شعر کی موزونیت اور فصاحت کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے ،وزن،بحر،خیال کی بلندی،
الفاظ کا حسن ،بہاؤ اور روانی شعر کو دو آتشہ کر دیتے ہیں،
اگرچہ شاعری میں حسن بیانی ایک وہبی شے ہے کسبی نہیں لیکن الفاظ کی خوبصورتی کا اہتمام اور چناؤ میں محنت اور غوروخوض شعریت اور تغزل میں چار چاند لگا دیتے ہیں،کلام میں بہت سی بے احتیاطیاں ایسی ہیں جن سے شعر کی روانی اور حسن متاثر ہوتا ہے۔
فصاحت یعنی اجزائے کلام میں حسنِ ترتیب متاثر ہوتی ہے۔
جمال ؔ کھیل نہیں ہے کوئی غزل کہنا
کہ اک بات چھپانی ہے،اک بات بتانی ہے
صوتی تنافر فصاحت کو متاثر کرنے والا ایک عیب ہے۔
یعنی ایک مصرع میں دو یا زائد الفاظ میں ایک ہی حرف کا اس طرح جمع ہو جاناکہ لفظ اور روانی کو متاثر کرے،ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہو۔
تنافر دو قسم کا ہے ایک خفی یا ہلکاا ور دوسرا جلی یعنی واضح تنافر۔
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا (غالب)
اس مصرع میں “ج” تنافر پیدا کر رہا ہے جو معمولی اور ہلکا ہے،اس لئے قابلِ قبول ہے۔ یہ تنافر خفی ہے۔
کیا قسم ہے یہ ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں (غالب)
اس مصرع میں “ک” کا یکے بعد دیگرے آنا ادائیگی میں شدید رکاوٹ کا باعث ہے،یہ تنافر جلی کہلاتا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ تنافر کا انحصار ادائیگیِ الفاظ یا صوتی ترکیب پر منحصر ہے نا کہ الفاظ و حروف کی بندش پر۔
فصاحتِ کلام کی کوئی ٹکسال مقرر کرنا تو ممکن نہیں لیکن یوں کہہ لیجیے کہ کلام 'عیبِ سخن' یعنی تنافر نیز دیگر عیوب سے پاک ہو اور آسان فہم ہو۔ شستہ و شگفتہ الفاظ کا برمحل استعمال ہو اور ایسا دلکش ہو کو سماعت پر گراں نہ گزرے بلکہ شیریں محسوس ہو۔
فصاحت کے پیمانے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں کہ آج اہل زبان جو روز مرہ استعمال کرتے ہیں کچھ عرصہ بعد وہ بدل جاتا ہے، نت نئے محاورات وجود پذیر ہوتے ہیں جن سے شعر کے فصیح یا غیر فصیح ہونے کا پیمانہ بھی بدلتا رہتا ہے۔