تو پھر کیا بچہ بھی خاموش رہے؟
جلوس کے جلو میں بادشاہ چل رہا ہے۔ درباری، کیا وزیر، کیا مشیر‘ کیا مصاحب، کیا عمائدین۔ سب نئے’’لباس‘‘ کی تعریف کر رہے ہیں! ایک بالکونی سے بچہ چلاّ اٹھا’’بادشاہ ننگا ہے‘‘! تو پھر کیا بچہّ بھی خاموش رہے؟
آئی ایس پی آر کے بیان سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ تہلکہ برپا ہے! درو دیوار لرز رہے ہیں! اسی لکھنے والے کا شعر ہے ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
ایک صاحب نے اعلان کیا ہے کہ فلاں صورتِ حال میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا! جیسے ماضی میں آپ نے کبھی کسی کا ساتھ دیا!
جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے! جمہوریت ؟ کون سی جمہوریت؟ اللہ کے بندو! جمہوریت کے جسم میں ایک ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے! ریڑھ کی اس ہڈی کو پارلیمینٹ کہتے ہیں! سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمینٹ کی اپنی بھی ریڑھ کی ہڈی ہے؟
گورننس کا کیا حال ہے، سب کو معلوم ہے! عوام کی بھاری تعداد نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں! اب اس کی حیثیت نبض کی سی ہے! آئی ایس پی آر کو نشان دہی کرنے کی کیا ضرورت تھی! خلا کہیں بھی نہیں رہ سکتا! کسی نہ کسی نے تو بھرنا ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے جبھی کہا تھا ؎
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی نہیں رہا کرتا
گورننس کا کوئی سر پیر نہیں! کوئی سسٹم کوئی نظام نہیں! انگریزوں نے جہاں بّرِصغیر کو بہت سی قابلِ تحسین روایات دیں، ان میں ایک گورننس کی
HIERARCHY
بھی تھی! یعنی چین آف کمانڈ ! ذمہ داری سربراہ کی ہے! پھر اس کی جو اس کے بعد! سب سے بڑے صوبے کے سربراہ ہسپتال کا معائنہ کرتے ہیں اور صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں! مگر متعلقہ وزیر اور متعلقہ سیکرٹری کو طلب کرتے ہیں نہ ذمہ دار ٹھہراتے ہیں! صوبے میں پولیس گردی کا یہ عالم ہے کہ ماڈل ٹائون سے لے کر ڈسکہ تک جسے چاہے مار دے۔ چلیں یہ تو صوبے کی بات ہے۔ وفاق میں کیا ہو رہا ہے؟ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ دارالحکومت کو جرائم سے پاک کیا جائے گا۔ وہ ایک سنجیدہ شخص ہیں۔ اور اس اکثریت سے یکسر مختلف جو وفاقی حکومت میں شامل ہو کر بھی وسطی پنجاب کی تنگ ہٹی سے ذہنی طور پر باہر نکلنے کو آمادہ نہیں! وزیر داخلہ کا نام کسی سکینڈل میں بھی کبھی نہیں آیا۔ مگر کیا وہ پولیس کو راہ راست پر لے آئیں گے؟ حالت یہ ہے کہ بگڑے ہوئے چند نوجوانوں کو پولیس نے ضابطے کے اندر لانے کی کوشش کی۔ دوسرے دن پولیس کے افسر نے انہی نوجوانوں کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی۔ وزارتِ داخلہ نے بعد میں اُس افسر کو معطّل کیا! اپریل2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ ماہ کے دوران دارالحکومت میں قتل کے 243کیس‘ ڈاکے‘ نقب زنی اور لوٹ مار کے 1721‘ چوری کے 775‘ کار چوری کے 1359اور موٹر سائیکل چوری کے 712کیس ریکارڈ کیے گئے ۔ دارالحکومت سے اوسطاً ایک دن میں تین گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔
کیا وزیر اعظم وفاقی وزارتوں کی کارکردگی جانچ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کس طرح؟ کیا نظام ہے اور کیا طریق کار (میکانزم) ہے؟ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں وزیروں کے نام موصول ہونے والے پبلک کے خطوط میڈیا کے نمائندے کھولتے ہیں اور متعلقہ وزیر یہ شکایات بعد میں پڑھتے ہیں۔ ان کے پڑھنے تک میڈیا کے ذریعے ان کی تشہیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اپنے وزیروں کی اور وزارتوں کی کارکردگی سے بے خبر ہیں اور بے نیاز بھی! چھوٹی سی مثال۔ دیگ کا ایک دانہ چکھیے اور اندازہ لگائیے کہ باقی دانے کیسے ہوں گے۔ حکومت (یعنی وفاقی حکومت) نے دارالحکومت کے سیکٹر جی2/10میں کم آمدنی والے سرکاری ملازموںکے لیے ڈی ٹائپ اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی سکیم کا ڈول ڈالا۔ اس منصوبے کی تکمیل2010ء میں ہونا تھی۔ 2010ء آیا اور گزر گیا۔ پانچ سال ہو چکے۔ وقت 2015ء کی بساط بھی لپیٹنے کے قریب ہے ۔ مگر اپارٹمنٹ بنانے کا یہ منصوبہ ابھی تک تکمیل سے اتنا ہی دور ہے جتنا اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کا بدبخت منصوبہ! مزے کی خبر اس سے آگے ہے۔ چار دن پہلے سینیٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر صاحب نے تاخیر کی جو وجوہ بتائیں، وہ سنیے!
1
جائے تعمیر پر جنگل تھا۔ اسے صاف کرنے میں دیگر لگی
-2
یوٹیلیٹی سروسز کے لیے زیر زمین پائپ بجھانے تھے۔
-3
زمین میں چٹانیں تھیں
-4
زیر زمین
(Subsoil)
صورت حال کی وجہ سے بنیادوں کا ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔
-5
زلزلے کی وجہ سے بدلے ہوئے قوانین کے سبب ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔
-6
تفتیش کی وجہ سے دو سال کام رکا رہا۔
آپ غور کیجیے کہ ان میں سے کون سی وجہ تھی جو کام شروع کرنے سے پہلے معلوم نہیں تھی۔ زلزلے کی وجہ سے تعمیراتی قوانین تو 2005ء کے زلزلے کے فوراً بعد ہی تبدیل کر دیئے گئے تھے۔ Soilٹیسٹ دنیا بھر میں ڈیزائن تیار کرنے سے پہلے کیاجاتا ہے۔ ڈیفنس ہائوسنگ رہائشی کالونیوں میں ٹیسٹ لازم ہے! اور یہ کون سی تفتیش تھی جو دو سال جاری رہی اور کام رکا رہا! 2013ء میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ چوبیس کروڑ کے اضافی اخراجات اسی وقت بتائے گئے۔ وزیر صاحب نے تازہ خوش خبری یہ سنائی ہے کہ تاخیر کی وجہ سے حکومت کو پانچ کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔
یہ ہے ہلکی سی جھلک نااہلی کی! نالائقی کی اور لاقانونیت کی! کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن دفتر تشریف لاتے ہیں؟ یہ صرف ایک وزارت کا حال ہے! باغ کی اس جھلک سے باقی بہارکا اندازہ لگا لیجیے!
کیا کبھی پارلیمنٹ نے پوچھا کہ حکومت کے سربراہ ہفتے میں یا مہینے میں کتنے دن دارالحکومت میں اور اپنے دفتر میں گزارتے ہیں؟ یا زیادہ وقت کہاں‘ کس شہر میں گزرتا ہے؟ کیا حکومت کا سربراہ قوانین سے اور ضابطوں سے اور قواعد سے مبّرا ہے؟ تو پھر وزراء کیوں نہ مبّرا ہوں؟
عساکر کے جوان اور افسر جانیں قربانیں کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی نرسریاں فوج نے نہیں‘ سول حکومت نے بند کرنی ہیں۔ مدارس میں اصلاحات کے لیے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بن رہی ہیں۔ مذاکرات یوں ہو رہے ہیں جیسے دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں! حکومت کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ کُل مدارس کتنے ہیں‘ کہاں کہاں ہیں، ان میں کون کون رہتا ہے اور کون کون آ کر ٹھہرتا ہے! آئی ایس پی آر عدم اطمنان کا اظہار نہ کرے تو کیا تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“