پاکستان میں اس وقت ٹماٹر بے حد مہنگا بک رہا ہے۔ بڑے شہروں میں غالباً 500 روپے کلو سے بھی زیادہ۔ آئے روز ملک میں روزمرہ کی مختلف سبزیوں کی مارکیٹ میں شارٹیج یا کمی رہتی ہے جس سے انکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مگر رکیے ٹماٹر سبزی نہیں بلکہ ایک پھل ہے۔ ویسے بینگن بھی پھل ہے۔ ٹماٹر کا سائنسی نام Solanum lycopersicum L ہے۔ گھبرائے نہیں آپ اسے ٹماٹر ہی کہیئے۔
یہ بات سن کر آپ شاید حیران ہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد اور پُرکھوں کے کھانوں میں ٹماٹر نہیں ڈلتا تھا۔ زیادہ نہیں تین چار صدیاں پیچھے چلے جائیں تو برصغیر میں ٹماٹر تھا ہی نہیں۔ ٹماٹر دراصل لاطینی امریکہ اور میکسیکو میں اُگا کرتے تھے۔ پندرویں اور سولہویں صدی میں جب ہسپانویوں نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو یہاں کے مقامی لوگ ٹماٹروں کو اپنے کھانوں میں استعمال کیا کرتے تھے مگر یہ ٹماٹر سائز میں آج کے ٹماٹروں سے بے حد چھوٹے اور مٹر کے دانوں جتنے ہوتے۔ سولویں صدی میں ٹماٹر یورپ آئے مگر انہیں کھانوں میں نہیں بلکہ زیادہ تر سجاوٹ کے طور پر اُگایا جاتا۔ برِ صغیر میں بھی ٹماٹر سولہویں صدی میں پرتگالیوں نے متعارف کرایا۔ پرتگالیوں نے ہی یہاں آلو اور مرچیں بھی متعارف کرائیں گویا برِ صغیر میں پہلے نہ ٹماٹر تھا، نہ آلو اور نہ مرچیں۔ یہ تصور کرنا کچھ مشکل ہے کہ ہمارے پّرکھوں کے کھانے ان تمام سبزیوں اور پھلوں کے بغیر کیسے ہوتے ہونگے۔
مگر برِ صغیر کے کھانوں میں بھی سولہویں یا سترویں صدی میں ٹماٹر نہیں ڈلتا تھا۔ انیسویں صدی تک جب یورپ اور برطانیہ میں ٹماٹروں کو کھانوں میں استعمال کیا جانے لگا اور یہ مقبول ہوئے تو انگریزوں کو ٹماٹروں کی ضرورت پڑی۔ ایسے میں برِ صغیر کا موسم اور یہاں کی آب و ہوا ٹماٹر اُگانے کے لیے موافق تھی۔ لہذا انگریزوں نے بھارت میں ٹماٹر کو بڑے پیمانے پر کاشت کروانا شروع کیا جسے برطانیہ اور یورپ کی منڈیوں میں بھیجا جاتا۔ اُس زمانے میں بھی ہندوستانی کھانوں میں ٹماٹر محض ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا مگر آہستہ آہستہ یہ کھانوں کا بنُیادی جُز بنتا گیا۔
آج بھارت اور پاکستان میں 8 ہزار سے بھی اوپر کی ورائٹی کے ٹماٹر اُگتے ہیں۔ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹماٹروں کی کل سالانہ پیداوار تقریباً 57 ہزار ٹن ہے اور اسکی کاشت ملک کے ڈیڑھ لاکھ ہیکٹر کے رقبے پر ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی کل ٹماٹروں کی پیدوار میں پاکستان کا حصہ محض 0.3 فیصد ہے۔ پاکستان میں ٹماٹروں کی تقریباً چالیس فیصد پیداور سندھ میں ہوتی ہے جسکے بعد بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب شامل ہیں۔ پنجاب میں ٹماٹروں کی پیداوار دوسرے صوبوں کی نسبت کم ہے۔ ٹماٹر کی سب سے زیادہ پیداوار فی ایکڑ بلوچستان میں ہوتی ہے۔
گو ٹماٹر ایک منافع بخش فصل ہے مگر کئی اہم مسائل کی وجہ سے کسانوں تک اسکا مناسب منافع نہیں پہنچتا۔ بلوچستان کے ٹماٹر اّگانے والا کاشتکار کو فی ایکڑ منافع پنجاب کے کاشتکار سے زیادہ ملتا ہے۔ اسکی ایک وجہ تو زیادہ پیداور فی ایکڑ جو سستی مزدوری اور مناسب موسم سے جّڑی ہے جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ پنجاب کا ٹماٹر مارکیٹ میں کٹائی کے سیزن کے عروج پر آتا ہے جس سے مارکیٹ میں زیادہ رسد ہونے کے باعث اسکی قیمت کم لگتی ہے۔ جبکہ بلوچستان اور سندھ کا ٹماٹر باقی موسموں میں بھی آتا ہے۔
چونکہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہے لہذا سندھ اور بلوچستان سے آنے والے ٹماٹر کی ترسیل اور فاصلے کے باعث منڈیوں تک پہنچتے اسکی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ٹماٹر کی قیمت سارا سال بدلتی رہتی ہے کیونکہ مناسب سپلائی چین، سٹوریج اور منڈیوں میں حکومت کی جانب
قیمتوں پر مناسب کنٹرول نہ ہونے کے باعث ناجائز منافع خوری کے نتیجے میں اسکی قیمت عام شہری اور کسان کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
ٹماٹر کے کاشتکاروں کے مسائل دیکھیں جائیں تو بہتر کوالٹی کا بیج نہ ہونا، ہائیبریڈ یا امپورٹڈ بیج کا مقامی موسم کی تبدیلیوں کو برداشت نہ کرنا، جڑی بوٹیوں اور کیڑوں کے تدارک کی ادوایات کی خراب کوالٹی، کھاد کی خراب کوالٹی اور قیمتوں میں اضافہ، پیکجنگ کے مسائل، مناسب تربیت اور جدید طریقوں کا فقدان اور کٹائی کے دنوں میں مزدورں کی کمی جیسے اہم مسائل پاکستان میں ٹماٹر کی کاشت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ان مسائل کا حل کیا ہے؟ حکومت کی کسان دوست پالیسیاں!!
1. کاشتکاروں کو مناسب اور جدید تربیت فراہم کرنا جس میں بیج کے چناؤ سے لیکر پیکجنگ تک تمام عوامل شامل ہوں۔
2.مقامی بیج پر تحقیق اور اسکی پیداوار کو مزید بہتر بنانا۔ شدید گرمی اور موسمیاتی تبدیلوں سے مزاحمت کرنے والے بیج پر کام
3. امپورٹڈ اور ہائبریڈ بیج کی کوالٹی کی حکومت کی جانب سے مناسب جانچ کے بعد ہی اسے مارکیٹ میں فروخت کی اجازت
4. کھاد اور کیڑے مار ادوایات کی کوالٹی اور قیمت پر کنٹرول
5. آڑھتی اور کمیشن ایجنٹوں پر کنٹرول اور اس حوالے واضح قانون سازی اور حکمتِ عملی جس سے کسانوں کے استحصال کو روکا جا سکے
6. خوراک کی مصنوعات پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں مثال کے طور پر نیسلے یا اینگرو وغیرہ سے معاہدے جو کسانوں کو اُنکی فصل کی مناسب قیمت بلا تاخیر ادا کریں۔
7. مارکیٹ میں ٹماٹروں کی قیمت کے اُتار چڑھاؤ کو روکنے کے لیے اس بات پر غور کہ اگر بھارت سے ٹماٹر درآمد کیے جائیں تو اسکے کیا فوائد اور نقصان ہو سکتے ہیں؟
پاکستان جیسے زرخیز اور زرعی ملک میں مقامی پیداوار ہونے کے باوجود سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کا غریب عوام کی پہنچ سے دور ہونا اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان اور ریاستی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...