’’مبارک ہو! تم نے پُلٹزر
(Pulitzer)
پرائز جیت لیا ہے‘‘ کے وِن کارٹر کو یہ خبر ٹیلی فون پر نیویارک ٹائمز کی ایڈیٹر نے دی۔
’’کے وِن کارٹر‘‘ کون تھا؟ اور ہم اپنے قارئین کیلئے خصوصی طور پر اس کا ذکر کیوں کر رہے ہیں۔ یہ جاننے سے پہلے اتنا سن لیجئے کہ پُلٹزر انعام کیا ہے؟ یہ انعام ایک امریکی جوزف پُلٹزر نے جو خود بھی ایک اخبار نکالتا تھا‘ صحافت‘ موسیقی اور ادب کیلئے شروع کیا تھا۔
پہلا انعام 1917ء میں دیا گیا۔ اُس وقت سے لیکر اب تک ہر اپریل میں اس پرائز کا اعلان ہوتا ہے۔ پُلٹزر نے اپنی موت سے پہلے 1911ء میں اپنی ساری جمع پونجی نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کو دے دی تھی۔ یونیورسٹی ہی انعام کی تقسیم کا سارا کام کرتی ہے۔
ہاں! پُلٹزر نے اپنی دولت کا ایک حصہ یونیورسٹی میں صحافت کا ایک بڑا ادارہ (جرنلزم سکول) قائم کرنے کیلئے بھی وقف کر دیا!
کے وِن کارٹر کو پُلٹزر انعام جس شہکار تصویر پر ملا‘ وہ تصویر پوری دنیا کے مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ وہ طمانچہ جسے روکنے کیلئے خدا کے آخری رسولؐ نے بار بار تنبیہ کی‘ بار بار وارننگ دی‘ بار بار تلقین کی‘ مسلمانوں کے منہ پر یہ طمانچہ آخری نہیں۔ بوستانِ سعدی جسے ہم بھول چکے ہیں‘ پہلے ہی بتا چکی ہے …؎
عزیزی کہ از در گہش سر بتافت
بہر در کہ شُد ہیچ عزت نیافت
اس دروازے سے جس نے بھی منہ موڑا اسے کہیں عزت نہ ملی۔
کیون (کے وِن) کارٹر جنوبی افریقہ کا فوٹو گرافر تھا اور تصویری صحافت میں دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔ سوڈان میں تاریخ کا ہولناک قحط پڑا تو اقوام متحدہ کا ایک جہاز قحط زدگان میں خوراک تقسیم کرنے کیلئے سوڈان جا رہا تھا۔ کیون کو بھی اس میں سوار ہونے کا موقع مل گیا۔ جہاز نے وہاں آدھا گھنٹے رکنا تھا۔ بس اسی آدھ گھنٹے میں اس باکمال فوٹو گرافر نے یہ شہکار تصویر ۔۔ یہ ماتمی شہکار ۔۔ کھینچ ڈالی۔ تصویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
الفاظ کی کم مائگی اسے کیا خراج پیش کر سکے گی! لیکن پھر بھی قلم کا عجز آزما لیتے ہیں۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں پس منظر میں نظر آ رہی ہیں۔ ایک وحشت ہے اور بلاخیز اداسی جہاں موت کی سی خاموشی ہے۔ ایسی خاموشی جو تصویر میں صاف سنائی دے رہی ہے۔ ہاں ۔ بالکل صاف ۔ رسا چغتائی نے کہا تھا …؎
آخر میرا کیا ہو گا ………….. کیا ہو گا ویرانی کا
بس اس شعر کو ایک لاکھ سے ضرب دے لیجئے‘ جھونپڑیوں کے آگے کوڑا کرکٹ ہے‘ جھاڑ جھنکار‘ بنجر پن گندگی۔ درختوں کے زرد جُھلسے ہوئے پتے‘ ایک ناقابل بیاں افسردگی‘ پژمردگی۔ تصویر کے پیش منظر میں ایک سیاہ فام بچی جو ننگ دھڑنگ ہے‘ پاؤں کے بل بیٹھی ہے اسکے دونوں ہاتھ زمین پر اس طرح ہیں کہ ہتھیلیاں اوپر کی طرف ہیں اور اسکا سر ان ہتھیلیوں پر جھکا ہوا ہے۔ گلے میں سفید سی مالا ہے۔ شاید سفید منکوں کی۔ تصویر میں پسلیاں ۔۔ تقریباً ۔۔ گنی ہی جا سکتی ہیں۔
ابھی دل تھام کر رکھیں اور آنسوؤں کو رخساروں پر بہنے کی اجازت نہ دیں‘ قلاش لفظوں اور بے بس قلم نے ابھی تک کچھ بھی نہیں بیان کیا۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور اٹھنے کی سکت نہ رکھنے وال بھوکی بچی کے درمیان‘ بچی کے بالکل پیچھے۔ چند گز نہیں ۔۔ چند فٹ کے فاصلے پر ایک بہت بڑا گدھ بیٹھا ہے جو بچی کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں تصویر کو زبان اور لفظ مل گئے ہیں‘ وہ بتا رہی ہے کہ یہ گدھ بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ اسے کھائے۔
یہ تصویر چھپی تو مغربی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ سب زبانوں پر ایک ہی سوال تھا ۔۔ کیا وہ بچی بچ گئی؟ کیا وہ وہاں پہنچ سکی جہاں اقوام متحدہ خوراک تقسیم کر رہی تھی؟ اس سوال کا جواب کوئی نہ دے سکا۔ کیون کو انعام ملا تو اس پر لوگوں نے لعن طعن کی کہ فوٹو لینے کے بعد بچی کو اٹھا کر خوراک کے مرکز تک لے جانا اس کا فرض تھا۔ تین ماہ بعد کیون کارٹر نے ذہنی تناؤ سے مجبور ہو کر خودکشی کر لی۔ اُسکی ڈائری سے یہ تحریر ملی۔
""
میرے خدا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی خوراک ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ کتنی ہی بدذائقہ کیوں نہ ہو اور میں کتنا ہی سیر کیوں نہ ہو جاؤں! میرے خدا! اس بچی کی حفاظت کر‘ اور اسے اس مصیبت سے رہائی دے۔ کاش ہم حساس ہو جائیں اور ذاتی مفادات اور خود غرض ذہنیت ہمیں اندھا نہ کر دے۔ کاش یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی رہے کہ ہم (جنہیں خوراک میسر ہے) کتنے خوش قسمت ہیں اور ہم یاد رکھیں کہ ضروری نہیں ہم ہمیشہ خوش قسمت ہی رہیں گے۔
""
اپنی زندگی ہی میں اپنی لاش کو نوچنے والے گدھ سے چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھی یہ بچی کون ہے اور اس کا کیا نام ہے؟
کسی کو نہیں معلوم ۔۔ لیکن ایک بات سب کو معلوم ہے کہ اس بچی کے ہم مذہب شہزادے ۔۔ جو اُسکے پڑوس کی مملکتوں میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ اربوں میں نہیں کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ بحرِ روم میں واقع پورے پورے جزیرے خرید چکے ہیں۔ ایک رات کے کچھ حصے میں لاکھوں ڈالر قمار بازی پر لگا دیتے ہیں۔ اُنکے ذاتی جہاز اور ذاتی بجرے ہیں اور ایک ایک بجرے (YACHT) کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ یہ دستر خوان سے اٹھتے ہیں تو سینکڑوں بچوں کی خوراک بچی ہوئی ہوتی ہے جسے پھینک دیا جاتا ہے۔
اس بچی کے ہم مذہب حکمرانوں کے محلات پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کسی میں جرأت ہے تو اس بات کو غلط ثابت کر دے کہ جو محلات رباط‘ کاسا بلانکا‘ قاہرہ‘ دمشق‘ جدہ‘ دوحہ‘ دبئی‘ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ استنبول‘ جکارتہ‘ بالی اور برونائی میں ہیں‘ انکے سامنے یورپ اور امریکہ کے ’’محلات‘‘ سرونٹ کوارٹر لگتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا محل ۔۔ سب سے بڑا رہائشی مکان ۔۔ ایک مسلمان بادشاہ ہی کا تو ہے جو اکیس لاکھ مربع فٹ سے بھی بڑا ہے۔ اس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے‘ دو سو ستاون باتھ روم‘ پانچ سومنگ پُول (حوض) دو سو گھوڑوں کیلئے ائر کنڈیشنڈ اصطبل اور ایک سو دس کاروں کے گیراج ہیں اور ضیافت والے ہال میں پانچ ہزار مہمان کھانا کھا سکتے ہیں! گدھ سے چند فٹ کے فاصلے پر مرنے والی یہ بچی اسی محل کے مالک کی ہم مذہب ہے۔ یہ بھی سُنتے جائیے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی رہائش گاہ میں چھ سو فانونس‘ اکاون ہزار بلب‘ اٹھارہ برقی سیڑھیاں اور تیرہ سیٹلائٹ ڈشیں نصب ہیں۔
یہی وہ بچی ہے جس کے رسولؐ نے حکم دیا تھا کہ پلیٹوں کے ساتھ لگا ہوا کھانا بھی ضائع نہ ہو‘ انگلیاں بھی چاٹی جائیں‘ یہ وہی بچی ہے جس کے ہم مذہبوں کو بتایا گیا ہے کہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے والے کو ستر گز لمبی زنجیر سے باندھا جائے گا لیکن اس بچی کے ہم مذہب علما چندہ تو مانگتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ ’’طعامِ مسکین‘‘ ایک الگ فرض ہے جس کا زکوٰۃ صدقے کی ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں!
آج اگر رائے ونڈ کے شریف‘ گجرات کے چوہدری‘ لاہور کے ہمایوں اختر‘ خیبر پختون خواہ کے سیف اللہ‘ اور کراچی کے ہاشوانی اور لاکھانی مل بیٹھ کر ’’طعامِ مسکین‘‘ کیلئے ایک تہائی نہ سہی‘ ایک چوتھائی دولت ہی وقف کر دیں تو آدھی مسلمان دنیا سے بھوک ختم ہو جائے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ اس سے دولت میں اضافہ ہی ہو گا ۔۔ کمی نہیں واقع ہو گی!