ایک نیا ریسٹورنٹ کھلا ہے جہاں پر آپ نے ٹماٹر کا سوپ آرڈر کیا۔ بہت پسند آیا۔ اس سے پہلے کہ بیرا بل لے کر آتا، آپ نے اپنا موبائل فون نکالا، ٹوئٹر کھولا، اس میں لکھا “زبردست سوپ، پی کر مزا آ گیا”۔ اور ساتھ ریسٹورنٹ کی ویب سائٹ کا ایڈریس ڈال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا ٹویٹ آپ کے فالوؤرز کے پاس پہنچ گیا۔ اور ہو سکتا ہے کہ کچھ کے پاس موبائل کے نوٹیفیکیشن کے طور پر۔ ان میں سے کچھ نے ری ٹویٹ کر دیا اور اس نیٹ ورک کا حصہ بن گیا۔ آپ کا موبائل خلا میں ایک سیٹلائیٹ کے جھرمٹ کے ساتھ منسلک ہے اور آپ کی جگہ کا علم ہو جاتا ہے۔ فورسکوائر نے اس جگہ کی مدد سے اس علاقے کے بارے میں معلومات اپڈیٹ کر لی اور جو لوگ اس علاقے کے ریسٹورنٹس یا چائے خانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان تک یہ معلومات پہنچ گئی۔ کسی اخبار نے مقامی کلچر کے صفحے کے مواد کے لئے اس موضوع کو سب سکرائیب کیا ہے۔ یہ انفارمیشن ان کے پاس بھی آ چکی ہے۔ گوگل نے ٹوئٹر سے یہ ڈیٹا حاصل کر لیا۔ اس میں ویب سائیٹ کا ایڈریس دیکھ کر اس ویب سائٹ کے پیچ رینک میں اضافہ ہو گیا۔ آپ کا ٹویٹ ایک ووٹ ہے کہ یہ ویب سائٹ درست ہے۔ اگر ریسٹورنٹ کے مالک نے گوگل الرٹ کو سبسکرائیب کیا ہے تو آپ کا فیڈ بیک بنا کسی انفارمیشن کی رکاوٹ کے اب اس کو مل چکا ہے۔ ٹوئٹر کے اس ڈیٹا کا درجنوں سروسز بھی مسلسل جائزہ لے رہی ہیں۔ شہر کے لوگوں کا موڈ کیسا ہے؟ کہاں پر لوگ کیا کر رہے ہیں؟ اس وقت کونسے موضوعات زیرِ بحث ہیں۔ ڈیٹا کے اس بینک میں یہ بھی ایک اضافہ تھا۔ یہ سب کچھ چند منٹ میں ہو گیا۔ آپ کا تجربہ اور تبصرہ ڈیٹا کے اس بڑے جال کا حصہ بن گیا اور سب کے علم میں کچھ اضافے کا باعث بن گیا۔
یہ ٹوئیٹ آپ کے دوست کے کسی دوست کے کسی دوست کے موبائل تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا آج کچھ نیا ٹرائی کرنے کا موڈ تھا۔ تو پھر کیوں نا ٹماٹر کا یہ سوپ ہی۔ اس نے آپ کے دئے گئے لنک پر کلک کیا۔ جگہ معلوم کی اور جی پی ایس سے اس جگہ کا راستہ دیکھ لیا۔ سیٹلائیٹس کے ذریعے راہنمائی کے ذریعے وہ بھی اس مزیدار سوپ کا لطف اٹھائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سرد جنگ کے دوران امریکہ کی لیب میں روسی سیٹلائیٹ کو دیکھا جا رہا تھا اور اس سے جی پی ایس نکلا تھا، جب سرن کی لیب میں معلومات کو جوڑنے کے خیالات کے قدیم شورے سے ورلڈ وائیڈ ویب برآمد ہو رہا تھا، تو ان میں سے کسی کے ذہن میں نہ تھا کہ چند دہائیوں کے بعد ان کا یہ کام لاہور میں کسی کے لئے لنچ کی راہنمائی کرے گا۔ یہ سب اس لئے ممکن ہے کہ اہم اور بڑی ایجادات چھپی رہتی ہیں اور اوپن پلٹ فارم بن سکتے ہیں۔ ٹویٹر کی اے پی آئی، موبائل میں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کی سروس، ٹی سی پی آئی پی وغیرہ جیسی پروٹوکولز، سیٹلائیٹ کے سگنل، ان سے جگہ کا ٹھیک ٹھیک معلوم کرنے جیسی چیزوں کا نہ آپ کو جاننے کی ضرورت ہے، نہ ہی آپ کے دوست کو۔
یہ صرف معلومات کا بہاؤ نہیں، معلومات کی بدلتی شکلیں ہیں اور اس کا مختلف طریقے سے استعمال ہے۔ قدرتی سسٹم بھی اسی طرح کام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل میں بیور نے ایک کمزور ہوتا درخت گرایا تھا۔ یہ اپنے گھر کی حفاظت کے لئے پانی پر بند باندھنے کے لئے کیا تھا۔ اس گرے ہوئے درخت کی لکڑی نرم ہونا شروع ہوئی۔ اس میں نئی زندگی نے جنم لیا۔ اس پر ہدہد آ گئے۔ نرم ہوتی لکڑی میں ان کے لئے خوراک آسان تھی اور سوراخ کرنا بھی۔ ایک سال تک یہ اس میں گہرے سوراخ بنا چکے تھے۔ لکڑی اب اس حالت میں آ چکی تھی کہ ہدہد کے لئے دلچسپی نہ رہی انہوں نے یہ ٹھکانہ چھوڑ دیا۔ یہ گہرے سوراخ چہچانے والے پرندوں کے لئے اپنی شکاری سے محفوظ رہنے کی اچھی جگہ تھی۔ انہوں نے یہاں کا رخ کیا۔ اب یہ چہچہاتا پرندہ یہاں پر ٹویٹ کر رہا ہے۔ اس کا یہاں پر چہچانا کیسے ممکن ہوا؟ اس کو خبر نہیں۔