں کی حد تک ہی دیکھا ہوا ہے۔ تانگہ کئی صدیاں انسان کی مختصر فاصلوں کی سفری ضروریات پوری کرتا رہا۔ اکیسویں صدی نے جیسے ہی کروٹ بدلی تانگے کی جگہ بھڑوں کی ملکہ چنگ چی نے لے لی۔اس تبدیلی کے ساتھ ہی زندگی سے ہمارا فاصلہ ایک قدم اور بڑھ گیا۔اب کے ہم نے گھوڑوں سے دوری اختیار کر لی تھی۔ہمیں کیا خبر تھی کہ ایک اور دہائی گزرنے کے بعد چنگ چی کا ایک عدد اور بھائی بھی پیدا ہونے والا ہے جس کا نام لوڈر ہو گا۔اور یہ بھائی جان انسان اور حیوان کے درمیان فاصلوں کی دیوار میں اور اضافہ کر دے گا۔ مزید لدو جانوروں یعنی اونٹ،خچر اور گدھوں کو بھی دھیرے دھیرے انسان اپنی دنیا سے دور کر دے گا۔
تانگے کی بات ہو رہی تھی جو کسی دور میں ہر گاؤں اور ہر شہر کی ضرورت کا باعث ہوا کرتا تھا۔ ریل کی چھک چھک جیسے اس کا ٹک ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ چلنا ایک رومانوی کیفیت تخلیق کر دیا کرتا تھا۔ شہر کی کالی کالی سڑکیں ہوں یا گاؤں کے کچے پکے راستے تانگوں کا چلن ہر جا اپنا ماحول بنائے رکھتا۔ شہروں میں تانگوں کے باقاعدہ اڈے ہوا کرتے تھے جہاں گھوڑوں کی ضروریات کے مد نظر ان کے پانی پینے کے لیئے ناند بنائے جاتے، چھاؤں کا بندوبست کیا جاتا، گھاس رکھنے اور کھانے کے لیئے جگہیں بنائی جاتیں۔ گرمیوں کی لمبی دوپہریں ہوتیں یا سردیوں کی سرد شامیں کوچوانوں کے یہ ڈیرے ہمہ وقت آباد رہتے۔
شعر و ادب اور موسیقی بھی تانگے اور یکے کے سحر سے نہ بچ سکی۔ منٹو کا مشہور افسانہ نیا قانون ایک کوچوان منگو کے دلچسپ کردار کے گرد گھومتا ہے۔یکے والی فلم میں مسرت نزیر نے تانگہ چلا کر لافانی شہرت حاصل کی تو مسعور رانا کے گیت تانگے والا خیر منگدا نے گلوکار کا ڈنکا گلی گلی میں بجا دیا۔ قاسمی اور اے حمید کے افسانوں میں بھی تانگے اور کوچوانوں کے تزکرے عام ملتے ہیں۔ لاہور میں بھاٹی گیٹ کے قریب تانگے کو اچانک بریکیں لگ گئیں تو عبدالحمید عدم جو تانگے پر سوار تھے نیچے اتر آئے۔ کوچوان نے لاکھ کوشش کی لیکن گھوڑا ایک قدم بھی آگے بڑھانے پر آمادہ نہ تھا۔عدم نے اپنی بوتل نکالی اور گھوڑے کے منہ سے لگا دی۔ گھوڑے نے انگور کی بیٹی کے دو گھونٹ ہی پیے ہوں گے کہ سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا۔
دوسرے شہروں کی طرح لاہور میں بھی ایک زمانے تک تانگوں اور گھوڑوں کا راج رہا۔ ایک دور تھا جب مال روڈ،مکلوڈ روڈ اور ریلوے سٹیشن پر تانگوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ بول چال اور ادب میں بھی تانگوں کے متعلق الفاظ زبان زد خاص و عام ہوا کرتے تھے۔ بمب، پائیدان، ساز ، نعل، گھنگرو اور زین جیسے خوبصورت الفاظ بھی اب قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ مغلوں کے دور میں شاہی بگھیوں کا رواج ہوا کرتا تھا۔ جبکہ قدیم یونانی دیو مالاؤں میں رتھ کا ذکر ملتا ہے جس کے شکل بھی تانگوں سے ملتی جلتی ہوا کرتی تھی۔ رتھ جنگ میں استعمال کی جاتی تھی۔میرے شہر میانوالی میں بھی تانگے ہر گلی، بازار میں چلتے پھرتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ ریلوے سٹیشن کے شمال کی طرف تانگوں کا پرانا سٹینڈ ہوا کرتا تھا۔بلوخیل روڈ، گرو بازار، گورنمنٹ سکول روڈ اور کچہری بازار تانگوں کی خاص گزرگاہیں ہوا کرتی تھیں۔کالجوں اور سکولوں میں جانے کے لیے بھی تانگے ہی لگوائے جاتے تھے۔ گرلز سکولوں اور کالج کے باہر چھٹی کے وقت تانگوں کی لمبی قطاریں موجود ہوا کرتی تھیں۔جب کبھی تانگے کا ساز بجتا، گھنٹی کی آواز آتی جس کو کوچوان پاؤں سے بجایا کرتا یا گھوڑے کے ٹاپوں کا خاموش شور بلند ہوتا تو پورے ماحول میں ایک طلسم طاری ہو جاتا ۔ اس وقت شاید کسی نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ سب ایک دم ختم ہو جائے گا۔ تانگہ گھوڑے سمیت ہمیشہ کے لیئے ہماری زندگیوں سے نکل جائے گا۔ تانگے گھوڑے کی یہ کہانی ایسے ختم ہو ئی کہ اب ہمارے بچے پوچھتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ پاپا یہ۔ ۔ ت۔ ۔ ۔ تانگہ کیا ہوتا ہے؟