بیسویں اور اکیسویں صدی سے میں یوں گزرا جیسے راہ گم کردہ مسافر بستی بستی شھر شھر کی خاک چھانتا ایک ملک کی نظر نہ آنے والی سرحد عبور کر جاۓ اور اسے خبر ھی نہ ھو کہ اس کا سفر تو مسلسل ھے مگر اب وہ دوسرے ملک کا مسافر ھو گیا ھے
اولیں یاد کا نقش ایک نیم روشن صبح کا ھے جب میں اپنے آبایؑ گاوں ۔محمد پور کی قدیم خستہ حال پتھر کی دیواروں والی حویلی میں "گھررر۔ گھرر" کی آواز سے جاگا تو اپنی ماں کو دیکھا جو فرش پر براجمان نہ جانے کیا چیز گھما رھی تھی ۔یہ چکی تھی جو ایک شھر کے باسی بچے نے کبھی دیکھی نہ تھی۔ میں اس کے پاس جا بیٹھا اور اسے بڑی مھارت سے اوپر والے پاٹ کو ایک لکڑی کے ھینڈل سے گھماتا دیکھتا رھا۔دوسرے ھوتھ سے وہ مٹھی بھر کے گندم درمیاں کے سوراخ میں ڈالتی تھی اور سفید آٹا دونوں پٹوں کے درمیان سے نکل کے فرش پربچھی ٹاٹ کی بوری پرایک دایرے میں جمع ھورھا تھا۔اس کا ایک ھاتھ تھکتا تھا تووہ بھاری گول پتھر کو دوسرے ھاتھ سے گھمانے لگتی تھی ۔پسینہ اس کے چھرے اور گردن پر پانی کی طرح بہہ رھا تھا مگر وہ دھیمے سروں میں نہ جانے کیا گارھی تھی۔۔شاید کویؑ راجستھانی لوک گیت۔۔۔۔۔۔۔ٰ
چھ سات سال بعد میں نے اسے چولھے میں جلنے والی گیلی لکڑیوں کی آگ کو پھنکنی سے پھونک مار مار کے روشن کرتے دیکھا اس وقت بھی پسینہ پانی بن کر اس کے جسم پر مسلسل بہہ رھا تھا اور دھویں سے سرخ آنکھوں سے رواں تھا مگر اسے فکر تھی تو توے سے اتری گرم روٹی میرے والد کوپھلی روٹی ختم ھونے سے پھلے فراھم کرنے کی۔۔ اس نے کبھی سختیؑ حالات کا گلہ اس لۓ نھیں کیا تھا کہ یہ تو ھر عورت کا مقدر تھا فرض تھا جو وہ بھی نبھا رھی تھی
آج میرے گھر کے امریکن کچن میں شاید وہ سب برقی آلات ھیں جن کا تصورکیا جاسکتا ھے اور جو سانیس نےعورت کی زندگی میں اسانی لانے کی سعیؑ مسلسل سے دیا ھے۔۔جب میں پیچھے دیکھتا ھوں تویہ ساینس ھی تھی جس نے میری زندگی کو بھی غیر محسوس طریقے پربدل کے رکھ دیا اور میں خوشی خوشی اس تبدیلی کو قبول کرتا گیا۔میرےمشاھدے نے سب سے پھلے وہ چکی دیکھی جوایک مشین تھی اس کا ایک دیو ھیکل فولادی پھیہ مسلسل گھومتا تھا اور کھیں چھت پر لگی دھویں کو خارج کرنے والی چمنی سے "پخ پخ" کی تیز آواز بھت دور تک سناٰ دیتی تھی میں گندم لے کر جاتا تھا۔گرم گرم آٹا لے کر لوٹتا تھا۔شاید 1953 نیں وہ چولھا آیا جس نے ھزاروں سال سے لکڑی جلانے کا عزاب اٹھانے اور دھویں سے کالے ھوجانے والے برتنوں کو راکھ سے رگڑرگڑ کے صاف کرنے والی عورت کے سارے دلدر دور کۓؑ۔یہ مٹی کے تیل کی بتیوں والا چولھا تھا جو خاموشی سے بغیر دھویں والا نیلا شعلہ دیتا تھا جسے وہ سھولت کے مطابق کھیں بھی رکھ سکتی تھی۔میں اسے سینکڑوں نھیں ھزاروں لاکھوں سال بعد عورت کی زندگی کا پھلا بڑا انقلاب کھوں گا،مایکرو ویو اوون یا مکسر گراینڈر جیسی ایجادات نے وقت بچانے میں مدد کی ھے مشقت سے رھاٰی دلانے والا وھی چولھا تھا
پھر ساینس کی ایجادات نے یکے بعد دیگرے میری زندگی بدلی۔ بجلی پھلے آیؑ اور ھر شام لالٹیں کا دھویں سے سیاہ شیشہ چمکانے اور بتی کاٹنی کے بعد روشنی کا دھندلکا پیدا کرنے کا مشکل عمل بٹن دبا کے چکا چوند پیدا کرنے کی آسانی میں ڈھل گیا،،بجلی کے نقش قدم پر ریڈیو آیا جو اپنی ذات میں ایک دم بخود کر دینے والا طلسم خانہ تھا کہ ذرا سویؑ گھمایؑ تو لندن کی خبروں کی جگہ دھلی سے لتا کی مدھر آواز سنایؑ دینے لگی۔میں بتا نھیں سکتا کہ اس کی خاطر میں نے کالج سے کتنی ناغہ کی کیونکہ اس وقت صبح 7 بجے شروع ھونے والی نشریات 9 بجے ختم ھوتی تھیں دوسری مجلس 12 سے 2تک چلتی تھی جس میں صرف فلمی گانے ھوتے تھے 20۔ 1 سے 30۔1تک تین ریکارڈ کلاسیکی موسیقی کے اور 2 بجے تک مغربی موسیقی۔۔تیسری مجلس شام 5 سے رات 11 بجے تک جاری رھتی تھی اور خبروں کے علاوہ اس کا سب سے اھم حصہ ڈراما ھوتا تھا جو ساری فیملی ریڈیو کے گرد جمؑع ھوکے مکمل خاموشی اور انھماک سے سنتی تھی۔ھمارے گھر میں اگلے 15 دن کے ریڈیو پروگرام بتانے والا رسالہ"آھنگ" ھر وقت سامنے رھتا تھا۔یہ طلسم 1964 میں ٹوٹا جب آواز کی جگہ جیتی جاگتی بولتی گاتی تصویر دکھانے والا جادو کا ڈبہ ایا۔ھمارے گھر میں اس نے 3 سال بعد قدم رکھا تو اس کی تصویر بے رنگ تھی۔رنگ باتیں کریں والی حیرانی یوں تو 1976 میں آی تھی لیکن میرے گھر میں 1983 تک وھی بے رنگ تصویر رھی
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/899807746767911