تانا شاہ کے گیس چیمبر کی کمان صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے
مختلف زہریلے بیانات کے پیچھے صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے .
—–
پچھلے چار برسوں کا جایزہ لیجئے تو ملک کی سیاست میں ایسے کیی سیاست دان سامنے اے ،جنکے زہریلے بیانات نے ملک کی موجودہ فضا کو پر خطر بنانے کا کام کیا .دنگے بھڑکے – کہیں آگ لگی .کہیں مسجدوں پر دہشت گرد ترشول لے کر ٹوٹ پڑے .مسلمانوں اور دلتوں کی مخالفت میں زہریلے بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے .کبھی دادری ،کبھی مظفر نگر ، کبھی کویی اخلاق کبھی کویی پہلو خان ..پھر ذرا چٹخارے کے لئے آشرم اور باباؤں کے قصّے میڈیا کو ،مسلم مخالف ماحول سے کچھ وقفے کے لئے باہر نکال کر راحت پہنچانے کا کام کرتے .لیکن سیاست کے اس آتشیں بھنور میں ہم ان قصّوں میں الجھ کر بھول جاتے کہ حقیقت کی سیاہی ہمیں کہاں لے کر جا رہی ہے .کیا تانا شاہ کے گیس چیمبر کی کمان صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے ؟کیا مختلف زہریلے بیانات کے پیچھے صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے .؟
یہ گیس چیمبر دراصل ہماری سیاست کا گیس چیمبر ہے ،جسے کوئی بھی میڈیا رام رحیم گرمیت کے خفیہ تہ خانے کی طرح تلاش نہیں کر پایگا .کیونکہ اس گیس چیمبر میں چار برسوں کے اندر اتنی زہریلی گیس جمع ہو چکی ہے کہ عام آدمی کا دم گھٹ جائے گا .
موجودہ سیاست اپنے ٹارگٹ میں اسلئے کامیاب ہے کہ کمان صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہے .
سیاست کے بلیو وھیل گیم کے اندر ایک مشن ہے ،جہاں دوستی ،اخلاقیات اور سمجھوتے کو کویی دخل نہیں —
موجودہ سیاست کی رفتار میں ایک ہی آواز ہے جس کی بازگشت سنایی دیتی ہے …ایک ہی شخص ہے جسکی آواز چہرے بدل بدل کر گونجتی ہے بھلے اس شخص نے پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے ،لیکن جو فرقہ پرست آوازیں گونجتی ہیں ،دراصل وہ آوازیں بھی فیک ہوتی ہیں –چہرہ کسی کا لیکن ماسک ایک ..کیونکہ تین چار برس کی مدت میں یہ اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آواز کی طاقت کا استعمال کر سکے .پیہاں کٹھ پتلیاں جمع ہیں جنہیں وقفے وقفے اسٹیج پر لایا جاتا ہے .انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق چودہ سو سے زیادہ فائلیں پی ایم آفس میں دستخط کی محتاج ہیں .یعنی کسی بھی وزیر کے پاس کویی کام نہیں ہے .کبھی کبھی ارون جیٹلیی کویی پریس کانفرنس کرتے بھی ہیں تو ایسے بیانات دے کر بچاؤ کرتے نظر آتے ہیں جنکا کویی سر پیر نہیں ہوتا .سیاہ دھن کی واپسی کے لئے نوٹ بندی کا فرمان جاری ہوا .لیکن جو دولت واپس آی اس سے ہزار گنا دولت نیے نوٹوں کو چھاپنے میں خرچ ہو گی .جیٹلی بھی ان بیانات کی حقیقت خوب سمجھتے ہیں .ابھی حال میں گرمیت رام رحیم معاملے میں امیت شاہ نے عدلیہ کے خلاف بیان دیا جو مدھیہ پردیش کے ایک اخبار میں شایع ہوا .اس خبر کو فارن دبا دیا گیا .پھر یہی بیان ساکشی مہاراج سے دلوایا گیا .امیت شاہ کی جملے بازی والے بیان کو سامنے رکھیں تو ہر زہریلا بیان جملے بازی سے وابستہ ہے .اور ان سارے بیانات کے پیچھے کتھپتلیاں مختلف ہیں .لیکن ماسک ایک ہے .چوتھی دنیا کے تین ستمبر کے شمارے میں سنتوش بھارتی نے لکھا کہ آزادی کے موقع پر وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ ہند کے بیانات فلل اسٹاپ ،کوما تک ایک تھے .کویی فرق نہیں .مسلم دلت مخالفت کے علاوہ سیاسی ڈیل میں استعمال ہو چکے لوگوں کو دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال پھیکنے کا رواج بھی ون مین انڈیا کی طاقت کی طرف کھلا اشارہ کرتا ہے . منصب سنبھالتے ہی بوڑھے چہرے مارگ درشک منڈل بنا کر حاشیے پر ڈال دئے گئے .جس نے پہلے کبھی مخالفت کی صدا بلند کی ہو ،اس آواز کو خاموش کر دیا گیا .سشما سوراج ، مینکا گاندھی ،ورون گاندھی ، وسندھرا راجے سندھیا ،شیو راج سنگھ چوہان ،ایک لمبی فہرست ہے ،جنہیں دلی دربار سے دور رکھا گیا .
اس وقت حکومت نہیں ،ایک خوفناک مشن کی ڈیل چل رہی ہے .
لیکن ایک سچ ہم اکثر بھول جاتے ہیں -چنگیز ،ہلاکو کے قصّے ،انقلاب فرانس سے ورلڈ وار اور ہٹلر کے گیس چیمبر تک — آج صرف دھندھلی دھندھلی کہانیاں رہ گی ہیں ،جنہیں پڑھتے ہوئے تھذیب شکستہ کے اوراق کیسا دکھ پہچاتے ہیں ،یہ مہذب دنیا کے لوگوں سے پوچھ جا سکتا ہے .کیی بار حکومت ،سامراج ،سلطنت صرف ایک شخص کے ہاتھ میں رہی .لیکن ان میں کویی بھی ایسا نہیں رہا ،جنہیں ہم فخر کے ساتھ یاد رکھ سکیں –
ایک دن گیس چیمبر کا کمرہ انقلاب کی آوازوں سے گونج اٹھتا ہے .پھر ایک نیی سحر طلو ع ہوتی ہے .
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“