ہم نے جوکچھ بویا وہی کاٹ رہے ہیں، تنبے کا درخت انجیر کا پھل نہیں دیتا۔
روسیوں کو وسط ایشیا ہڑپ کرنے میں دوسوسال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ ان کا پہلا ہدف خیوا تھا ۔ کتنی ہی مہمات اس برفانی راستے کی نذر ہوگئیں جو ماسکو سے خیوا تک بچھا ہوا ہے۔ ایک بار تو پوری فوج راستے میں ختم ہوگئی۔ ایسی ظالم سردی کہ ہاتھ یاپاﺅں برہنہ ہوتا تو جھڑ جاتا۔
1860
میں روسیوں نے تاشقند پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی ہندکو
صاف نظر آرہا تھاکہ روسی رکیں گے نہیں۔جنوب کی طرف بڑھیں گے۔ برطانوی جاسوس دریائے آمو کے پار پھیل گئے۔ کوئی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں اور کوئی کسی اور بھیس میں۔ یہ گریٹ گیم تھی۔ برطانیہ کی کوشش کہ روس جنوب کی طرف نہ آئے اور روس کا ہدف کہ برطانیہ وسط ایشیا کے دروازے پر دستک نہ دینے لگے۔ جب روس نے سمرقند‘ بخارا اور ترمذ بھی چھین لیے تو برطانوی ہند نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن یکے بعد دیگرے کئی جنگی مہمات ناکام ہوئیں۔ ایسی ہی ایک مہم تھی جس میں کابل سے واپس آنے والی انگریزی فوج پوری کی پوری افغانوں نے نیست و نابود کردی۔ صرف ایک فوجی ڈاکٹر زندہ جلال آباد پہنچ سکا۔ تاریخ نے انگریزوں کو بھی سبق سکھایا اور روسیوں نے بھی نجات اسی میں سمجھی کہ افغانستان درمیانی (بفر) ریاست ہو۔ روسی افغانستان کے شمال پر رک جائیں اور انگریز طورخم اور چمن سے آگے نہ بڑھیں۔ لیکن انگریز روسیوں سے زیادہ سمجھدار تھے۔ انہوں نے برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان بھی محفوظ علاقوں کی ڈھال رکھ لی۔ ان علاقوں کو انہوں نے اندرونی خودمختاری دے دی۔ ان کے خوانین اور سرداروں کو خوش رکھنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ان علاقوں میں وہ قوانین نافذ نہیں ہوں گے جو باقی ہندوستان میں جاری وساری تھے۔ یہ علاقے قبائلی علاقے کہلائے۔ انگریزوں کا مفاد اسی میں تھا کہ یہاں تعلیم ہو نہ روزگار۔ اور یہاں کے کھڑپینچ جو ملک اور خان کہلواتے تھے، اس رقم پر انحصار کریں جو انگریزی حکومت ”پولیٹیکل ایجنٹ“ کے ذریعے تقسیم کرتی تھی۔ اگر کبھی روس افغانستان پر چڑھ دوڑے تو یہ قبائلی علاقے افغانستان اور برطانوی ہندکے درمیان غیرجانبدار پٹی کا کام دیں!
قسیم ہوئی۔ پاکستان بن گیا۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ کوتاہ اندیشی کی بدترین مثال ہے۔ وژن ناپیدا تھا ۔ اوپر سے نااہلی اور کرپشن۔ نتیجہ وہ نکلا جو آج اہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔ جو بویا تھا، کاٹا جارہا ہے۔ تنبے کے درخت پر انجیر کا پھل نہیں لگتا۔
پینسٹھ سال۔ نصف صدی اور پندرہ سال اس کے اوپر۔ یہ کم مدت نہیں۔ بیس سال میں چین نے پوری دنیا کی منڈیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ سنگاپور اور ملائشیا نے قیام پاکستان کے بعدانگڑائی لی اور آج ان کا شمار باعزت قوموں میں ہورہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں امریکی بزنس کے لئے بولی دے رہی ہیں اور جیت رہی ہیں۔ نصف صدی اور پندرہ سال اس سے بھی زیادہ! پاکستان نے مظلوم قبائلی علاقوں میں وہی پالیسی جاری رکھی جو غاصب اور دشمن انگریز نے بنائی تھی۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کے خوانین میں روپیہ بانٹو۔ انہیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں سمگلنگ کرنے دو۔
کراچی لاہور پشاور میں دھڑا دھڑ سکول کالج بننے لگے۔ کارخانے لگنے لگے۔ ان سکولوں کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والی لڑکیاں اور لڑکے آکسفورڈ اور ہارورڈ پہنچ گئے۔ کچھ واپس آئے۔ جو وہیں بس گئے انہوں نے اپنے اعزہ اور احباب کو بھی بلالیا۔ ایک سلسلہ چل نکلا۔ مگر قبائلی جہاں تھے وہیں رہے۔ آخر کتنے پشاور اور لاہور جاسکتے تھے؟ برائے نام۔ بالکل انگلیوں پر گنے جانے والے۔ اکثریت اپنے خشک پہاڑوں پر ہی رہی۔ جب پشاور لاہور اور کراچی کے بچے کیلکولیٹر سے لیپ ٹاپ تک کا سفر طے کررہے تھے، قبائلیوں کے بچے غلیل اور بندوق سے آگے نہ
بڑھ سکے۔ کیا اس سے زیادہ شرمناک حقیقت کوئی اور ہوسکتی ہے کہ شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند ۔کہیں کوئی یونیورسٹی نہیں۔ کوئی کارخانہ نہیں۔ حیااور عقل سے عاری لوگ جو لاہور کراچی اور اسلام آباد میں شاپنگ مال اور محلات اور یونیورسٹیاں اور صنعتی زون بنانے میں لگے رہے، یہ نہ سمجھ سکے کہ قبائلی ایک دن ایسی پالیسی کا انتقام لیں گے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ خشک پہاڑوں، غلیلوں اور بندوقوں سے، پولیٹیکل ایجنٹوں کے تقسیم کردہ روپے سے اور ان پڑھ اور راشی خوانین کی آمریت سے بیت اللہ محسود ہی پیدا ہوتے ہیں۔ برٹرنڈر رسل نہیں پیدا ہوتے۔ آج ہم نے آسمان سرپر اٹھا یا ہوا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ یہ حملہ آور‘ یہ مولانا فضل اللہ ہماری اپنی پالیسیوں کی پیداوار ہیں۔ ہم نے جتنی توجہ ساٹھ سال میں کراچی اور لاہور پر دی، اس کا نصف بھی سوات پر دیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ اس سارے عرصہ میں سوات میں کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ایک بھی نہیں! جن عورتوں کو ہم نے جہالت کے غلاف میں لپیٹ کر رکھا، انہوں نے اس مولانا فضل اللہ کے قدموں میں زیورات ڈھیر ہی کرنے تھے جس نے سکول کالج کی شکل ہی نہیں دیکھی تھی اور مدرسہ میں بھی ایک دوسال ہی پڑھا تھا !
کل کو اگر جنوبی پنجاب میں نئے فضل اللہ اور نئے محسود پیدا ہوتے ہیں اور وہاں کی ملالہ یوسف زئیوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں توتعجب کیسا! غربت کا یہ عالم ہے کہ ماں باپ تین تین چار چار سال کے بچوں کو دوڑنے والے اونٹوں پر باندھے جانے کے لئے مشرق وسطیٰ بھیج دیتے ہیں۔ ساٹھ فی صد سے زیادہ آبادی ہیپی ٹائٹس بی اور سی کا شکار ہے۔ تہمینہ درانی نے لکھا ہے کہ جاگیردار نوکروں کو قتل کرکے ان کے جسم دیگوں میں پکا کر اونٹوں کو کھلا دیتے ہیں۔ گیلانی قریشی کھوسے مزاری لغاری اسی سامراجی ذہنیت سے حکومت کررہے ہیں‘ جس سے کرزن اور ہیٹنگز نے کی تھی۔ ملتان سے لے کر بہاولپور تک۔ ڈیرہ غازی خان، کوٹ ادو ، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ساٹھ سالوں میں کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں بنی ہیں؟ خواندگی اور تعلیم میں کس شرح سے اضافہ ہوا ہے؟ ہاں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اور بچوں اور عورتوں کی شرح اموات میں بھی اور ان مدارس کی تعداد میں بھی جہاں غربت کے مارے ہوئے بے بس بے کس والدین اپنے لخت ہائے جگر کو چھوڑ جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ خواہ وہاں سے وہ عالم بن کر نکلیں یا نیم تعلیم یافتہ ملا یا خودکش بمبار!
جس ملک میں کچھ ملزم منتخب اداروں میں جابیٹھیں اور کچھ ملزموں کو بے گناہی ثابت کرنے کے لئے جلتے انگاروں پر چلنا پڑے اور جس ملک میں کچھ لڑکیوں کو حق حکمرانی ورثے میں ملے اور کچھ کو ونی کردیا جائے، وہاں فضل اللہ اور بیت اللہ محسود ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہاں کی ملالہ یوسف زئیوں کے سروں میں گولیاں ہی اترتی ہیں۔