چند دن پہلے مین بازار منصور آباد میں ٹماٹر والا دس روپے کلو کی آواز لگا رہا تھا۔ ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اگر پیسے نہیں تو مُفت لے جائیں۔ اِس پر ٹماٹر بارے بات کروں گا کہ ایک معمولی زمیندار کے لئے یہ صورتِ حال کس قدر اذیت ناک ہے۔
بیج کی خریداری ، زمین کی تیاری ، پنیری کی کاشت ، نگہداشت اور گوڈی ، تقریباً سات آٹھ بار کیڑے مار سپرے ، پانی دینا ، چھ ماہ زمین مصروف رکھنا ۔ پکا ٹماٹر توڑنا ، پیک کرنا ، منڈی تک پہنچانا ، درمیانی لوگوں کا کمیشن ۔ زمین کا ٹیکس ، عُشر کی ادائیگی ۔ یہ سب اخراجات اکٹھا کریں تو ایک کلو تیار ٹماٹر منڈی تک پہنچانے کے لئے زمیندار کے اخراجات بارہ تا پندرہ روپے ہیں ۔
اگر دو طرفہ حکومتی مداخلت یا مناپلی نا ہو تو کُھلی مارکیٹ میں کسی بھی چیز کا ریٹ طلب اور رسد کے توازن سے طے ہوتا ہے ۔
جب ریٹ اوپر جا رہا تو ہر کوئی اعتراض کرتا لیکن جب زمیندار کو اس کی لاگت کا دسواں حصہ تک بھی نہیں ملتا تو کھیت سے اُٹھا کر منڈی تک لے جانے کی محنت اور کرایہ بھرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ منڈی میں ریٹ کم کرانے کا میکنزم تو ہے ۔ زمیندار کو اس کی محنت کا کم از کم معاوضہ دینے کا طریقِ کار کہیں بھی نہیں ۔
ایک زمیندار جس نے خرچ کر کہ ، دن رات محنت کر کہ فصل اُگائی ۔ اُسے اِس کا کم از کم معاوضہ تو ملنا چاہئے لیکن وہ بھی نہیں ملتا ۔ شاید ایک چھوٹا زمیندار کسی طرح بھی حکومتی داد رسی کے قابل نہیں ۔
اس صورت حال میں بہتر ہو گا کہ تیار سبزی کو اُٹھا کر وہیں کہیں دریا کے کنارے پھینک دیا جائے کیونکہ منڈی میں اتنی قیمت بھی نہیں ملنی کہ جتنا کھیت سے اُٹھا کر منڈی تک لے جانے کا کرایہ بنتا ہے ۔
ہر ایک جگہ پر کم از کم معاوضہ کے تعین کا طریقِ کار ہے ، زمیندار کے لئے کیوں نہیں ۔؟