پاکستان میں چونکہ ٹماٹر پورا سال نہیں اگائے جا سکتے اور جس سیزن میں یہ مارکیٹ میں آتے ہیں تب ان کی رسد زیادہ اور طلب کم ہو جانے کی وجہ سے ان کا ریٹ کسان کو بہت کم ملتا ہے۔ اور جن دنوں اس کی طلب بڑھ کر رسد کم ہو جاتی ہے تب کسان کے پاس ٹماٹر نہیں ہوتا۔ اس کا حل یہی ہے کہ کسان سیزن میں اپنے ٹماٹر کو لاگت سے بھی کم ریٹ پر فروخت کرنے کے بجائے ٹماٹر کی پراڈکٹس بنا کر محفوظ کر لے یا کچھ پراڈکٹس فوراً بھی مارکیٹ میں لے جائے تو خام ٹماٹر سے اچھا ریٹ ملتا ہے۔ اس کی بہت ساری ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس میں سے ٹماٹر کے خشک ٹکڑے اور پاؤڈر ایک ایسی پراڈکٹ ہے جسے آج ہم زیر بحث لائیں گے اور اس کے طریقے دیکھیں گے۔ اس کام میں کسی انڈسٹریل مشین کی بھی ضرورت نہیں بلکہ گھر پر آرام سے یہ پراڈکٹ بنائی جا سکتی ہے۔
تیاری:-
ٹماٹروں کو اچھی طرح دھو کر گول گول ٹکڑوں میں کاٹ لیں جن کی موٹائی زیادہ نہ ہو۔ اس کے بعد ٹکڑوں کو خشک ہونے کے پراسس میں لے جایا جا سکتا ہے مگر یہاں ایک بات اہم ہی کہ اگر آپ کمرشل سطح پر کام کر رہے ہیں تو آپ کو Preservatives کی ضرورت پڑے گی جو پراڈکٹ کی کوالٹی کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے میں مدد دیں گے-
اس میں مندرجہ ذیل تین Preservatives میں سے کوئی ایک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
1: Potassium metabisulfite
2: Sodium metabisulfite
3: Sulphur dioxide
ہم Sulphur dioxide اور Sodium metabisulfite کو استعمال نہیں کریں گے کیونکہ یہ مطلوبہ نتائج کم دیتے ہیں-
ہم Potassium Metabisulfite کو استعمال کریں گے کیونکہ یہ مندرجہ ذیل فوائد دیتا ہے۔
ٹماٹر کے رنگ کو محفوظ رکھتا ہے
ری ہائیڈریشن کا عمل تیز کرتا ہے ( کسی خشک چیز کو پانی میں ڈالنے سے وہ نمی جذب کر کے اپنی اصل حالت کی طرف آتی ہے تو اسے ری ہائیڈریشن کا عمل کہتے ہیں)
ٹماٹر کو زیادہ دیر تک فنگس سے محفوظ رکھتا ہے-
اب Potassium metabisulfite کو استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب ٹماٹر کا کاٹ لیں تو Potassium Metabisulfite کا تین فیصد محلول( یعنی تین حصے preservative اور باقی پانی) بنا کر اس میں ٹماٹر کے ٹکڑوں کو پانچ منٹ تک ڈبو دیں۔ پانچ منٹ کے بعد ان کو ٹنل میں یا براہ راست دھوپ میں خشک کر لیں۔
خشک کرنے کاطریقہ کار:-
ٹماٹر کو تب تک خشک کریں جب تک اس میں نمی کی شرح 10 فیصد سے کم رہ جائے۔
طریقہ:1 براہ راست دھوپ میں
ٹماٹر کو براہ راست کھلے آسمان تلے سورج کی دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے مگر اس میں رات کو ٹماٹر کے اوپر کوئی پلاسٹک وغیرہ ضرور ڈال دیں تاکہ رات کی شبنم یا نمی ٹماٹر کو متاثر نہ کرے۔ اس طریقہ میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے جو 4 دن سے لے کر پندرہ دن بھی ہو سکتا ہے موسمی حالات کے مطابق اور دوسرا اس میں ماحول کی گرد سے ٹماٹر محفوظ نہیں ہوتے گرد ان پر گرتی رہی ہے جس کی وجہ سے کوالٹی اچھی نہیں ملتی-
طریقہ :2 ڈی ہائیڈریٹر کا طریقہ
اس طریقہ میں بھی سورج کی روشنی استعمال کی جاتی ہے مگر خشک کرنے کا عمل ایک مخصوص ڈیزائن کے ڈی ہائیڈریٹر یا ٹنل کے اندر کیا جاتا ہے۔ ٹنل کی مدد سے ٹمپریچر زیادہ حاصل کیا جاتا ہے جس سے خشک ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ ٹنل کے اندر 135 فارن ڈگری ہائیٹ ٹمپریچر آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے ایک دن میں ٹماٹر خشک ہو جاتا ہے۔ کمرشل سطح کے لیے ٹنل بہترین آپشن ہے اس میں عمودی اسٹینڈ بنا کر ان کے اوپر ٹرے عمودی صورت میں لگائے جاتے ہیں جی وجہ سے ٹنل کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے ٹماٹر کی مانگ مارکیٹ میں سب سے زیادہ ہے اس کی کوالٹی تمام طریقوں سے اچھی ہے۔ گھریلو سطح کے لیے چھوٹے ڈی ہائیڈریٹر بنائے جاتے ہیں۔
طریقہ :3 اوون (Oven) کا طریقہ
اس طریقہ میں بجلی سے چلنے والے اوون استعمال ہوتے ہیں۔ ان کا درجہ حرارت 190 ڈگری فارن ہائیٹ پر سیٹ کر کے 8-10 گھنٹے میں ٹماٹر خشک کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کوالٹی میں کم ہوتے ہیں اور بجلی کی وجہ سے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
پیکنگ کرنے کا طریقہ:-
ٹماٹر کے خشک ٹکڑوں کو یا پاؤڈر کو گلاس کے جار یا ہوا بند پلاسٹک کے لفافوں میں بند کر کے پیکنگ کی جاتی ہے تاکہ یہ فنگس سے بھی محفوظ رہیں اور زیادہ دیر تک اپنی کوالٹی برقرار رکھ سکیں۔
استعمال اور مارکیٹ:-
بیکری میں
کنفیکشنری انڈسڑی میں
مشروبات میں
Snacks میں
مصالحہ جات انڈسڑی میں
ہوٹلوں اور گھروں کے کھانوں میں
کیچپ اور ٹماٹر کی چٹنی میں کی انڈسٹری میں
اور جہاں تک مارکیٹ کا سوال ہے تو اس کی مارکیٹ اپنی کوششوں سے بنانی پڑے گی۔ دنیا میں مسواک عام تھی ٹوتھ پیسٹ کا نام بھی نہیں تھا، لوگ گڑ کے شربت کے عادی تھے پیپسی کولا کا وجود ہی نہیں تھا۔ کیا کچھ سال پیچھے چلے جائیں تو پاکستان میں پیزا اور فاسٹ فوڈ کا وجود تھا؟ اور اس وقت ہمارے استعمال میں بہت ساری ایسی اشیاء ہیں جن کو کسی وقت میں بنانے والے نے ضرور سوچا ہوگا کہ خریدے گا کون۔ مگر کمپنیوں نے اپنی حکمت عملیوں سے ہمیں ان سب چیزوں کا عادی بنا لیا ہے اور ان کی مارکیٹ مضبوط ہو چکی ہے۔ لہذا مارکیٹ ہمیں خود بنانی ہے کوئی دوسرا ہمارے لیے یہ کام نہیں کرے گا اگر کرے گا تو اپنے مفاد کی خاطر ورنہ آپ پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔ اپنی پراڈکٹ بنا کر گھر بیٹھ جاؤ گے تو خریدنے کوئی نہیں آئے گا اور بازار میں نکل کر سو لوگوں سے ملو گے اپنی پراڈکٹ کے فائدے اور ان کے لیے آسانیاں بتاؤ گے تو دو چار گاہک ضرور مل جائیں گے اور ایسے ہی مارکیٹ بنتی ہے۔ اور آپ کو ایک حقیقت بتاؤ سب سے بڑی مارکیٹ ہم خود ہیں۔ پاکستان کی ستر فیصد سے زیادہ آبادی کسانوں کی ہے، دیر بس اتنی ہے کہ ہم کب ایک دوسرے کے لیے مددگار بنیں گے۔